Column

امن کا تاریخی لمحہ، غزہ کی سرزمین پر امید کا سویرا

امن کا تاریخی لمحہ، غزہ کی سرزمین پر امید کا سویرا
ڈاکٹر اے اے جان۔۔۔
دو سال کی مسلسل آگ، دھوئیں، خون اور ملبے کے بعد، آخرکار وہ گھڑی آ پہنچی جس کا انتظار نہ صرف فلسطین بلکہ پوری انسانیت کو تھا۔ قاہرہ کی فضا میں جب مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے پُرعزم لہجے میں اعلان کیا کہ ’’ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ نافذ العمل ہو گیا ہے‘‘، تو یہ اعلان صرف ایک سیاسی خبر نہیں تھی، بلکہ یہ تاریخ کی دھول میں دفن ہوتی انسانیت کا دوبارہ سانس لینا تھا۔
یہ لمحہ اُس امید کا ثبوت بن گیا جسے دنیا نے کئی بار مصلحتوں کے بوجھ تلے دفن کر دیا تھا۔ شرم الشیخ کی فضائوں میں ہونے والی بات چیت آخرکار اُس موڑ پر پہنچی جہاں امن نے جنگ پر فتح حاصل کی، اور سفارتکاری نے بندوقوں کی گرج کو خاموش کر دیا۔ مصری وزارتِ خارجہ نے ٹھیک کہا، ’’ یہ ایک اہم موڑ ہے‘‘، ’’ شاید صرف غزہ کے لیے نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے‘‘۔
غزہ کے زخم بہت پرانے ہیں۔ وہاں کے بچوں نے جنہیں کھیلنا تھا، وہ ملبے میں لقمہ ڈھونڈتے رہے۔ عورتوں نے جنہیں گھروں کی رونق بننا تھا، وہ جنازوں کی قطاروں میں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈتی رہیں۔ لیکن گزشتہ روز جب مصر کے صدر نے دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ جنگ ختم ہو رہی ہے، تو ان ہزاروں چہروں پر پہلی بار روشنی کی کرن اتری۔ یہ اعلان صرف سیاسی کامیابی نہیں، یہ ایک انسانی معجزہ ہے۔
دنیا کی مشترکہ آہ
اس اعلان کے بعد عالمی برادری کی خاموش فضا میں ایک اجتماعی آہ اور دعا سنائی دی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’’ یہ امن کی جانب پہلا قدم ہے‘‘۔ بظاہر ایک مختصر جملہ، لیکن اس کے پیچھے وہ سفارتی کوششیں چھپی ہیں جو برسوں سے پسِ پردہ جاری تھیں۔ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ اسرائیل اور حماس نے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دئیے ہیں اور یرغمالیوں کی رہائی قریب ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین ایوانوں میں جب جنگ کے طبل کی جگہ امن کی گھنٹی بجنے لگی تو سفارت کاری کی تاریخ نے ایک نیا باب کھولا۔ اسرائیلی افواج کے پیچھے ہٹنے کا وعدہ، حماس کی طرف سے قیدیوں کے تبادلے کی یقین دہانی، اور امریکہ، قطر، مصر اور ترکی کا کردار، سب کچھ ایک شطرنج کی بساط کی طرح تھا، جہاں ہر چال سوچ سمجھ کر چلی گئی۔ یہ درست ہے کہ طاقتور ملکوں کے فیصلے ہمیشہ اپنے مفاد کے تابع ہوتے ہیں، لیکن اس بار شاید پہلی بار مفاد کے ساتھ انسانیت کا ذکر بھی کیا گیا۔ ٹرمپ کا یہ جملہ، ’’ یہ مسلم دنیا، اسرائیل، تمام پڑوسی ممالک اور امریکا کے لیے عظیم دن ہے‘‘، اپنے اندر ایک وسیع معنی رکھتا ہے۔ اس میں وہ تسلیم موجود ہے جو دہائیوں سے غائب تھی: کہ امن سب کا حق ہے۔
حماس، اسرائیل اور مصری کردار
