انصاف

انصاف
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
کسی زمانے میں ایک عادل و دانا بادشاہ کی حکومت تھی۔۔ وہ روزانہ دربار لگاتا اور عوام کے مسائل سنتا تھا۔ ایک دن ایک بوڑھی عورت فریاد کرتی ہوئی دربار میں آئی۔ اس نے کہا۔ ’’ اے بادشاہ۔ میرے ساتھ ایک امیر آدمی نے ظلم کیا ہے، میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں کئی دنوں سے دربار کے چکر لگا رہی ہوں، مگر میرا مقدمہ سنا ہی نہیں جا رہا‘‘۔ بادشاہ نے وزیر سے پوچھا ’’ یہ عورت کب سے انصاف مانگ رہی ہے؟‘‘۔ وزیر نے شرمندگی سے جواب دیا’’ جہاں پناہ، یہ عورت تین ماہ سے روز دربار کے دروازے پر کھڑی ہے، مگر اس کا مقدمہ ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا‘‘۔ یہ سن کر بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ وہ فوراً بولا ’’ اگر انصاف وقت پر نہ دیا جائے تو وہ انصاف نہیں ظلم بن جاتا ہے۔ یہ عورت تین ماہ سے روز یہاں آرہی ہے اور ہمارا نظام اسے سن بھی نہیں سکا؟‘‘۔ بادشاہ نے اسی وقت حکم دیا کہ اس عورت کا مقدمہ فوراً پیش کیا جائے۔ تفتیش ہوئی تو پتہ چلا کہ عورت کا حق بالکل واضح تھا اور امیر آدمی نے دھوکے سے زمین پر قبضہ کیا تھا۔ بادشاہ نے نہ صرف زمین واپس کرائی بلکہ اُس امیر شخص کو عبرتناک سزا دی اور اس تاخیر کے ذمہ دار اہلکاروں کو بھی برطرف کر دیا۔ آخر میں بادشاہ نے سب درباریوں سے کہا ’’ یاد رکھو۔ انصاف اگر تاخیر سے دیا جائے تو وہ ظلم سے کم نہیں ہوتا۔ ایک عادل حکمران کا فرض ہے کہ وہ انصاف کو بروقت اور بغیر کسی خوف یا رعایت کے پہنچائے‘‘۔
انصاف میں تاخیر، ظالم کو ہمت اور مظلوم کو مایوسی دیتی ہے۔ ایک مضبوط نظامِ عدل وہ ہے جو بروقت اور غیر جانب دارانہ فیصلے کرے۔ حاکم، حکمران یا جج کا فرض ہے کہ انصاف کو تیز، صاف اور واضح انداز میں فراہم کرے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’ اور اگر تم ان ( فریقین) کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے‘‘ ( سورہ المائدہ ، 42)۔
حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ کفر پر حکومت باقی رہ سکتی ہے، مگر ظلم پر نہیں‘‘۔
جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا وہاں ظلم بڑھتا ہے اور قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ ’’ انصاف قائم رکھو، کیونکہ عدل ہی سلطنتوں کی بنیاد ہے‘‘۔
علامہ اقبالؒ نے کہا کہ ’’ جس کے دل میں عدل نہیں، اُس کے پاس حکومت کا حق بھی نہیں‘‘۔
تاریخ میں ایسی بہت سی قومیں صرف غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے برباد ہوئیں۔ جیسا کہ بنی اسرائیل، جن کا نظام عدالت کمزوروں کو تو تختہ دار پہ لٹکا دیتا تھا مگر طاقت ور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا تھا۔ اگر موازنہ کیا جائے تو ہمارے نظام عدل کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے جو کہ انصاف کی منصفانہ تقسیم سے عاری ہے۔ جس کا اظہار ہمارے سابقہ اور موجودہ چیف جسٹس صاحبان اپنے بیانات میں کر چکے ہیں۔ ہماری عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیس زیرِ التوا ہیں۔ معاشرہ میں تاخیری انصاف دراصل انصاف سے روگردانی کے مترادف ہے۔ پاکستانی عدلیہ کو سب سے بڑا چیلنج مقدمات کے طویل التوا کا سامنا ہے۔ 31دسمبر 2023ء کو روزنامہ پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں 56155مقدمات زیر التوا ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 1.8ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ججز کی کمی، عدالتی عملے کی نااہلی اور عدالتی وسائل کی قلت ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سائلین کو سالوں تک انصاف کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ
Justice delayed is Justice denied
یعنی انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کرنا ہے۔





