مشرقِ وسطیٰ ،امن کا منتظر

ذرا سوچئے
مشرقِ وسطیٰ ،امن کا منتظر
امتیاز احمد شاد
دنیا ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی طرف متوجہ ہے۔ کئی ماہ کی خون ریزی، بربادی اور انسانی المیے کے بعد بالآخر حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا ہے جس نے خطے میں امن کی ایک نئی اُمید جگا دی ہے۔ یہ معاہدہ، جو ابتدائی مرحلے میں جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کے آزادانہ بہا پر مبنی ہے، کئی برسوں کے بعد پہلی ایسی پیش رفت ہے جس نے عالمی طاقتوں کو ایک لمحے کے لیے سہی، مگر امید کی کرن دکھائی ہے۔
غزہ، جو گزشتہ برسوں سے اسرائیلی محاصرے، بمباری اور مسلسل عسکری کشیدگی کی زد میں ہے، ایک انسانی سانحے کا منظر پیش کرتا رہا ہے۔ ہزاروں بے گھر افراد، تباہ شدہ عمارتیں، ادویات و خوراک کی شدید قلت سب مل کر اس خطے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر چکے تھے۔ عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکہ، قطر، مصر اور ترکی نے کئی بار ثالثی کی کوشش کی مگر نتیجہ خیز امن معاہدہ ممکن نہ ہو سکا۔ اب، جب کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ امن فارمولا پیش کیا، اور اسرائیل و حماس دونوں نے اس کے پہلے مرحلے پر رضامندی ظاہر کی، یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب کی بار بات کچھ آگے بڑھے۔ اس معاہدے کے تین اہم نکات ہیں جن پر فریقین نے رضامندی ظاہر کی ہے۔ پہلا یہ کہ اسرائیلی افواج کو غزہ کے اندر مخصوص علاقوں سے واپس بلایا جائے گا، اور کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی پر پابندی ہوگی۔ دوسرا حماس کے زیرِ قبضہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین، بچے اور سیاسی کارکن شامل ہیں۔ جبکہ تیسرا، امریکہ، مصر، قطر، اور اقوامِ متحدہ نے اس معاہدے کی نگرانی پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ کوئی فریق اس پر عمل درآمد سے انحراف نہ کرے۔ان شرائط کی منظوری کے بعد، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹیلی فون کیا۔ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کو معاہدے کی کامیابی پر مبارکباد دی، اور وعدہ کیا کہ اس عمل کو دیرپا امن کی سمت لے جایا جائے گا۔
حماس نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر اسرائیل اس معاہدے کی تمام شرائط پر عمل کرے تو یہ معاہدہ ایک مستقل جنگ بندی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ماضی کے تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل اکثر عارضی معاہدوں کے بعد طاقت کے بل پر خلاف ورزی کرتا ہے، اس لیے بین الاقوامی ضمانت اور عملی نگرانی ناگزیر ہے۔ یہ موقف بظاہر معقول بھی ہے۔ گزشتہ معاہدوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ کوئی ایسا موثر میکانزم موجود نہیں تھا جو اسرائیل کو اس کے وعدوں پر قائم رکھ سکے۔ اب اگر عالمی برادری واقعی چاہتی ہے کہ یہ معاہدہ کامیاب ہو، تو اسے اسرائیل پر عملی دبا ڈالنا ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ کے تمام بڑے کھلاڑی مصر، قطر، ایران، ترکی اور سعودی عرب اس وقت مختلف زاویوں سے اس پیش رفت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مصر روایتی طور پر ثالثی کے کردار میں ہے۔ قطر حماس کے لیے ایک بڑا مالی و سیاسی سہارا ہے جب کہ ایران کے لیے یہ معاہدہ ایک دو دھاری تلوار ہے؛ ایک طرف اسے فلسطینی مزاحمت کے ثمرات کا تسلسل نظر آتا ہے، دوسری طرف اس کے اثر و رسوخ میں کمی کا خدشہ ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک اس امن عمل کو اپنے اسرائیل سے ممکنہ تعلقات کی بنیاد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ علاقائی توازن ہی طے کرے گا کہ یہ معاہدہ طویل المدت امن میں بدلتا ہے یا محض ایک عارضی وقفہ ثابت ہوتا ہے۔ امن کے کسی بھی عمل کی کامیابی کا انحصار صرف سیاسی اعلانات پر نہیں بلکہ انسانی بحالی پر ہوتا ہے۔ غزہ اس وقت بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ عالمی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ اگر فوری طور پر خوراک، ادویات، اور تعمیر نو کے منصوبے شروع نہ کیے گئے تو انسانی المیہ مزید گہرا ہو جائے گا۔ اس لیے اس معاہدے کا سب سے اہم پہلو یہی ہونا چاہیے کہ عام فلسطینی شہریوں کو سکون، تحفظ اور زندگی کی معمولات بحال کرنے کا موقع دیا جائے۔
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے لیے یہ وقت سفارتی طور پر متحرک ہونے کا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع پر صرف بیانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ ایک واضح امن نگران مشن تشکیل دے، جو اس معاہدے کی عملداری کی ضمانت دے سکے۔
پاکستان انسانی بنیادوں پر امداد، طبّی معاونت، اور تعمیر نو کے منصوبوں میں حصہ ڈال سکتا ہے یہی وہ عملی اقدامات ہیں جو الفاظ کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ اگر یہ معاہدہ ماضی کی طرح محض ایک عارضی صلح ثابت ہوا تو نقصان صرف فلسطین یا اسرائیل کا نہیں بلکہ پورے خطے کا ہوگا۔لیکن اگر فریقین نے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا، تو یہ معاہدہ دو ریاستی حل کی طرف ایک نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست جو اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکے۔ امن کی یہ راہ طویل، کٹھن اور آزمائشوں سے بھری ہے، مگر اس کی منزل اگر حاصل ہو جائے تو شاید یہی وہ کامیابی ہو جس کا مشرقِ وسطیٰ گزشتہ ستر برسوں سے منتظر ہے۔ یہ معاہدہ ایک آغاز ہے، انجام نہیں۔ یہ امید کا دروازہ ہے، مگر اس کے پیچھے خطرات بھی چھپے ہیں۔ دنیا کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ انصاف، انسانیت اور امن کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا محض سیاسی مصلحتوں میں گم رہتی ہے۔ غزہ کی سرزمین، جو آج ملبے اور ماتم میں ڈوبی ہے، شاید کل کسی بچے کی مسکراہٹ اور کسی ماں کے اطمینان میں بدل جائے ۔