مصری صدر السیسی کا کردار یہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے صرف ثالثی نہیں کی بلکہ انسانی سطح پر جنگ کے زخموں کو محسوس کیا۔ ان کا بیان کہ ’’ دنیا امن کی فتح کے تاریخی لمحے کی گواہ بن رہی ہے‘‘، ایک سفارتی نہیں بلکہ انسانی جملہ تھا۔ یہ وہی مصر ہے جس نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد کئی دہائیوں تک فلسطینی مسئلے پر احتیاط برتی، مگر اب وہی قاہرہ دوبارہ فلسطینیوں کے لیے امید کا مرکز بن گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے معاہدے کی منظوری کے لیے سکیورٹی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی قیادت بھی اس بار دبائو، تھکن اور زمینی حقیقتوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔ غزہ کے ملبے پر اُگتے ہوئے بچوں نے اسرائیل کو ایک بار پھر آئینہ دکھا دیا ہے کہ زمین پر جبر کی کوئی دیوار ہمیشہ نہیں رہتی۔ حماس کا بیان بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ یہ معاہدہ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلا اور یرغمالیوں کے تبادلے کو محفوظ بنائے گا‘‘۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ، عرب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اسرائیل کو اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پابند بنائیں۔ یہ جملہ دراصل اُس عدم اعتماد کی جھلک ہے جو فلسطینیوں کے دلوں میں برسوں سے راسخ ہے۔
عالمی ردعمل، سفارتکاری کا موسمِ بہار
قطر، ترکی، سعودی عرب، فرانس، کینیڈا اور یورپی یونین کے ردعمل نے دنیا کی سیاست میں ایک نیا توازن پیدا کر دیا ہے۔ قطر نے کہا کہ ’’ یہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کا آغاز ہے‘‘۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ عرب دنیا جو کبھی تقسیم کا شکار تھی، اب کسی حد تک یکسو ہو رہی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ ’’ فرانس امن کے قیام میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہ‘‘، یہ وہی فرانس ہے جو کبھی مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں فاصلہ رکھتا تھا، مگر اب وہ اس عمل میں شرکت چاہتا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے ایک انسانی لہجے میں کہا کہ ’’ یرغمالیوں کے خاندانوں کے چہروں پر سکون لوٹ آئے گا‘‘۔ یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیر لاین نے اس پیش رفت کو ’’ حوصلہ افزا‘‘ کہا اور تمام فریقوں پر عمل درآمد کی تاکید کی۔ ان تمام بیانات کے درمیان یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس کا جملہ شاید سب سے معنی خیز ہے: ’’ یہ معاہدہ ایک تباہ کن جنگ کے خاتمے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا حقیقی موقع پیش کرتا ہے‘‘۔ یہ جملہ یورپ کی اجتماعی تھکن اور انسانی خواہش دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
ترکیہ اور سعودی عرب، اصول اور امید
ترک صدر رجب طیب اردغان کا ردعمل ہمیشہ کی طرح جوش و ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہم اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی‘‘۔ یہ بیان دراصل ترکیہ کی اُس مستقل پالیسی کا تسلسل ہے جو سیاسی مفاہمت سے زیادہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کا محتاط مگر مثبت ردعمل ایک نئے باب کی نشاندہی کرتا ہے۔ سعودی بیان میں ’’ دو ریاستی حل‘‘ کا ذکر’’ یعنی اسرائیل اور فلسطین کے علیحدہ آزاد ریاستوں کا تصور‘‘ ایک مرتبہ پھر زندہ ہوا ہے۔ یہ بیان شاید اس بات کا اشارہ ہے کہ عرب دنیا، امریکا اور اسرائیل کے درمیان نئے تعلقات اب ایک متوازن شکل اختیار کر رہے ہیں، جہاں فلسطین کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
غزہ کے لوگ، راکھ سے اُٹھنے والے چراغ
