پی ٹی آئی پارٹی اختلافات، گنڈا پور آئوٹ، سہیل آفریدی ان

پی ٹی آئی پارٹی اختلافات، گنڈا پور آئوٹ، سہیل آفریدی ان
تحریر: ایم اے تبسم
وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، یہ استعفیٰ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہدایت پر دیا گیا اور ان کے بعد سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا ہے، علی امین گنڈاپور نے بیان دیا کہ وزیراعلیٰ کی پوزیشن بانی پی ٹی آئی کی امانت تھی اور ان کے حکم پر یہ امانت واپس کر کے استعفیٰ دیا، پارٹی ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا میں حالیہ سکیورٹی صورتحال اور گورننس میں سوالات تھے، عمران خان نے پارٹی اور صوبائی معاملات کے پیش نظر تبدیلی کا فیصلہ کیا، علی امین گنڈاپور نے سہیل آفریدی کو مکمل حمایت دینے کا بھی اعلان کیا، یادرہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور پارٹی رہنمائوں کے درمیان الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس سے پارٹی اندرونی بحران کا شکار ہے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے بھی تصدیق کی کہ بانی پی ٹی آئی کے فیصلے پر علی امین گنڈاپور کو ہٹایا گیا اور سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا ہے، یہ تبدیلی باضابطہ طور پر سوشل میڈیا اور پارٹی کے آفیشل چینلز پر شائع کی گئی، علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ عمران خان کی ہدایت اور پارٹی سیاست کے تناظر میں ہوا۔ اس فیصلے کے بعد سہیل آفریدی کو خیبرپختونخوا کا نیا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا ہے، اور اس تبدیلی کو پارٹی قیادت، گورننس، اور سکیورٹی حالات سے جوڑا جا رہا ہے۔
علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے اختلافات تحریک انصاف کے اندرونی بحران اور گروپنگ کا نتیجہ ہیں، جو کچھ عرصے سے جاری تھے، دونوں رہنمائوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات داغے گئے، جن سے پارٹی میں واضح تقسیم اور کشیدگی سامنے آئی، علی امین گنڈاپور نے عمران خان کے سامنے شکایت کی کہ علیمہ خان پارٹی میں تقسیم پیدا کر رہی ہیں اور بعض عناصر کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی قیادت سنبھالنا چاہتی ہیں، علیمہ خان نے جواب میں گنڈاپور پر الزام لگایا کہ وہ پی ٹی آئی بانی کو گمراہ کر رہے ہیں اور، بغیر پارٹی بانی کی منظوری کے وفاقی بجٹ سمیت اہم حکومتی معاملات میں پالیسی تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، دونوں رہنمائوں کے درمیان اختلافات سوشل میڈیا پر بھی شدت اختیار کر گئے تھے، علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان کے خلاف الگ الگ مہمات چلائی گئیں، علی امین گنڈاپور نے علیمہ خان پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ کچھ وی لاگرز کی مدد سے پارٹی کے کارکنوں کو ان کے خلاف کرنے اور سینئر قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں،عمران خان نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے دونوں رہنمائوں کو ہدایت دی کہ وہ عوامی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات نہ دیں تاکہ پارٹی مخالفین کو فائدہ نہ ہو، پارٹی کے اندرونی فیصلوں میں اس اختلاف کا اثر نظر آیا، جس کا نتیجہ گنڈاپور کے استعفے اور کابینہ میں تبدیلی کی صورت میں نکلا، ان اختلافات کا محور سیاسی اختیار، پارٹی قیادت، اور اندرونی گروپنگ تھا، جس سے نہ صرف پارٹی میں انتشار پیدا ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور خیبرپختونخوا میں نئی قیادت سامنے آئی۔
علیمہ خان اور علی امین گنڈاپور کے درمیان پارٹی کے اندرونی اختلافات اور گروپنگ کے آئندہ نتائج تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ ان اختلافات کے چند نمایاں اور ممکنہ اثرات یہ ہوں گے، پارٹی کے اندر گروہ بندی اور قیادت کے جھگڑے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اندر وحدت اور تنظیمی نظم بڑے پیمانے پر متاثر ہو سکتا ہے، کارکنوں اور رہنمائوں کے درمیان اعتماد میں کمی آئے گی جس سے پارٹی کمزور ہو سکتی ہے، مستقل تبدیلیوں، اقتدار کی کھینچا تانی، اور عبوری حکمتِ عملی سے صوبائی سطح پر حکومت کا فیصلہ سازی کا عمل سست یا کمزور ہو سکتا ہے، ترقیاتی منصوبوں اور امن و امان کی صورت حال پر منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔ اپوزیشن اور مخالف سیاسی جماعتیں اس اندرونی کشمکش کو استعمال کر کے خیبرپختونخوا اور وفاق میں پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی مہمات تیز کر سکتی ہیں، اس تقسیم سے وفاقی حکومت