افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ پاک فوج کا بھرپور جواب

افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ پاک فوج کا بھرپور جواب
گزشتہ روز پاک افغان سرحد پر افغان فورسز کی جانب سے کی گئی بلا اشتعال فائرنگ نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا ہے۔ باوثوق سیکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بلوچستان کے علاقے بارام چاہ پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کا مقصد سرحد پار سے دہشت گردوں کی دراندازی کو تحفظ دینا اور پاکستان کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ کافی عرصے سے ایک جاری سلسلہ ہی، جس میں افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان حکومت، جس نے اقتدار میں آتے ہی ہمسایہ ممالک کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی بھی دہشت گرد گروہ کو اپنی سرزمین پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دے گی، وہ آج کیوں مسلسل ان دعووں کی نفی کر رہی ہے؟ افغان حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے عناصر، خصوصاً دہشت گرد گروہ جیسے ٹی ٹی پی اور داعش، نہ صرف پاکستانی فورسز بلکہ عام شہریوں پر بھی حملے کررہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو سرحد پار سے پناہ، تربیت، اسلحہ اور لاجسٹک سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، جس سے پاکستان کی ریاستی خودمختاری اور قومی سلامتی کو براہِ راست خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ پاکستانی افواج کی جانب سے افغان فورسز کی اس اشتعال انگیزی کا بروقت اور سخت جواب دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق نہ صرف درجنوں افغان فوجی اور دہشت گرد ہلاک ہوئے بلکہ کئی چیک پوسٹیں بھی تباہ کردی گئیں۔ یہ کارروائیاں پاکستان کے اس اصولی موقف کا عملی اظہار ہیں کہ ریاست کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور جو بھی عنصر پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرے گا، اسے موثر جواب دیا جائے گا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستانی افواج نے یہ کارروائیاں دفاعی مقاصد کے تحت کیں۔ افغان فورسز کی بلاجواز اشتعال انگیزی کو ناکام بنانا اور دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانا، ایک ذمے دار ریاست کی طرف سے نہ صرف جائز بلکہ ضروری اقدام تھا۔ یہ امر بھی خاص توجہ کا متقاضی ہے کہ افغان وزیر خارجہ اسی وقت بھارت کے دورے پر موجود تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اس تناظر میں یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ افغانستان میں موجود کچھ عناصر بھارتی سرپرستی میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ بھارت کی افغانستان میں موجودگی اور وہاں پر پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دینا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر بھی اس حوالے سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا کے سامنے یہ واضح کیا جاسکے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور اس کے پسِ پردہ کون سی قوتیں سرگرم ہیں۔ طالبان حکومت نے جب 2021ء میں افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تو عالمی برادری، خاص طور پر پاکستان، نے امید کی کہ نئی حکومت اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے نہیں دے گی، مگر عملی طور پر صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ٹی ٹی پی کے رہنما کھلے عام افغانستان میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ پاکستان میں ہونے والے کئی دہشت گرد حملوں کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ افغان طالبان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ دنیا سے تسلیم شدہ حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ افغانستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کیے جائیں۔ لاکھوں افغان مہاجرین کو کئی دہائیوں سے پاکستان نے پناہ دی، ان کی تعلیم، صحت اور روزگار کا بندوبست کیا مگر اس نیک نیتی کا جواب بدقسمتی سے اشتعال انگیزی اور دراندازی کی صورت میں ملا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سخت اور واضح پالیسی اختیار کرے۔ گزشتہ روز کی جوابی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کسی بھی دہشت گردی یا جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر افغان سرزمین سے کی جانے والی دراندازی اور دہشت گردوں کو دی جانے والی پناہ کے خلاف واضح اور مدلل کیس پیش کرے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی افواج کی ان دفاعی کارروائیوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ سرحدی علاقوں میں بسنے والے پاکستانی شہری ہر روز دہشت گردی کے خطرے میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی سلامتی کو یقینی بنانا ریاست اور پاک فوج کی ترجیح ہے۔ یہ وقت قومی یکجہتی کا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر اس قومی مسئلے پر متحد ہونا ہوگا۔ دہشت گردی اور بیرونی مداخلت سے مقابلے کے لیے پوری قوم کو یک زبان اور یک جان ہونا ہوگا۔ پاک افغان سرحد پر حالیہ کشیدگی اور پاک فوج کا فوری بھرپور جواب ثابت کرتا ہے کہ دفاع وطن کے لیے ہمارے بہادر جوان و افسر ہر دم چوکس و تیار ہیں۔ افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ، خوارج کو سرحد پار کروانے کی کوششیں اور دہشت گردوں کو دی جانے والی پناہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ پاکستانی افواج نے جس مستعدی، مہارت اور پیشہ ورانہ انداز سے دشمن کو جواب دیا، وہ قابلِ فخر ہے۔ اس مسئلے کا دیرپا حل سفارتی، سیاسی اور معاشی اقدامات سے بھی ممکن ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کا بھرپور دفاع کرے اور دنیا کو یہ باور کروائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ صرف متاثرہ فریق نہیں، بلکہ ایک فیصلہ کن قوت بھی ہے۔ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ پُرامن تعلقات ضرور قائم رکھنے چاہئیں، مگر عزت، خودمختاری اور سلامتی کی قیمت پر ہرگز نہیں۔
چکن گونیا کا پھیلائو، تشویشناک
پشاور کے علاقے سفید ڈھیری میں چکن گونیا وائرس کی تصدیق اور اس کے تیزی سے پھیلائو نے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے پاکستان کے لیے سنگین طبی انتباہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اب تک 16 کیسز کی باقاعدہ تصدیق ہوچکی جب کہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان پہلے ہی ڈینگی، ملیریا اور دیگر متعدی بیماریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایسے میں چکن گونیا جیسی وبا کا دوبارہ سر اٹھانا صحت عامہ کے نظام کی کمزوریوں اور بروقت اقدامات کے فقدان کی غمازی کرتا ہے۔ چکن گونیا وائرل انفیکشن ہے جو متاثرہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، جوڑوں اور جسم میں شدید درد، خارش اور کمزوری شامل ہیں۔ اگرچہ یہ بیماری مہلک نہیں، تاہم اس کی شدت اور پھیلائو کی رفتار معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے، خصوصاً ان علاقوں میں جہاں صحت کی سہولتیں پہلے ہی ناکافی ہیں۔ سفید ڈھیری کو آئوٹ بریک زون قرار دینا اور فوری کنٹرول روم کا قیام، ایپیڈیمیولوجیکل انویسٹی گیشن، فوگنگ، لاروی سائیڈنگ اور آگاہی مہم کا آغاز، بلاشبہ قابلِ تعریف اقدامات ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ہم اس مقام تک پہنچے ہی کیوں؟ ہر سال بارشوں کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا پھیلائو معمول بن چکا، مگر ہماری حکومتی مشینری کی تیاری بدستور روایتی اور غیر موثر نظر آتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو ایک جامع، مربوط اور قومی سطح کی ’’ویکٹر کنٹرول پالیسی‘‘ کی ضرورت ہے جو نہ صرف ڈینگی بلکہ چکن گونیا، زیکا اور ملیریا جیسے دیگر وائرل انفیکشنز کو بھی کور کرے۔ یہ امر بھی قابلِ افسوس ہے کہ ملک کے بیشتر شہروں میں نکاسی آب کا نظام بوسیدہ ہے، گندگی کے ڈھیر جگہ جگہ موجود ہیں اور مچھروں کی افزائش کے لیے موافق ماحول ہر طرف پایا جاتا ہے۔ عوام کی آگاہی بھی بڑا چیلنج ہے۔ اکثر لوگ چکن گونیا کو عام بخار یا موسمی بیماری سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں، جس کے باعث وائرس مزید پھیلنے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ میڈیا، مقامی حکومتیں، مذہبی و سماجی رہنما اور تعلیمی ادارے اس معاملے میں فعال کردار ادا کریں اور عوام کو بیماری کی علامات، احتیاطی تدابیر اور علاج کے حوالے سے مکمل آگاہی دیں۔ پشاور کا واقعہ وارننگ ہے، جس سے سیکھنے اور بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی غفلت برتی گئی تو چکن گونیا دیگر شہروں، میں تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے، جس کے نتائج ہمارے کمزور صحت کے نظام کے لیے سنبھالنا مشکل ہوجائیں گے۔ اس وبا کے سدباب کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر ذمے داری کا مظاہرہ ناگزیر ہے۔





