وقت سب سے بڑا ڈان ہوتا ہے

وقت کے مکینوں میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو طاقت، خوف، اور اثرورسوخ کے استعارے بن جاتے ہیں۔ لاہور کی گلیوں، تھانوں اور عدالتوں کے بیچوں بیچ ایک نام برسوں تک گونجتا رہا طیفی بٹ۔ یہ وہ نام تھا جس کے ذکر پر سیاست دانوں کے لہجے بدل جاتے، پولیس افسر فون بند کر دیتے، اور دشمن سوتے میں جاگ اٹھتے۔ "توں مینوں جاندا نئیں” صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک اعلان تھا اُس شخص کا اعلان جس نے طاقت کو اپنی پہچان بنا لیا تھا۔
طیفی بٹ کی کہانی لاہور کے اُس دور سے شروع ہوتی ہے جب زمین، بندوق اور تعلقات ہی کسی کی سلطنت کے ستون سمجھے جاتے تھے۔ اُس وقت طاقت کا مطلب صرف پیسہ نہیں بلکہ تعلقات، سرپرستی اور خوف تھا۔ طیفی بٹ انہی تین ستونوں پر کھڑا وہ کردار تھا جو جرائم کی دنیا میں ایک منظم نظام کی علامت بن گیا۔ اُس کی دوستی سیاست دانوں کے دروازوں تک، اور اُس کا اثر تھانوں کےاندھیرے کمروں تک پہنچتا تھا۔ وہ انڈرورلڈ کا وہ ڈان تھا جو قانون کی گرفت سے ہمیشہ ایک قدم آگے رہتا تھا۔
لاہور کے علاقے نولکھا، شاہدرہ اور داتا دربار کے گرد و نواح میں اس کے قصے زبان زد عام تھے۔لوگ کہتے تھے کہ اگر کسی کا قبضہ چھڑوانا ہو، کسی کو سبق سکھانا ہو یا پولیس سے بچنا ہو تو طیفی بٹ کا فون ہی کافی ہوتا۔ “جتھے طیفی دا نام آ جائے، اُتھے قانون وی سوچ کے بولدا اے” یہ صرف کہاوت نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ کئی تھانوں میں اُس کا اثر اس قدر تھا کہ پولیس اہلکار اس کا نام لینے سے پہلے چاروں طرف دیکھ لیتے۔
لیکن ہر طاقت کے پیچھے ایک زوال چھپا ہوتا ہے۔ طیفی بٹ کا بھی وقت آیا جب وہ اقتدار کی ہوس اور دشمنیوں کے جال میں پھنسنے لگا۔ سیاست کے قریب جانے کی اُس کی کوششیں اس کے لیے زہر بن گئیں۔ لاہور کی زمینوں پر قبضے، دھڑے بندیوں اور پولیس مقابلوں نے اُسے ایک وقت کے بعد حکومتِ وقت کے لیے بوجھ بنا دیا۔ وہ جو کبھی طاقتوروں کا ساتھی تھا، اب اُن ہی کے لیے خطرہ بننے لگا۔
پھر وہ دن آیا جب انٹرپول نے دبئی سے گرفتار کر کے پاکستان بھیج دیا۔ میڈیا میں خبر چلی، لوگ کہنے لگے “طیفی دا وقت مک گیا اے۔” لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ انجام اُس نظام کا بھی ہے جس نے طیفی جیسے کرداروں کو جنم دیا۔ وہ نظام جہاں جرم اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جہاں طاقت کے کھیل میں قانون ہمیشہ کمزور رہتا ہے۔
دبئی سے کراچی اور پھر رحیم یار خان کے قریب جب پولیس کی گاڑی رکی، گولیاں چلیں، اور طیفی بٹ زمین پر گرا، تو وقت نے اپنے ہاتھ سے اُس کے باب کا آخری صفحہ لکھ دیا۔ وہ شخص جو دوسروں کے انجام لکھتا تھا، خود اپنے انجام سے بچ نہ سکا۔ یہ ایک علامتی منظر تھا ایک طاقتور کی خاموش موت، جس کے بعد شہر میں نہ گولی چلی، نہ احتجاج ہوا، نہ نعرہ لگا۔ صرف ایک سرد خبر تھی کہ “طیفی بٹ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔”
اس کہانی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ طاقت کا زوال کبھی اچانک نہیں آتا۔ وہ آہستہ آہستہ رگوں میں اترتا ہے، جیسے زہر۔ طیفی بٹ کے لیے بھی یہ زوال دبئی کی چمکدار عمارتوں سے شروع ہو کر پنجاب کے راستوں تک آیا۔ اس کے اردگرد وہی لوگ تھے جو کل اس کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے، لیکن آج خاموش تھے۔
طاقت، جرم، سیاست اور وقت یہ چار عناصر پاکستان کے طاقتور حلقوں کی مستقل کہانی ہیں۔ طیفی بٹ ان چاروں کا مرکب تھا۔ اُس کے پاس دولت تھی، اسلحہ تھا، اثر تھا، مگر وقت نہیں تھا۔ وقت نے اُس کے خلاف فیصلہ دے دیا۔
وہ اسپتال کی ٹھنڈی میز پر اکیلا پڑا۔ اُس کے اردگرد کوئی نہیں، کوئی نعرہ نہیں، کوئی محافظ نہیں، گاڑیوں کا لمبا قافلہ نہیں اگر کچھ تھا تو ایک سرکاری ہسپتال کی ٹھنڈی میز۔ جو شخص کبھی لاہور کی سڑکوں پر گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ نکلتا تھا، آج کپڑے کے ایک سفید کفن میں سمٹ گیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ طیفی بٹ واقعی مر گیا ہے؟ یا اُس کے جیسے کردار اب بھی مختلف چہروں، مختلف ناموں اور مختلف لباسوں میں زندہ ہیں؟ شاید یہی ہمارے معاشرتی المیے کا سب سے خوفناک پہلو ہے کہ ہم ہر دور میں ایک نیا "طیفی بٹ” پیدا کر لیتے ہیں کوئی سیاست کے نام پر، کوئی مذہب کے نام پر، کوئی خدمت کے نام پر۔
طیفی بٹ کی موت دراصل اُس سوچ کی موت ہونی چاہیے تھی جو طاقت کو قانون سے بڑا سمجھتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا نظام اب بھی اسی سوچ کا غلام ہے۔ ہم اب بھی اُس بندوق سے ڈرتے ہیں جس کے نال پر اقتدار لکھا ہے۔
وقت کا سب سے بڑا انصاف یہی ہے کہ وہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتا۔ طیفی بٹ کی لاش، جو اسپتال کے ایک ٹھنڈے کمرے میں تنہا پڑی ہے، دراصل طاقت کے زوال کی ایک زندہ تصویر ہے۔ ایک ایسا عکس جو ہر طاقتور شخص کے لیے آئینہ ہے چاہے وہ سیاست میں ہو، بیوروکریسی میں یا جرائم کی دنیا میں۔
آخر میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ "وقت” سب سے بڑا ڈان ہے۔ وہ نہ سفارش مانگتا ہے، نہ تعلق، نہ بندوق۔ وہ جب چاہے انصاف کر دیتا ہے خاموشی سے، مکمل یقین کے ساتھ۔ طیفی بٹ کا انجام بھی اسی انصاف کی ایک خاموش مثال ہے، جو لاہور کی فضاؤں میں آج بھی گونجتا ہے:
“توں مینوں جاندا نئیں؟”
ہاں، وقت سب کو اچھی طرح جانتا تھا۔





