Column

جسم کے اندر پڑے پڑے

جسم کے اندر پڑے پڑے
شہر خواب ۔۔
صفدر علی حیدری
دنیا کا ذہین ترین انسان البرٹ آئن سٹائن بچپن میں دماغی طور پر کمزور سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ 9سال کی عمر تک بولنے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ سٹائن ایک ذہنی بیماری ’’ آٹزم‘‘ کا بھی شکار تھا جس کی وجہ سے وہ ہر وقت اپنے آپ میں گم رہتا اور اپنے روزمرہ معمولات میں کسی کی بھی دخل اندازی پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک روز آئن سٹائن کھانے کی میز پر بیٹھا تھا کہ اس کی ماں نے اسے پینے کے لئے گرم سوپ دیا، سٹائن سوپ کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی بولا ’’ سوپ بہت گرم ہے‘‘، یہ آئن سٹائن کا پہلا بولا جانے والا جملہ تھا، جسے سن کر اس کے والدین خوشی سے اچھل پڑے۔ اس کی ماں نے حیرت سے سٹائن سے پوچھا ’’ پیارے بیٹے، ایسے الفاظ تم نے پہلے کیوں نہیں بولے؟‘‘، سٹائن نے جواب دیا’’ اس سے پہلے ہر چیز نارمل تھی اس لیے میں نہیں بولتا تھا‘‘۔ آئن سٹائن کا جواب سن کر اس کے والدین کو اطمینان ہو گیا کہ ان کا بیٹا بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دماغ کی غیر معمولی نشوونما کی وجہ سے آئن سٹائن کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعات دان بن گیا۔
10اکتوبر کو دنیا بھر میں ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر شخص کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ذہنی صحت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی جسمانی صحت بلکہ ذہنی صحت زیادہ اہم ہے کہ اس کی وجہ سے انسان جسم بھی صحت مندی کی حالت میں رہتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں 45کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں ۔ جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں ۔ 2002ء میں یہ اندازہ لگایا تھا کہ دنیا بھر میں 15کروڑ 40لاکھ سے زیادہ افراد ڈیپریشن کا شکار ہیں جبکہ دنیا بھر میں تقریباً ایک فیصد افراد کسی ایک وقت میں شیزو فرینیا سے متاثر ہوتے ہیں۔ شیزو فرینیا میں مریض کا دماغ غیر حقیقی چیزوں کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔ اسے رشتہ دار قریبی عزیز سب دشمن نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں میں باہر کی دنیا کا شعور کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہونے لگتا ہے ۔ یہ اپنی ہی دنیا میں مگن نظر آتے ہیں۔
( سری ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی بھی اس مرض کا تین سال تک شکار رہے۔ وہ ایک حکیم صاحب کے علاج سے صحت یاب بھی ہو گئے تھے اور پھر سے سری ادب تخلیق کرنے لگے ) ۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں چار میں سے ایک شخص کو کچھ حد تک ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے ۔ جب کہ ترقی پزیر ملکوں میں 85فیصد تک افراد کو دماغی امراض کے کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں ۔ وہاں دماغی بیماری کو شرمندگی اور بدنامی سمجھا جاتا ہے۔
آج کی تیز رفتار دنیا میں، جہاں انسان نے خود کو آسائشوں کا عادی کر دیا، زندگی اس کے لیے دشوار سی ہو گئی ہے۔ اس کے ذہن پر دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی بہتر ادائیگی کے لیے ذہنی صحت پر توجہ دینا از حد ضروری ہے۔
تنائو، برن آئوٹ، اور دماغی صحت کے چیلنج ہر وقت موجود رہتے ہیں جو آجروں اور ملازمین کے لیے صحت مند کام کے ماحول کو فروغ دینا ضروری بناتے ہیں۔ کام کی جگہ فرد کی ذہنی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ کئی گھنٹے مسلسل کام ، سخت ڈیڈ لائنز اور بڑھتے ہوئے مطالبات کے ساتھ ، ملازمین اکثر خود کو بے بس اور مجبور محسوس کرتے ہیں۔ اوپر سے بری کارکردگی پر سخت گیر تادیبی کارروائی کا خوف کسی ننگی تلوار جیسا ہوتا ہے جو ہر وقت سر پر لٹک رہی ہو ۔ حالیہ برسوں میں کام کی جگہ پر دبائو میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کئی عوامل اس رجحان میں حصہ ڈالتے ہیں ۔ بہت سی کمپنیاں کم وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار کی توقع رکھتی ہیں۔ ملازمین اب 24؍7قابل رسائی ہیں، جس کی وجہ سے کام اور زندگی کا توازن خاصا بگڑا ہے۔
