CM RizwanColumn

کیا پی ٹی آئی دہشت گرد نہیں

جگائے گا کون؟
کیا پی ٹی آئی دہشت گرد نہیں
تحریر: سی ایم رضوان
بدقسمتی سے پچھلی دو تین دہائیوں میں پاکستان میں یہ بیانیہ پروموٹ کیا گیا کہ کوئی بھی مسلح یا نیم مسلح جتھہ یا سیاسی گروہ اپنی سیاسی سوچ کو مسلط کرنے کے لئے اگر ضروری سمجھے تو بندوق کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ پھر پورے ملک نے دیکھا کہ اسی بیانیے، مقصد اور سوچ کے تحت پی ٹی آئی کو تیار کیا گیا اور اسی مقصد کے حصول کے لئے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا۔ اس جماعت میں ایسے ایسے عناصر بھی شامل تھے جو مخالف سیاستدانوں کو واشگاف الفاظ میں موچھوں سے پکڑ کر کرسی سے اتارنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے جیسی نہ صرف دھمکیاں بھی دیتے رہے بلکہ عملاً بھی ایسا کرتے رہے۔ پھر درختوں کو آگ لگانے اور ملک کے شہروں میں سکیورٹی فورسز پر پٹرول بم چلائے تک کے انقلابی کام بھی اسی پارٹی کے فردان فرید نے سر انجام دیئے۔ یہاں تک کہ نو مئی کے مشہور زمانہ واقعات میں ملک بھر میں موجود فوجی تنصیبات کو آگ لگانے، توڑنے پھوڑنے، فوجی ہیروز کے مجسمے توڑنے اور ملک بھر میں دہشت پھیلانے کا کارنامہ بھی اسی پارٹی کے عظیم اور سرگرم کارکنوں نے اپنی پارٹی کے بانی کی شہ پر ایک متبرک کام سمجھ کر سر انجام دیا۔ اس پارٹی کی انہی سرگرمیوں اور کمال شجاعت پر مبنی کاموں کی بنیاد پر ملک کا ہر شریف شہری حتیٰ کہ بڑی بڑی عدالتوں کے جج بھی ان سے خوفزدہ ہوتے رہے ہیں اور کئی تو اب بھی ان کے ہی گن گاتے ہیں کیونکہ یہ گرفتاریوں اور چیدہ چنیدہ سزائوں کے باوجود گالی اور دھمکی دینے سے ذرہ برابر بھی نہیں چوکتے۔ حتیٰ کہ ملک کے طاقتور ترین عہدیدار کو بھی یہ جب چاہے گالیاں اور دھمکیاں دے دیتے ہیں کیونکہ اس پارٹی کو خطہ کے سب سے بڑے اور خطرناک بندوق بردار گروہ کی حمایت، کمک اور مدد ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ مقام شکر کہ مذکورہ بالا تمام حقائق کو الفاظ کے تھوڑے بہت ہیر پھیر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر تسلیم و رضا کے ساتھ اکثر بیان کر چکے ہیں اور نہ صرف وہ یہ تفصیل بیان کر چکے ہیں بلکہ مسلح جتھے کی شکل اختیار کر جانے والی اس پارٹی اور اس کے سہولت کاروں کی گوشمالی کے لئے ملکی سکیورٹی فورسز بھی ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ( آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کا نام لئے بغیر کہا کہ کسی فرد واحد کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ پاکستان اور کے پی کے غیور عوام کی جان، مال اور عزت کا سودا کرے۔ پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ یہاں آنے کا مقصد خیبر پختونخوا کے غیور عوام کے درمیان بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبے کے عوام کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں 14500سے زائد آپریشن کیے گئے، رواں سال مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد پچھلے 10سال سے زیادہ ہے، پھر بھی وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی موجود ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال کرنا بھی اس دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حملے کے بعد سیاسی و ملٹری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا، دہشت گردی میں اضافی کی وجوہات نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ اِن کا مزید کہنا تھا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے کیا، دھرتی کے بہادر سپوتوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ رقم کی ہے، افواج پاکستان کی طرف سے تجدید عزم کرنے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں، دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی اور ان کے حامی تجزیہ کاروں کی جانب سے اکثر یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ حکومت اور فوج دہشت گردوں سے بات چیت کر کے انہیں امن پسندی کی طرف راغب کریں۔ اس بیانیہ کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر غزوات اور جنگیں کبھی نہ ہوتیں، اگر بات چیت سے ہی معاملات حل ہوتے تو سرورِ کونینؐ کبھی غزوہ بدر نہ کرتے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے دلیل دی کہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو عوام نے کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بھارت سے بات چیت کر لیں؟ بلکہ تمام سیاست دانوں اور حکومتوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے، دہشت گردوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان حالات میں جبکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ دہشت گردوں میں زیادہ تر افغان لوگ شامل ہوتے ہیں تو پھر یہ کیوں بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ افغان مہمانوں کو نہ نکالا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آج یہ بیانیہ کہاں سے آ گیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا، ہم نے کئی دہائیوں سے افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کی، افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کُن باتیں کی جا رہی ہیں، ریاست نے افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا اس پر سیاست کی جاتی ہے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے بہت سے خوارج کا تعلق افغانستان سے ہے، آپریشن میں ہلاک ہونے والے بہت سے دہشت گردوں سے امریکی اسلحہ برآمد ہوا۔ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جس کے شواہد اور ثبوت بھی موجود ہیں، ہم نے ہر فورم پر اس حوالے سے آواز اٹھائی اور بات چیت بھی کی گئی۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک فرد کے پی میں دہشتگردی لایا، عوام کو ایسے شخص پر نہیں چھوڑ سکتے
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ ریاست اور عوام کو ایسے شخص کے فیصلے اور خواہش پر نہیں چھوڑ سکتے جو کے پی میں دہشتگردی واپس لانے کا اکیلا ذمے دار ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں، آپ کہہ رہے ہیں ایسی قیادت لائی جا رہی ہے جو ریاست کے خلاف ہے ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لئے زمین تنگ کر دی جائے گی۔ اگر کوئی فرد واحد سمجھتا ہے کہ اس کی ذات پاکستان سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ اس لئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے کئی عشاق ترنگ میں آ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں۔
اس سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے اصل دہشت گردانہ کردار کی نقاب کشائی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پچھلے ماہ وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر اطلاعات برائے خیبر پختونخوا اختیار ولی خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی بھارتی ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہے۔ اختیار ولی خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جب بھی معیشت مضبوط ہونے لگتی ہے یہ سازشی عناصر سرگرم ہو جاتے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر نے کہا کہ نریندر مودی، اس کے دوست اور پروکسیز کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ریاست کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو طاقت سے جواب دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گیلپ سروے کے مطابق کے پی میں کرپشن بہت زیادہ ہے جبکہ 73فیصد نے الزام لگایا کہ یہاں سرکاری نوکریاں فروخت ہوتی ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے میرٹ اور شفافیت پر بھرتیاں کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس امر سے پی ٹی آئی کے کرپشن کے خلاف اقدامات کی قلعی بھی کھل جاتی ہے کہ مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے والے خود کرپشن کے کتنے بڑے چیمپئن ہیں۔
صرف یہی نہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے بھی گزشتہ روز الزام لگایا ہے کہ عمران خان نے علی امین گنڈا پور کو دہشت گردوں کو موثر طریقے سے سہولت فراہم نہ کرنے پر کے پی کے کی وزارت اعلیٰ سے ہٹایا ہے۔ اب بانی نے دہشت گردوں کے ہمدرد سہیل آفریدی کو صوبے کی سربراہی کے لئے نامزد کیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پوری قیادت دہشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے عمران خان کے ماضی کے بیانات کا حوالہ دیا جس میں، ان کے مطابق، پی ٹی آئی کے بانی نے عسکریت پسندوں کو ’’ اچھے لوگ‘‘ کہا اور ان کی بحالی اور آباد کاری کی وکالت کی۔ تارڑ نے مزید دعویٰ کیا کہ عمران اپنے دور حکومت میں عسکریت پسندوں کو ملک میں واپس لایا، انہیں محفوظ طریقے سے آباد کیا اور انہیں پناہ فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی خیبرپختونخوا میں سیاست انہی عناصر کے گرد گھومتی ہے۔ تارڑ نے کہا کہ گنڈا پور سے کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرے اور ان کی مکمل حمایت کرے، لیکن وہ اس مشن کو پورا نہیں کر سکا، اب سہیل آفریدی کو صوبے میں دہشت گرد عناصر کو مکمل مدد اور سہولت فراہم کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ تارڑ نے کے پی حکومت اور پی ٹی آئی کو خبردار کیا کہ قومی سلامتی کی پالیسی اب کابل میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں بنائی گئی ہے اور بنتی رہے گی۔ انہوں نے کے پی میں پی ٹی آئی کی حکمرانی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 12سال سے اقتدار میں رہنے کے باوجود صوبہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ان حالات میں ایک معصوم سا سوال یہی سامنے آتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی دہشت گرد نہیں ہے؟۔

جواب دیں

Back to top button