یا دیگر جماعتوں کو صوبائی حکومت پر دبا ڈالنے اور اتحاد توڑنے کا موقع مل سکتا ہے، اگر یہ اختلافات شدت اختیار کرتے رہے تو پارٹی بانی عمران خان کی اتھارٹی بھی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ فیصلے متنازعہ ہو جائیں گے، جس سے پارٹی کے بنیادی بیانیے اور عوامی حمایت میں کمی آنے کا خدشہ ہے، بار بار تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام کا اعتماد صوبائی حکومت سے اُٹھ سکتا ہے، جس سے انتخابی سیاست میں نقصان ممکن ہے، اس کشمکش کے کم کرنے کے لیے پارٹی لیڈرشپ کی طرف سے مفاہمتی اور متحدہ حکمت عملی کا اپنا نا انتہائی ضروری ہے، ورنہ پارٹی کی مزید تقسیم اور سیاسی اثر کم ہونا ممکن ہے۔
عمران خان نے پارٹی کے اندرونی بحران، بالخصوص خیبرپختونخوا حکومت، علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان کے تنازعات میں براہ راست اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ حالیہ واقعات میں انہوں نے اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے وضاحت اور عمل درآمد کے کئی اہم فیصلے کیے ہیں، عمران خان نے علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان کے درمیان اختلافات اور پارٹی کی اندرونی گروپنگ پر براہ راست نوٹس لیتے ہوئے دونوں رہنمائوں کو ہدایت دی کہ وہ عوامی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان نہ دیں تاکہ پارٹی کا بیانیہ اور نظم برقرار رہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پارٹی قیادت اور اہم معاملات میں آخری فیصلہ انہی کا ہوگا، لہٰذا دونوں رہنمائوں کو پارٹی ڈسپلن میں رہ کر چلنے کی ہدایت کی، عمران خان نے پارٹی کے اندرونی مشورے اور اختلافات کے پیش نظر خود فیصلہ کیا کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر سہیل آفریدی کو عبوری وزیراعلیٰ بنایا جائے، انہوں نے اس فیصلے کو پارٹی پالیسی اور تنظیمی نظم کے تناظر میں لیا اور اس پر عمل درآمد کی ہدایت بھی دی، جس سے گنڈاپور نے استعفیٰ دیا اور کابینہ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ عمران خان نے پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کو واضح پیغام دیا کہ پارٹی کے اندرونی اختلاف اور گروپنگ برداشت نہیں کی جائے گی، اور تنظیمی نظم قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، انہوں نے عبوری قیادت کو ہدایت دی کہ فوری طور پر سکیورٹی، انتظامی اور سیاسی اصلاحات پر کام کیا جائے، اور اگر داخلی سیاست یا پارٹی نظم میں کوئی خلا باقی رہا تو براہ راست عمل دخل سے بھی گریز نہیں کریں گے، عمران خان کا یہ طاقتور کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پارٹی میں ان کی اتھارٹی سب سے اہم ہے اور کسی بھی تنظیمی بحران یا تنازعے میں فوری اور فیصلہ کن مداخلت کر کے پارٹی ڈسپلن اور قیادت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سہیل خان آفریدی خیبر پختونخوا کے نامزد وزیر اعلیٰ ہیں، جن کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے ہے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان رہنما شمار ہوتے ہیں، سہیل آفریدی نے 2024ء کے عام انتخابات میں جمرود کے صوبائی حلقہ پی کے 70سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی اور بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے، جس کے بعد اِس جماعت کی طرف سے انہیں وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزد کیا گیا، سہیل آفریدی نے پشاور یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور زمانہ طالب علمی میں انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہو گئے تھے، بعد ازاں وہ اس کے صوبائی صدر اور انصاف یوتھ ونگ کے بھی صدر منتخب ہوئے، وہ پی ٹی آئی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور پارٹی امور میں سرگرم کردار ادا کرتے آ رہے ہیں، انتخابی سیاست میں فعال ہونے کے علاوہ، سہیل آفریدی کو صوبائی کابینہ میں پہلے معاون خصوصی برائے کمیونیکیشن اینڈ ورکس اور بعد ازاں وزیر برائے اعلی تعلیم تعینات کیا گیا،9مئی 2023ء کے بعد پی ٹی آئی پر مشکل وقت میں بھی پارٹی کارکنوں اور یوتھ ونگ کے نوجوانوں کو متحرک اور منظم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے اور ان کے خاندان کا سیاست سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے، ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق سہیل آفریدی عوامی مزاج رکھتے ہیں اور ہر وقت پارٹی اور عوام کے ساتھ موجود رہتے ہیں، سہیل آفریدی خیبر پختونخوا اور پی ٹی آئی کی نوجوان قیادت کی ابھرتی ہوئی علامت ہیں۔