سیاسی بیانات اپنی جگہ، مگر سب سے بڑی خبر تو غزہ کے عوام کے چہروں پر لکھی جا رہی ہے۔ وہ ماں جس نے اپنے بیٹے کی تصویر ملبے سے نکالی تھی، آج شاید پہلی بار سانس لینے کا حوصلہ کر رہی ہے۔ وہ بچہ جو راتوں کو بمباری کی آواز سے ڈرتا تھا، آج پہلی بار سکون کی نیند سوئے گا۔یہی تو امن کا اصل مطلب ہے، صرف معاہدوں پر دستخط نہیں بلکہ انسان کے اندر خوف کا خاتمہ۔ دنیا کی طاقتیں اکثر امن کی بات اپنے ایجنڈوں کے لیے کرتی ہیں، مگر غزہ کا امن خالص انسانی ضرورت ہے۔ یہ امن کاغذ پر نہیں، آنسوئوں اور قربانیوں سے لکھا گیا ہے۔ مصری صدر کے الفاظ ’’ دنیا امن کی فتح کے تاریخی لمحے کی گواہ ہے‘‘ محض ایک تقریر نہیں، بلکہ ایک صدیوں پر محیط خواب کی بازگشت ہیں۔ فلسطینیوں نے نسل در نسل ظلم برداشت کیا، مگر ان کے دلوں سے امید کا چراغ کبھی نہیں بجھا۔
سیاسی منظرنامہ، طاقت کے محور میں تبدیلی
اس معاہدے نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ اسرائیل کے لیے یہ محض جنگ بندی نہیں، بلکہ ایک ناکام حکمتِ عملی کا اعتراف ہے۔ دو سال کی بمباری کے باوجود اگر امن کے لیے حماس سے مذاکرات کرنا پڑے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت اپنی حدوں کو پہنچ چکی تھی۔ اسی طرح امریکہ کے لیے بھی یہ معاہدہ ایک ’’ ری سیٹ‘‘ ہے، جہاں اس نے اپنی اخلاقی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ قطر، ترکیہ اور مصر نے جو کردار ادا کیا وہ خطے میں نئی طاقتوں کے ابھرنے کا اشارہ ہے۔ اب امن صرف واشنگٹن یا تل ابیب کے ایجنڈے سے نہیں بلکہ قاہرہ، دوحہ اور انقرہ کی میزوں پر بھی طے ہو رہا ہے۔ یہی دنیا کی نئی حقیقت ہے، جہاں نرم طاقت (Soft Power) نے بندوق کی جگہ لے لی ہے
انسانیت کی فتح، مگر امتحان ابھی باقی ہے
امن کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا نے سکون کا سانس لیا ہے، مگر یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ غزہ کی تباہ شدہ عمارتیں، ویران گلیاں، برباد اسپتال اور اجڑی ہوئی زندگی ابھی مرمت کی منتظر ہیں۔ امن تب مکمل ہوگا جب ایک فلسطینی بچہ بغیر خوف کے اسکول جا سکے، جب ایک باپ اپنے بیٹے کے لیے خوراک خریدنے کے قابل ہو، اور جب ایک ماں اپنے گھر کی چھت کے نیچے اطمینان سے سو سکے۔ یہ معاہدہ امید کا دروازہ کھولتا ہے، مگر اس کے اندر داخل ہونے کے لیے عمل، انصاف اور انسانیت کے ستونوں کی ضرورت ہوگی۔ دنیا نے آج جو فتح دیکھی ہے وہ صرف بندوقوں کی خاموشی نہیں بلکہ ضمیر کی بیداری بھی ہے۔
اختتام: ایک نیا سورج، ایک نئی دعا
غزہ کی فضا میں جب اذان کی آواز بلند ہوگی تو وہ شاید دہائیوں بعد کسی سناٹے کو توڑے گی۔ یہ امن کا سورج صرف فلسطین کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے طلوع ہوا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جنگ جتنی بھی طاقتور ہو، آخرکار امن ہی غالب آتا ہے۔ مصری صدر کا تاریخی اعلان دراصل انسانیت کے ضمیر کی فتح ہے۔ دنیا نے آخرکار یہ مان لیا ہے کہ امن کسی ایک قوم کا نہیں، سب کا حق ہے۔ غزہ کے ملبے پر آج ایک نیا عہد لکھا جا رہا ہے، جہاں بندوقوں کی جگہ قلم ہوگا، جہاں بارود کی جگہ دعائیں ہوں گی، اور جہاں خوف کی جگہ اُمید کا بسیرا ہوگا۔ یہ معاہدہ شاید ابھی ادھورا ہو، مگر یہ تاریخ کا وہ لمحہ ضرور ہے جس میں انسانیت نے خود کو دوبارہ پہچانا ہے۔ غزہ کے بچوں کی آنکھوں میں اب آنسو نہیں، چمک ہے اور وہ چمک ایک نئی صبح کا اعلان کر رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button