Column

خیبرپختونخوا کے درد کا حل ضروری

خیبرپختونخوا کے درد کا حل ضروری
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پشاور پریس کانفرنس میں کی گئی باتیں قومی سالمیت، ادارہ جاتی ذمے داری اور سیاسی شعور کے بارے میں وسیع بحث کا آغاز ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا ( کے پی) میں دہشت گردی اتفاقیہ واقعہ نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبوں، مقامی اور سیاسی پشت پناہی اور کمزور گورننس کا نتیجہ ہے۔ اُن کے اس بیان میں بہت سے ایسی نشان دہی موجود ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، خصوصاً جب پشت پر قوم کے جوان و شہری اپنے خون کا نذرانہ دے رہے ہوں۔ ’’ بار بار دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے، ہر مسئلہ بات چیت سے حل نہیں ہوتا ایسا ہوتا تو غزوہ بدر میں نبی کریمؐ کبھی جنگ نہ کرتے‘‘۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا بالکل بجا ہے۔ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں سے بات چیت کی چنداں گنجائش نہیں رہتی۔ ترجمان پاک فوج نے کے پی میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی کمی کی نشان دہی کی اور کہا کہ بیانیہ سازی نہیں ہوئی اور بعض ادوار میں مذاکرات اور نرم بیانیے کو ترجیح دی گئی۔ یہ درست ہے کہ ایک مضبوط، واضح اور متحدہ قومی بیانیے کے بغیر اجتماعی مزاحمت اور عوامی شراکت ممکن نہیں۔ جب بیانیہ متضاد ہو تو عوام میں الجھن پیدا ہوتی ہے، سزا و نبیہ کے عمل میں رکاوٹ آتی ہے اور دہشت گردی کے سہولت کار محفوظ راستے حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ دہشت گردی کا شکار علاقوں میں سماجی ترقی، انصاف کا فوری نفاذ، روزگار اور تعلیم بھی لازمی ہیں۔ اس لیے کے پی میں نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ فعال، جامع اور شفاف انداز میں نافذ کیا جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کے پی میں مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض سیاسی مفادات نے گورننس کو کمزور کیا اور دہشت گردوں کو ان جگہوں پر پنپنے کا موقع دیا گیا جہاں ریاستی ہاتھ کمزور تھے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ ملک کے جمہوری عمل کے لیے یہ سنجیدہ نشانیاں ہیں۔ ریاستی اداروں، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے محکموں کو چاہیے کہ شواہد کی روشنی میں گینگز، سہولت کاروں اور اگر کسی سیاسی وابستگی کا ثبوت ملے تو متعلقہ افراد کے خلاف شفاف قانونی کارروائی کی جائے۔ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے قانون کے نفاذ میں رکاوٹیں یا ریاستی اداروں پر دبائو ناقابل قبول ہیں، ریاستی سالمیت سیاسی بیانیوں سے بالاتر ہونی چاہیے۔ ایک اور اہم نکتہ خارجی اسلحہ اور غیرقانونی اسمگلنگ کا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان سے آنے والی ہتھیار بندی اور اسمگلنگ دہشت گردی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقی خدشہ ہے، جب بارڈر مینجمنٹ کمزور ہو تو دہشت گردی اور منظم جرائم کو تقویت ملتی ہے۔ اس کا حل صرف سیکیورٹی اقدامات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بین الصوبائی و بین الاقوامی تعاون، بارڈر مینجمنٹ کی جدیدیت، مقامی معاشی متبادل اور کمیونٹی انگیجمنٹ کی ضرورت ہے۔ سرحدی علاقوں کے لوگوں کو روزگار، تعلیم اور بنیادی سہولتیں فراہم کرکے اسمگلنگ کے متبادل راستے کھولے جاسکتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان سرزمین کے پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال اور بعض بین الاقوامی پیچیدگیوں کا بھی ذکر کیا۔ بیرونی مداخلت یا غیرقانونی بنیادوں پر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی ایک بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے۔ مگر ان دعوئوں کے تعاقب میں سفارتی چینلز، بین الاقوامی شواہد اور عالمی قانونی فورمز کا استعمال زیادہ موثر اور متوازن طریقہ ہے۔ پاکستان نے بارہا پڑوسی افغانستان کے ساتھ اس معاملے کو اُٹھایا، لیکن اُس کی جانب سے کبھی بھی اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے ہر بار مطالبہ کیا کہ اپنی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، لیکن وہاں سے روایتی غیر سنجیدگی ہی ظاہر کی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبر پختونخوا کی عدالتوں سے دہشت گردوں کو سزا نہ ملنے پر سوال اٹھایا، یہ ایک سنگین اور تشویش ناک معاملہ ہے۔ قانون کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ جب شواہد موجود ہوں تو تیزی سے اور شفاف طریقے سے عدالتی کارروائی مکمل کی جانی چاہیے۔ اگر عدالتی نظام میں کوتاہیاں، تاخیر یا ثبوت کی کمی ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے خصوصی قضائی کمیشنز، تیز رفتار فوجداری کارروائیاں اور منظم ٹرائلز ضروری ہیں۔ آخر میں، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کے پی میں فوج، پولیس اور سول اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پولیس کا کام فوج کر رہی ہے، یہ طویل مدتی حل نہیں۔ کے پی میں مقامی پولیس، سی ٹی ڈی اور سول انتظامیہ کی استعداد کاری، جدید تکنیکی معاونت اور کمیونٹی پولیسنگ پر توجہ ضروری ہے۔ فوج اہم آپریشن کر سکتی ہے مگر گورننس، معاشی ترقی اور عوامی شمولیت سول اداروں کی ذمے داری ہے۔ اس لیے کے پی کے تمام شراکت داروں کو اپنا کردار سمجھ کر عمل کرنا ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے بیانات میں خطرات کی واضح نشان دہی اور سخت تنبیہ موجود ہے۔ ان نکات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اب منظم، شواہد پر مبنی اور شفاف طریقے سے عمل ضروری ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ بے شمار دہشت گردوں کو مارا جا چکا ہے۔ ان کا خاتمہ جلد ہوگا، لیکن اس کے لیے پاک افواج کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ کے پی میں نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنایا جائے، سرحدی حفاظتی اقدامات مضبوط بنائے جائیں، عدالتی عمل تیز اور منصفانہ ہو اور سیاسی جماعتیں ریاستی مفاد کو اپنی ذاتی سیاسی ضروریات سے اوپر رکھیں۔ عوام کا ساتھ اور مقامی شراکت ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی قوت بن سکتی ہے۔ ورنہ کے پی کے بہادر شہری جس طرح اپنی جانوں کی قربانیاں اب تک دے چکے ہیں، آئندہ بھی اسی طرح یہ مذموم سلسلہ جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔ خیبر پختونخوا کے ہر ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ متحد ہوکر دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنے میں اپنا حصّہ ڈالے۔
فضائی آلودگی، سنگین چیلنج
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں فضائی آلودگی تیزی سے انسانی صحت، معیشت اور ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی فضا خطرناک حد تک آلودہ ہوچکی ہے۔ عالمی رینکنگ کے مطابق لاہور اس وقت دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ شہر میں اسموگ کی اوسط شرح 183ریکارڈ کی گئی ہے، جو انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔ فضائی آلودگی کا براہِ راست تعلق ہماری سانسوں، آنکھوں، دل اور دماغ سے ہے۔ آلودہ فضا میں موجود باریک ذرات (PM2.5)اتنے خطرناک ہیں کہ وہ نہ صرف پھیپھڑوں میں داخل ہوکر سانس کی بیماریوں کا باعث بنتے، بلکہ خون میں شامل ہو کر دل اور دیگر اعضا کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ بچے، بزرگ، حاملہ خواتین اور سانس کے مریض ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ صرف لاہور تک محدود نہیں۔ کراچی، فیصل آباد، ملتان، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہر بھی اس آلودگی کی لپیٹ میں ہیں۔ صنعتی فضلہ، گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات جلانا اور کوڑے کو نذرِآتش کرنا ان شہروں میں فضائی آلودگی کی بڑی وجوہ ہیں۔ اس کے ساتھ درختوں کی بے دریغ کٹائی اور شہری منصوبہ بندی کی کمی نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ لاہور کا درجہ حرارت 22ڈگری سینٹی گریڈ، ہوا کی رفتار صرف 3کلومیٹر فی گھنٹہ اور ہوا میں نمی کا تناسب 77فیصد تک جاپہنچا ہے۔ یہ تمام عوامل اسموگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کم ہوا کی رفتار اور زیادہ نمی آلودہ ذرات کو فضا میں معلق رکھتی ہے، جس سے آلودگی مزید خطرناک ہوجاتی ہے۔ ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک موثر حکمتِ عملی اپنائیں۔ نیشنل کلین ایئر پالیسی کو دوبارہ فعال کیا جائے، صنعتی فضلہ جلانے پر سخت پابندی لگائی جائے، پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر اور ماحول دوست بنایا جائے اور شجرکاری مہم کو ترجیح دی جائے۔ اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی قرار دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ذاتی سطح پر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ باہر نکلتے وقت ماسک پہنیں، صبح و شام کی سیر سے گریز کریں، کھڑکیاں بند رکھیں اور بچوں کو غیر ضروری طور پر باہر نہ لے جائیں۔ فضائی آلودگی کو بڑھاوا دینے میں اپنا حصّہ نہ ڈالیں۔ ماحول دوست کردار ادا کریں۔ فضائی آلودگی ایک ایسا سنگین چیلنج ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کررہا ہے۔ اگر ہم نے ابھی اقدامات نہ کیے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں اپنی فضا، سانس اور اپنے مستقبل کو بچانے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button