قرض کا جال

بزم نو
اے اے جان۔۔۔۔
پاکستان ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں قوم کی اجتماعی سانسیں قرض کے بوجھ کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ یہ وہ قرض ہے جو برسوں سے بڑھتا رہا، مگر اس کا بوجھ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہر پاکستانی اپنے کندھوں پر ایک ایسا وزن محسوس کرتا ہے جو اُس کے بس سے باہر ہے۔ حکومت کی مالیاتی رپورٹوں کے مطابق سرکاری قرضے تقریباً چھہتر کھرب روپے کی سطح تک پہنچ گئے ہیں جن میں سے اکیاون کھرب روپے اندرونی قرض ہیں اور پچیس کھرب روپے بیرونی قرض کی شکل میں ہیں۔ یہ صرف کاغذی اعداد و شمار نہیں بلکہ وہ زنجیریں ہیں جو ہماری معیشت کی آزادی کو جکڑ کر رکھے ہوئے ہیں۔
قرض کی یہ کہانی دراصل محض معیشت کی تکنیکی بحث نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں بار بار قرض لیا گیا، مگر اس کے نتیجے میں کوئی پائیدار منصوبے، کوئی نئی صنعتیں اور کوئی دیرپا روزگار پیدا نہ ہوا۔ قرض کی رقم یا تو پرانے قرض اتارنے میں لگ گئی یا پھر ضائع ہوتی سبسڈیوں اور غیر پیداواری اخراجات میں کھو گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم سود کی ادائیگی پر اپنی قومی آمدنی کا قریب سات سے آٹھ فیصد خرچ کر رہے ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو تعلیم، صحت، روزگار اور ترقیاتی منصوبوں پر لگنی چاہیے تھی مگر وہ سب کچھ چند اداروں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کھاتوں میں چلا جاتا ہے۔
ملک کی معاشی تصویر میں ایک عجیب تضاد بھی ہے۔ ایک طرف یہ حال ہے کہ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، چھوٹے کاروبار اجڑ رہے ہیں، بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور بجلی و گیس کے بل عوام کے بس سے باہر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ توڑ بلندیوں پر جا رہی ہے۔ بظاہر یہ منظر خوشحالی کا پیغام لگتا ہے مگر درحقیقت یہ تصویر مصنوعی ہے۔ بڑے سرمایہ کار اور چند ادارے اربوں روپے کے سودوں میں منافع کما رہے ہیں، جبکہ حقیقی معیشت، وہ معیشت جو کسان، مزدور، چھوٹے تاجر اور صنعت کار سے جڑی ہے، تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
یہ سوال ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں اُبھرتا ہے کہ آخر یہ ملک اس طرح کب تک چل سکتا ہے؟ کیا کوئی معیشت محض قرض اور سود کے سہارے کھڑی رہ سکتی ہے؟ کیا وہ قوم جو محنت اور پیداوار کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پر زندہ ہو، خودمختار رہ سکتی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ہر پاکستانی کے حصے میں قرض کا پہاڑ تقسیم ہو چکا ہے تو اس ملک کے مستقبل پر اعتماد کون کرے گا؟
اگر ہم ماضی پر نگاہ ڈالیں تو قرضوں کا یہ گورکھ دھندا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مسلسل غفلت اور بدعنوانی کا حاصل ہے۔ کبھی قرض لیا گیا تاکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم کیے جائیں، کبھی بجلی کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے، کبھی دفاعی ضروریات کے بہانے اور کبھی سیاسی پراجیکٹس کے لیے۔ مگر ان سب قرضوں کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ نہ ہوا۔ جب سرمایہ کاری نئی صنعت نہ لگائے، جب فیکٹریاں نہ چلیں اور جب برآمدات نہ بڑھیں تو قرض لینے کا مطلب محض مستقبل کو گروی رکھنا رہ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس تلخ حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں کہ قرضوں کا حجم چالیس ارب ڈالر سے بڑھتے بڑھتے تقریباً نوے ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر چند ہفتوں کے درآمدی بل سے زیادہ نہیں رہتے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر اربوں ڈالر کے قرضے لینے کے باوجود ملک کے اسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتیں، تعلیمی اداروں میں معیار نہیں بڑھتا، اور صنعتکار بجلی و گیس کے بلوں سے تنگ آ کر کاروبار بند کر دیتے ہیں تو آخر یہ دولت گئی کہاں؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب ایک ایسے چکر کا حصہ ہے جسے قرضوں کا جال کہا جاتا ہے۔ قرض لیا جاتا ہے تاکہ پرانے قرض اتارے جائیں، مگر چونکہ نئے قرض پر سود بھی بڑھ جاتا ہے اس لیے اصل بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے۔ جب حکومت اندرونی ذرائع سے وسائل جمع کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو بیرونی قرض دہندگان کی شرائط اور سخت ہو جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پالیسی سازی میں آزادی ختم ہو جاتی ہے، بجٹ پر عوامی ترجیحات کے بجائے قرض دہندگان کی ترجیحات غالب آ جاتی ہیں، اور یوں معیشت کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں۔
