Columnمحمد مبشر انوار

وقفہ

وقفہ
محمد مبشر انوار
مشرق وسطی میں بقائے امن کا بیس نکاتی فارمولا، جسے حماس نے اپنے تحفظات اور تجاویز کے بعد، عمل درآمد کروانے کا عندیہ دیا تھا، تاحال ہوا میں معلق ہے اور اسرائیل کی جانب سے اس فارمولے پر مسلسل کبھی ہاں کبھی ناں والا رویہ سامنے آ رہا ہے جبکہ اس دوران اسرائیلی جارحیت میں کسی طور پر کمی دکھائی نہیں دیتی۔ اس فارمولے کے مطابق فوری جنگ بندی کا تقاضہ کیا گیا ہے اور اسرائیلی فوجوں کو چوبیس گھنٹوں میں غزہ سے انخلا کا حکم ہے لیکن اسرائیل اس معاہدے کو تسلیم کرنے کے لئے مسلسل آنا کانی کر رہا ہے اور اس معاہدے کو کابینہ کی منظوری سے مشروط کر چکا ہے گویا کابینہ کی منظوری تک، اسرائیلی فوجیں نہ تو جارحیت سے رکیں گی، نہ وہ غزہ کے علاقے سے باہر نہیں نکلیں گی اور نہ ہی قتل و غارت گری سے کوئی ان کا ہاتھ روک سکے گا، نتیجہ یہ ہے کہ غزہ کی شہری آبادی مسلسل اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں شہید ہورہی ہے۔ مقام افسوس کہ صدر ٹرمپ اپنی کہی ہوئی بات کا پاس نہیں رکھ پا رہے خواہ اس میں کوئی بھی ملوث ہے، اس سے قطع نظر، عالمی طاقت کا اکلوتا نمائندہ، جو بیک وقت جنگیں رکوانے کا دعویدار بھی ہے، ایک چھوٹی سی ریاست کی ریاستی دہشت گردی کو قابو کرنے میں بری طرح ناکام نظر آ رہا ہے اور فلسطینی شہریوں کے خون سے اس کا دامن بھی داغدار ہورہا ہے۔ بارہا یہ لکھ چکا ہوں کہ درحقیقت ٹرمپ، غزہ کے حوالے سے، اپنے عزائم کا اظہار مسلسل کر چکا ہے اور حالیہ معاہدے میں بھی اس نے اپنے یا امریکی مستقل کردار یا موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح امریکہ اس خطے میں، اسرائیل کا شراکت دار بن کر رہے۔ غزہ میں جاری جارحیت، ریاستی دہشت گردی یا نسل کشی کو امریکی خواہش سے کسی بھی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا وگرنہ اسرائیل کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ساری دنیا میں جاری احتجاج و مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی جارحیت کو جاری رکھ سکے ماسوائے امریکی و بھارتی حمایت کے، گو کہ بھارتی حمایت بھی پس پردہ ہی ہے اور براہ راست بھارتی کسی بھی طرح اسرائیل کی مدد نہیں کر سکتے ، جیسا کہ امریکہ نہ صرف اسرائیل کی پشت پر تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود کھڑا ہے بلکہ اسے مسلسل جدید سے جدید تر اسلحہ کی فراہمی بھی جاری ہے۔ بظاہر اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ کی ترسیل بجائے خود ایک مذاق دکھائی دیتی ہے کہ اسرائیل اتنے جدید ترین اسلحہ کے باوجود، غزہ جیسے محدود علاقے کو واگزار نہیں کروا سکا، جو اس کی عسکری اہلیت پر ایک سوال تو ہے مگر درپردہ نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کو اسلحہ فراہم کرنے والے بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جس طرح اسرائیل عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے، اس کے لئے یہ مشکل نہیں کہ وہ آنا فانا غزہ کو غرق کر دے مگر مقصد صرف غزہ کو نیست و نابود نہیں کرنا بلکہ مستقبل کی پیش بندی بھی مقصود ہے۔
