عافیت اور عاقبت

عافیت اور عاقبت
ناصر اقبال خان۔۔۔۔
ہمارا نظام کائنات اور کاروبار حیات جس قادر، کار ساز اور قوی اللہ ربّ العزت کے قبضہ قدرت میں ہے، اسے سمندری حیات سمیت انسانوں اور حیوانوں کی سبھی زبانیں بلکہ سرگوشیاں اور خاموشیاں بھی سمجھ آتی ہیں لیکن اس نے اپنے محبوب اور حبیب سرور کونین حضرت سیّدنا محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کی وساطت سے عہد جاہلیت میں عربوں کو مخاطب، کامیاب زندگی و بندگی کا شعور اور بلندی عطاء کرنے کیلئے عربی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔ شنید ہے جنت میں جنتی ایک دوسری کے ساتھ عربی میں بات چیت کیا کریں گے۔ مٹھی بھر عربوں سے اِسلام شروع ہو ا تھا لیکن الحمدللہ آج مسلمان اربوں میں لیکن بدقسمتی سے منقسم، منتشر اور متفقہ قیادت سے محروم ہیں۔ عربوں کی کایا پلٹ جائے اس کیلئے عربی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا تھا۔ عہد حاضر میں قرآن مجید کے تراجم ہر اہم زبان میں دستیاب ہیں لہذا راقم سمیت کوئی بھی مسلمان اس الہامی کتاب کے سمجھ نہ آنے کا عذر پیش نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید فرقان حمید اللہ عزوجل کا زندہ معجزہ ، ہر عہد کے انسانوں کیلئے کامل ضابطہ حیات اور یقینی راہ نجات ہے۔ تعجب ہے اہل عرب نے اپنی مادری زبان میں بھی قرآن حکیم کا نور سے بھرپور پیغامِ حق سمجھا اور نہ اسے مشعل راہ بنایا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ الممتحنہ میں عربوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے دوٹوک انداز میں حکم صادر فرمایا ہے، ’’ اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو کہ ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جوسچا دین آیا ہے اس کے یہ منکر ہوچکے ہیں، رسولؐ کو اور تمہیں اس بات پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ اپنے ربّ پر ایمان لے آئے ہو، اگر تم جہاد کیلئے میری راہ میں اور میری رضا جوئی کیلئے نکلے ہو تو ان کو دوست نہ بنائو، تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی اور ظاہر کرتے ہو، اور جس نے تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستہ سے بہک گیا ہے‘‘۔
اللہ پاک ایک بار پھر ہماری اصلاح اور فلاح کیلئے قرآن مجید کی سورہ المائدہ میں ارشاد فرماتا ہے، ’’ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا، بے شک وہ بھی انہی میں شمار ہوگا، بے شک اللہ ظالم افراد کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔
اللہ ربّ العزت کی ان مقدس آیات میں واضح ہدایات بلکہ شبہات سے پاک احکامات کے بعد دنیا کا کوئی مسلمان اسرائیل کو تسلیم جبکہ امریکہ پر اعتماد کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
پندرہ سو سال میں پیش آنیوالے متعدد واقعات قرآن مجید کی حقانیت اور صداقت کی شہادت دے رہے ہیں۔ قرآن مجید کا بتایا راستہ دونوں جہانوں میں کامیابی سے آراستہ ہے۔ یہود و ہنود اور نصاریٰ کی رگ رگ میں دوڑتا زہر اسلام کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے ہے، یاد رکھیں گھوڑا گھاس سے دوستی کر سکتا ہے لیکن یہود و ہنود اور نصاریٰ کسی قیمت پر مسلمانوں کے دوست اور ان سے مخلص نہیں ہو سکتے کیونکہ دوسرے مذاہب کو اسلام کے ہوتے ہوئے دوام نہیں مل سکتا۔ عرب ملکوں نے حالیہ دہائیوں میں جو خطیر سرمایہ ’’ نیاز‘‘ کے طورپر امریکہ کی ’’ نذر‘‘ کیا، اگر وہ اپنے دفاع پر صرف کیا ہوتا تو آج انہیں امریکہ کے بغل بچے اسرائیل سے ہرگز خطرہ محسوس نہ ہوتا اور وہ اپنے ہاتھوں سے’’ طاغوت‘‘ کا ہر ایک ’’ تابوت‘‘ سمندر برد کر دیتے۔ اب بھی وقت ہے ’’ عربوں‘‘ کو امریکہ کیلئے’’ اربوں‘‘ کے نذرانے اور دوستی کے ترانے بند کرنا ہوںگے۔ انہیں نصرت کیلئے اغیار کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قدرت و قوت، اپنے ایمان کی حلاوت اور زور بازو پر انحصار کرنا ہوگا۔ افسوس ہمارے عہد کے مسلمان پورے پورے اسلام میں داخل ہوئے اور نہ ہم نے دین فطرت اسلام کو اس کے فطری انداز سے اپنے قلوب میں سرائیت کرنے دیا۔ آج بھی دین فطرت اسلام دنیا میں سب سے زیادہ پھیل اور پھل پھول رہاہے، ہر رنگ کی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اربوں میں چند ہزار مسلمان ناقص، نادان یا ناتواں ہو سکتے ہیں لیکن اسلام آج بھی کامل اور طاقتور ہے۔ کوئی کافر کسی مسلمان کے ناپسندیدہ کردار کی بنیاد پر اسلام کو ہدف تنقید نہیں بنا سکتا۔ عالمی شہرت یافتہ باکسر مائیک ٹائسن نے دامن اسلام میں آنے کے بعد کیا خوب کہا تھا’’ اللہ تعالیٰ کو میری ضرورت نہیں، مجھے اللہ ربّ العزت کی ضرورت ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو عربوں سمیت اربوں مسلمانوں کی ضرورت نہیں، ہم سب اپنے سچے ربّ کے محتاج ہیں اور ہمیں قدم قدم پر اس کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے نافرمانیاں اور شیطانیاں نہ چھوڑیں تو وہ اپنی بندگی کیلئے ہمارے متبادل کے طور پر کسی اور کولے آئے گا۔
الحرمین الشرفین سے شروع ہونیوالی اسلامی روایات اور تعلیمات کی طرح ہمارے برادر اسلامی عرب ملک بھی ہمیں بیحد عزیز ہیں لیکن وہ کبوتر کی مانند آنکھیں موند کر اسرائیل نامی خونخوار بلے سے اپنا بچائو یا دفاع نہیں کر سکتے، انہیں ’’ نیٹو‘‘ طرز پر آپس میں اتحاد و یکجہتی اور دفاعی جدت کے ساتھ اس زہریلے ناگ کا پھن کچلنا ہوگا۔’’ عربوں ‘‘ کو اپنے’’ اربوں‘‘ والے شوق چھوڑنا ہوں گے اور غلبہ اسلام کیلئے اپنی انفرادی و اجتماعی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ عہد حاضر میں دشمن کی طرف سے ممکنہ جارحیت کو ناکام اور الحرمین الشرفین کا دفاع یقینی بنانے کیلئے شاہینوں، اونٹوں اور بیش قیمت گاڑیوں کا کوئی کام نہیں رہا، یہ غوری اور شاہین میزائل کا دور ہے۔ الحرمین الشرفین کے ناپاک دشمنوں کی شکست فاش کیلئے پرتعیش محلات نہیں دفاعی مہارت کی ضرورت پڑے گی۔ محض ہماری بددعائوں یا ہمارے سجود سے اسرائیل کا وجود فنا نہیں ہوگا کیونکہ جہاد بارے اجتہاد کا آپشن استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ راہ حق میں جہاد ایسا فرض ہے جس سے کوئی مسلمان مستثنیٰ نہیں۔ اِسلام کے استحکام اور دوام کیلئے مسلمانوں کو احرام کے ساتھ ساتھ اپنے سروں پر کفن بھی باندھنا ہو ں گے۔ عرب حکمرانوں کی طرف سے امریکہ کیلئے ہر نقد نذرانہ درحقیقت اسرائیل کی تجوریوں میں جاتا ہے جہاں ان سے مہلک بم بنائے اور نہتے فلسطینیوں پر برسائے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں عربوں نے اربوں ڈالر اسرائیل نواز ڈونلڈ ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے نچھاور کئے تھے لیکن انہیں کچھ حاصل نہ ہوا جبکہ ان وسائل سے معتوب و مغضوب فلسطینیوں کو درپیش متعدد مسائل کا سدباب کیا جاسکتا تھا۔ قطر کی طرف سے متعصب اور انتہا پسند ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے بیش قیمت ہوائی جہاز کا تحفہ بھی کسی کام نہ آیا اور اسرائیل اپنے جہازوں کے ساتھ وہاں خون کی ہولی کھیلنے جا پہنچا، یقینا اسرائیل نے آج تک فلسطین اور ایران سمیت کسی اسلامی ریاست کیخلاف کوئی انتہائی قدم امریکہ کا آشیرباد اور اعتماد حاصل کئے بغیر نہیں اٹھایا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کی بعد امریکہ لاعلمی یا لاتعلقی ظاہر کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا، وہ اسرائیل کی مجرمانہ سرگرمیوں میں برابر کا شریک ہے۔ فلسطینیوں کو آزادی ، امن اور انصاف کیلئے دوہائیاں دیتے دیتے سات دہائیاں ہوگئی ہیں لیکن اسرائیل انہیں دبانے اور ان کی سرزمین ہتھیانے کیلئے ان کے سینے بارود سے چھلنی کر رہا ہے۔ فلسطین کے فرزند مقدس انبیائٌ اور اپنے باپ دادا کی سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کر رہے ہیں جبکہ کوئی عرب ملک ان کے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے نہیں پہنچا۔ فلسطینی مزاحمت کار اپنے دوسرے عرب بھائیوں کو زیر عتاب آنے سے بچائے ہوئے ہیں ورنہ نام نہاد گریٹر اسرائیل کا نقشہ ہر کسی نے دیکھا ہوا ہے۔
یاد رکھیں! جو اسلامی ملک بوجوہ خود ساختہ ریاست اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کئے ہوئے ہیں یا آئندہ کریں گے انہیں بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کا شریک تصور کیا جائے گا، روز محشر کسی قاتل اور اس کے شریک گناہ کو کلین چٹ نہیں ملے گی۔ شہزادہ کونین حضرت سیّدنا امام حسینؓ اپنے مدمقابل ملعون یزید کی بیعت کرنے سے انکار تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ انہوں نے ا س کی مذموم جارحیت کیخلاف بھرپور مزاحمت اور اس کے متعدد حواریوں کو واصل جہنم کرتے ہوئے بڑی شان سے جام شہادت نوش کیا تھا، لہٰذا اسرائیلی فسطائیت اور شیطانیت کیخلاف خاموشی اختیار کرنا درحقیقت اس کی مجرمانہ حمایت بلکہ اعانت کے مترادف ہے۔ پاکستان کے وہ حکمران کس طرح اسرائیل کو تسلیم کر سکتے ہیں جو سیاسی طور پر خود تسلیم شدہ نہیں بلکہ ووٹرز نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔ اپنے ہاتھوں میں اِسلام کا علم اٹھائے پاکستانیوں نے اس حکومت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ پلان پر اپنے اعتماد کی مہر ثبت کرنے کا مینڈیٹ ہرگز نہیں دیاتھا۔ اسرائیل نواز اور انتہا پسند ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کی قربت انہیں اپنے ہم وطنوں سے مزید دور کر دے گی۔ عام انتخابات میں بدترین دھاندلی کے معاملے میں ریاستی دھونس سے عوام کو دبایا جاسکتا ہے لیکن ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں معاشی ابتری سے مضطرب و مشتعل عوام کا پیمانہ صبر چھلک پڑے گا۔ زمین پر ملی زندگی اور حکومت دونوں بہت عارضی ہیں، حکمران اپنے اقتدار کی محبت میں اپنی عافیت اور عاقبت دونوں برباد نہ کریں۔ انسانیت کے علمبردار، نڈر فلسطینیوں کی تحریک آزادی کے طرفدار اور اپنے ضمیر کے اسیر مشتاق احمد خان کیلئے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے زندہ ضمیر انسانوں کی محبت و عقیدت سے ظاہر ہوگیا، ان کے نزدیک کون حق پر ہے ۔