یہ صورتحال ایک اور سوال بھی جنم دیتی ہے: کیا ان حالات میں چھوٹے کاروبار، کارخانے اور صنعتیں چل سکتی ہیں؟ جواب تلخ ہے۔ جب شرح سود گیارہ فیصد پر کھڑی ہو، جب توانائی کی لاگت ہر سال بڑھتی جائے، جب حکومت کاروبار کو سہولت دینے کے بجائے ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دے تو ایک عام صنعتکار یا تاجر کس طرح مقابلہ کرے گا؟ یہ ہی وجہ ہے کہ بے شمار فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں وہ بھی اپنی نصف صلاحیت سے کم پر کام کر رہی ہیں۔ چھوٹے کاروبار والے دکاندار اور ورکشاپ کے مالک قرض کی قسط اور بجلی کے بل کے درمیان پسے جا رہے ہیں۔اگرچہ اسٹاک مارکیٹ کی ریکارڈ بلندیوں کو بعض حلقے کامیابی کی علامت بتاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف کاغذی سرمایہ کاری کا کھیل ہے۔ اصل معیشت، وہ جو کسان کے کھیت، مزدور کے ہاتھ اور صنعتکار کی مشین سے جڑی ہے، اگر کمزور ہو تو اسٹاک مارکیٹ کی چمک دھوکہ ہے۔ معیشت تب ہی صحت مند کہلا سکتی ہے جب عام آدمی کی آمدنی بڑھے، جب نئی ملازمتیں پیدا ہوں، جب برآمدات میں اضافہ ہو اور جب قرض کا بوجھ کم ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ معیشت کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ اصلاحات کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ ٹیکس نظام کو وسیع کیے بغیر، توانائی کے شعبے میں بدعنوانی اور نقصانات کو ختم کیے بغیر، اور سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری اپنائے بغیر معیشت پائیدار نہیں بن سکتی۔ قرض لینا مسئلے کا وقتی حل ہو سکتا ہے مگر مستقل علاج نہیں۔ مستقل علاج یہ ہے کہ پیداوار بڑھے، برآمدات میں اضافہ ہو، اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اصلاحات آسان نہیں۔ ہر قدم پر سیاسی رکاوٹیں ہیں، طاقتور طبقات کے مفادات ہیں اور عوامی ردِعمل کا خطرہ ہے۔ مگر اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو صورتِ حال مزید بگڑ جائے گی۔ اگر قرض کی خدمت کا بوجھ قومی آمدنی کے آٹھ فیصد سے بڑھ کر دس یا گیارہ فیصد تک پہنچ گیا تو پھر بجٹ میں تعلیم، صحت اور ترقی کے لیے کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ یہ ملک ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو پہلے ہی بوجھ سے ڈوبنے کے قریب ہے۔ اب وقت ہے کہ یا تو ہم اس بوجھ کو کم کریں یا پھر سب کچھ بہا لے جانے کا خطرہ مول لیں۔
پاکستان کی معاشی تصویر میں امید کی کرن بھی ہے۔ اگر بروقت اصلاحات ہو جائیں، اگر ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے، اگر توانائی کے شعبے میں شفافیت آئے، اگر برآمدات پر توجہ دی جائے اور اگر سیاسی قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو ابھی بھی یہ ملک بحران سے نکل سکتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ محض نعروں اور بیانات سے نہیں ہوگا، بلکہ عملی اقدامات اور مستقل مزاجی سے ہوگا۔
قوم کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ قرض کی چمک دمک اور مصنوعی سہولتوں کے بجائے حقیقی محنت اور قربانی کے ذریعے معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم سب کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم آنے والی نسلوں کو قرض کی غلامی میں دھکیلیں گے یا پھر ایک ایسا نظام بنائیں گے جہاں محنت، پیداوار اور دیانت داری ہی ترقی کا راستہ ہوں۔اختتامیہ:
پاکستان آج ایک خطرناک قرض کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ جال برسوں کی بدانتظامی، بدعنوانی اور غفلت سے بُنا گیا ہے۔ مگر یہ جال ٹوٹ بھی سکتا ہے اگر سیاسی قیادت اور عوام مل کر درست فیصلے کریں۔ ورنہ تاریخ ہمیں ایک ایسے ملک کے طور پر یاد رکھے گی جو قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر بیٹھا۔