بیس نکاتی معاہدے کے مطابق اسرائیل کے لئے انتہائی آسان ہے کہ وہ اس معاہدے کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے، فوری جنگ بندی کرے، اپنے یرغمالیوں کو چوبیس گھنٹے میں رہا کرائے، جوابی کارروائی میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے، ایک بورڈ کی تشکیل ہو جو فلسطینی ریاست کو چلائے، اسرائیلی فوجوں کو مکمل انخلا ہو، فلسطینی ریاست اور اسرائیلی ریاست کے درمیان ایک بفر زون قائم ہو، غزہ کی تعمیر و ترقی میں مسلم ریاستیں اپنا کردار ادا کریں، اور معاملات امن کی طرف بڑھیں لیکن اسرائیل کو یہ منظور نہیں۔ گو کہ یہ سب شرائط نہ صرف فلسطینیوں بلکہ بہت سے مسلم ممالک کے لئے بھی ایک کڑوی گولی سے کم نہیں کہ تمام مسلم ریاستوں کے نزدیک اسرائیلی ریاست روز اول سے ہی ایک ناجائز ریاست ہے اور اس کا وجود مشرق وسطیٰ میں کسی بھی طور دائمی امن کے لئے شدید ترین خطرہ ہے، جس کا اظہار اسرائیلی ریاست بارہا امریکی شہ پر کر چکی ہے۔ تاہم موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، مسلم ممالک اس کڑوی گولی کو نگلنے کے لئے تیار دکھائی دیتے ہیں کہ جب تک عالمی سطح پر طاقت کا توازن قائم نہیں ہوتا، اکلوتی طاقت کی شرائط، مرگ مفاجات کی سزا سمجھتے ہوئے تسلیم کرنا پڑیں گی کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ خطے میں اپنی من مانیاں اسی وقت تک جاری رکھ سکتا ہے کہ جب تک عالمی سطح پر طاقت کا پلڑا صرف امریکہ کے حق میں ہے جیسے ہی طاقت کے توازن میں کوئی اور ملک شامل ہوتا ہے، اسرائیل کے لئے اپنی من مانیوں کی گنجائش باقی نہیں رہے گی بشرطیکہ اقوام متحدہ قائم رہتی ہے اور پانچ بڑی طاقتوں کے پاس کسی بھی معاملے کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی باقی رہتا ہے۔ تاحال اقوام متحدہ بھی بہرطور امریکی دبائو کے تحت ہی بروئے کار آ رہی ہے اور امریکہ جب چاہتا ہے، جیسے چاہتا ہے، اقوام متحدہ کو چلانے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے، لہذا اس نظام کے تحت اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بھی کارروائی، اقوام متحدہ کے تحت ہوتی دکھائی نہیں دیتی کہ ایسی کسی بھی کارروائی کو صرف ایک امریکہ ویٹو ووٹ سے مسترد یا بیکار کر دیا جاتا ہے۔ میری دانست میں امریکی زوال کا ایک بڑا سبب یہی امریکی ویٹو طاقت بنے گی کہ قانون قدرت ایسی فاش غلطیوں، بے انصافی پر کبھی معاف نہیں کرتی جبکہ امریکہ پر بطور عالمی طاقت، یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن عالم کے لئے، عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، جو موجودہ حالات میں امریکہ مسلسل چھوڑے ہوئے ہے، جبکہ قدرت کسی کے عروج زوال میں کسی کی محتاج نہیں، قدرتی اصولوں سے منحرفین کی سزا بھی قدرتی طور پر طے ہو جاتی ہے اور صرف وقت ہی اس سزا کو سامنے لاتا ہے۔ اسرائیلی بد نیتی کا احساس تو واضح ہے جب اس کی طرف سے یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، حماس کو مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہئے، یہ اعلان ہے یا خواہش، بہرطور اسرائیل اس کا اظہار ببانگ دہل ایسے کر رہا ہے جیسے وہ صدیوں سے اس خطہ زمین کا باسی ہو، جبکہ حقیقت اس کے کلیتا برعکس ہے کہ اسرائیل اس خطہ زمین پر صدیوں بعد وارد ہوا ہے جبکہ فلسطینی اس خطہ سرزمین پر صدیوں سے آباد ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فلسطینی اتنی طاقت و قدرت رکھتے کہ صدیوں بعد اس خطہ زمین پر آباد ہونے والوں کو نکیل ڈالے رکھتے، انہیں ان کی حدود و قیود میں رکھتے لیکن بدقسمتی سے فلسطینی اپنی عاقبت نااندیشی سے اسرائیلیوں کو خود پر قابض کروا بیٹھی ہے، جس کے باعث یہودی/صیہونی آج فلسطینیوں کو مکمل تہ تیغ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تادم تحریر بیس نکاتی معاہدے کے متعلق صدر ٹرمپ اپنے سوشل میڈیا پیغام پر دستخطوں کی نوید سنا چکے ہیں اور اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی صیہونی کابینہ نے بھی منظوری دیدی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے متعلق بھی آناکانی کر رہا ہی اور جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ حماس کی جانب سے کیا گیا ہے اور اس کی ضمانت امریکہ کی جانب سے کرائی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کو اقتدار میں آئے تقریبا دس ماہ ہو چکے ہیں جبکہ انتخابات جیتے تقریبا گیارہ ماہ گزر چکے ہیں، اس عرصہ میں گو کہ ٹرمپ نے روز اول سے ہی اسرائیل کو جنگ بندی کی تنبیہات کی لیکن ان تنبیہات کا کوئی بھی اثر اسرائیل پر دکھائی نہیں دیا بلکہ ہر ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد نہ صرف اسرائیل مزید وقت حاصل کرنے میں کامیاب رہا بلکہ امریکی امداد کا حقدار بھی ٹھہرا اور مسلسل جدید ترین اسلحہ اسے فراہم کیا جارہا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے ٹرمپ کے جنگ بندی بیانات میں مسلسل تیزی دکھائی دی بالخصوص جب سے پاکستان نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لئے نامزد کیا، ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے میں زیادہ پرجوش دکھائی دئیے۔ ٹرمپ کا یہ جوش اس وقت اور زیادہ بڑھ گیا جب ان کے مقابلے میں ایک نوجوان لڑکی گریٹا تھنبرگ کو بھی نوبل انعام کے لئے نامزد کیا گیا، جس کا کارنامہ بہرطور ٹرمپ سے اس لئے زیادہ اہم ہے کہ ٹرمپ بہرطور ایک عہدہ رکھتے ہیں، جبکہ گرٹیا کوئی بھی عہدہ رکھے بغیر اپنی سماجی خدمات و حیثیت میں اس انعام کے لئے نامزد ہوئیں، لیکن حقیقتا اس انعام کی اہمیت بھی وہ نہیں رہی، جو کسی زمانے میں تھی۔ لیکن اب انعام کے اعلان کے بعد اس بیس نکاتی معاہدے کا کیا ہوگا، کہ اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ کسی بھی شق کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے غزہ پر کارروائی کرے۔ میں بارہا یہ لکھ چکا ہوں کہ ایمان کی حد تک یقین ہے کہ سرکار دو عالمؐ کی پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوگی، یہودی گریٹر اسرائیل بنانے میں کامیاب ہوں گے، بعد ازاں ان کے ساتھ قرآن کے مطابق ہی ہوگا اور کرہ ارض کی ہر شے پکار پکار کر مسلمان فوجیوں سے کہے گی کہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہے ماسوائے غرقد درخت کے، جو یہودیوں کا درخت ہے۔ اس دوران جنگوں کے درمیانی ’’ وقفہ‘‘ کو امن کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button