معاشی غیر یقینی صورت حال ملازمت کے استحکام کے بارے میں خدشات کا باعث بنی ہے، جو ذہنی تندرستی کو متاثر کرتی ہے۔یہ تنا نہ صرف انفرادی ملازمین کو متاثر کرتے ہیں۔ کام کی جگہ پر ذہنی صحت کو نظر انداز کرنے کے ملازمین اور کاروبار دونوں کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ جب ذہنی صحت کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے، تو ملازمین کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دماغی صحت کی جدوجہد کا نتیجہ اکثر توجہ اور کارکردگی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ ملازمین تنائو سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے کام سے زیادہ وقت نکال سکتے ہیں۔ ورکرز کے ایسے کام چھوڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو دماغی صحت کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ یہ تو دفتر کا معاملہ ، اکثر گھروں میں بھی مردوں کے لیے ماحول کچھ خاص خوش گوار نہیں ہوتا۔ دفتر اور گھر کا دبائو ملکر مردوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ ورکنگ وومن کے لیے بھی حالات اکثر ناخوش گوار ہوتے ہیں۔
اگر اسے صنفی امتیاز نہ سمجھا جائے تو میں کہوں گا ٹینشن اور ڈپریشن جیسے دماغی مسائل کا شکار مرد عورتوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اور گھریلو عورتوں کی نسبت کام کے لیے گھر سے باہر جانے والی خواتین۔ یہ کالم بہت اہم ہونے جا رہا ہے۔ یہ موضوع میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ ویسے تو ہر کالم نگار کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ وہ ہر موضوع پر لکھ سکتا ہے اور بے تکان لکھ سکتا ہے۔ میں کسی اور موضوع کی بات تو خیر نہیں کروں گا، اس موضوع پر واقعی بے تکان لکھ سکتا ہوں۔ وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ میں خود اس مرض کا ایک سے زیادہ بار شکار رہا ہوں ۔ گویا ’’ پاگل ‘‘ ہونے کا باقاعدہ عملی تجربہ رکھتا ہوں۔ کہتے ہیں مریض آدھا ڈاکٹر ہوتا ہے اور مجھے پونا سمجھ لیجیے کہ اس مرض کا کئی بار شکار ہوا ہوں۔ اور میں نے ایسے ایسے ڈاکٹر دیکھے ہیں جو طبیب نہیں طب کی نام پر دھبہ ہیں۔ جن کا مقصد کمائی کرنا ہے اور مریضوں کو لوٹنا ہے۔ وہ ایسے مریضوں کی نفسیات پر اتنا بھی علم نہیں رکھتے جتنا کسی عام آدمی جب پاس ہوتا ہے۔
یہ غالباً دو ہزار سترہ کا ذکر ہے۔ مجھے بہاولپور کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ اس کا ایک بڑا ہسپتال تھا جہاں باقاعدہ وارڈ بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے میری روداد سننے کے بعد اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے پوچھا’’ کیا آپ سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہے ؟‘‘، ’’ انسان ہوں غلطی ہو جاتی ہے‘‘، ’’ تو پھر آپ کو آپ کے کسی گناہ کی سزا مل رہی ہے ‘‘۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرے سر پر کوئی لٹھ دے ماری ہو۔ اس شخص کو اتنا بھی احساس نہیں ہوا کہ اس کا ایک جملہ میری زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے۔ وہ ایک بیماری کو گناہ کی سزا بتا رہا تھا۔ کیا اسے اتنی سی بات پتہ نہیں تھی کہ اس کیفیت کو شکار پہلے ہی احساس گناہ کے ماری ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ پہلے ہی سے گلٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ پہلے ہی سے اس سوگ میں ہوتے ہیں کہ وہ ناکارہ اور ناکام لوگ ہیں۔ اب جب اسے ان کا معالج بھی کہے گا تو ان کی کیا حالت ہو گی۔ مجھے بھی اس جواب سے سمجھ آ گئی تھی کہ یہ شخص محض دوائیں بیچنے والا دکان دار ہے۔ تاہم مجھے اس کی دوائی تین ماہ کھانا پڑی ۔ چوتھے ماہ میں نے اس سے درخواست کی کہ میری فیس معاف کر دے کہ بیماری کے سبب میں کوئی کام دھندا نہیں کر سکتا۔ اس نے نے پرواہی سے کہا پھر کبھی دیکھیں گے۔ میں نے پوچھا میں کب تک ٹھیک ہو جائوں گا۔ اس کا جواب ہوش اڑا دینی والا تھا’’ کم از کم آٹھ سے دس سال لگیں گے ‘‘، میرے چھکے چھوٹ گئے اور میں نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ مجھے پھر کبھی اس کے پاس نہیں آنا۔ اور میں ایک ماہ بعد ٹھیک ہو چکا تھا۔ میرا ایک کزن دس سال سے اسلام آباد کے ایک معالج کے زیر علاج ہے اور اس کی صحت یابی مشکل نظر آتی ہے۔ مجھے سچ میں شدید دکھ ہوتا ہے کہ ہزاروں ایسے مریض ہیں جو پیسہ اور وقت برباد کر رہے ہیں۔ ان کی مثال اس قیدی ہے جیسی ہے کہ جو اپنا سزا پوری کر چکا مگر اسے پھر بھی آزاد نہیں کیا جا رہا۔ جو بے رحم دوا فروشوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے اور وقت اور پیسہ برباد کر رہا ہے۔ مسلسل اذیت سے دوچار ہے اور اضافی سزا کاٹ رہا ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ وہم ڈال دیا گیا ہے کہ انہوں نے دوا چھوڑی تو پھر سے اس مرض کا شکار ہو جائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈپریشن اور اس طرز کے جتنے بھی ذہنی امراض ہیں کہ جن سے انسان کا سافٹ وئیر خراب ہو جاتا ہے، کسی طور بھی جسمانی مرض نہیں ہیں۔ یہ روحانی امراض ہیں جن کا ڈاکٹروں کے پاس کوئی علاج نہیں۔ اس سے میری یہ مراد بالکل بھی نہیں ہے کہ یہ امراض ناقابل علاج ہیں۔ میں ایسا ہرگز نہیں کہہ رہا۔ یہ ضرور ہے کہ اس کا علاج ان نام نہاد دوا فروشوں کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔
اگر شروع شروع میں مسئلہ بہت زیادہ ہو تو کسی معالج کے مشورے سے نیند کی گولی، ہاضمے کی دوا اور ملٹی وٹامن کا ایک دو ماہ استعمال کافی ہو گا۔ اسے تمام مریضوں کا روحانی علاج انھیں بہت جلد حقیقت کی دنیا میں لے آتا ہے ۔ وہ صحت یاب ہو کر پھر سے زندگی کی دوڑ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ قبل میں نے تین اقساط پر مشتمل اپنے کالم ’’ ڈپریشن اور اس کا علاج ‘‘ میں تفصیلی طور پر لکھ چکا ہوں۔ ان شاء اللہ کالم کے آخر میں وہ تیر بہدف وظیفہ ضرور لکھوں گا جس نے ہر بار مجھے سنبھالا ہے ۔ اور اب وہ حرز جاں بنا رکھا ہے تاکہ پھر کبھی یہ مسئلہ سر نہ اٹھائے۔ پانچ بار اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بیماری قابل علاج تو ہے ہی لیکن یہ بار بار پلٹنے والی بھی ہے۔ ذرا سا پرانا ماحول ملا اور حالات پیدا ہوئے، یہ پھر سے انسان کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ اس بیماری کا آغاز بہت زیادہ سوچنے سے ہوتا ہے۔ مسلسل سوچیں انسان کو ذہنی تنا میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ انسان کا موڈ بہتر نہیں ہوتا۔ ہر کام سے اس کی دل چسپی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر انسان کو پسندیدہ چیزوں سے۔ وہ تنہائی پسند ہونے لگتا ہے۔ تنہا بیٹھنا یا تنہا گھومنا پھرنا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ اب اس سے بحث نہیں کہ کون سی چیز انسان کو ڈپریشن میں ڈالتی ہے۔ یہ معمولی سے معمولی چیز بھی ہو سکتی ہے اور بڑی سے بڑی چیز بھی۔
کبھی لکھا تھا’’ پتہ ہے آسیب کسے کہتے ہیں ؟ ہر وہ چیز جو اعصاب پر سوار ہو جائے ‘‘۔
تو پیارے قارئین! ڈپریشن کا آسیب کسی بھی معمولی چیز کے سبب انسان کے سر پر سوار ہو سکتا ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو، اس کا علاج روحانی ہی ہو سکتا ہے۔ چند باتوں پر عمل کرنا بے حد فائدہ دے گا۔
خود کو تنہا نہ ہونے دیں ۔ اپنے پیاروں کے پاس رہیں اور ان سے اپنے مسائل ڈسکس کرتے رہیں۔ آپ کے پیارے آپ کو اس کیفیت سے نکل سکتے ہیں، نماز کی پابندی کریں اور باوضو رہنے کی کوشش کریں، سوچوں کا تسلسل توڑنے کے لیے درود شریف کا کثرت سے ورد کریں۔ باقاعدگی سے واک کریں، دوستوں سے جڑے رہیں، کام سے کچھ وقت کے لیے بریک لے لیں۔ قناعت اور توکل کو اپنا بہترین دوست سمجھیں۔ جلد سونے اور جلد جاگنے کو اپنا شعار بنائیں۔ تلاوت قرآن سننے کا اہتمام کریں ۔
آخر میں دو قرآنی آیات پیش کروں گا جن سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ انسان اس بیماری کو شکار کیوں ہوتا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے ’’ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود فراموشی میں مبتلا کر دیا، یہی لوگ فاسق ہیں ‘‘۔
ایک اور جگہ رہنمائی فرمائی گئی ہے کہ ’’ اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا اور سب امور کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ‘‘۔
’’ عروۃ وثقی ‘‘ کو تھامے رہیں، یہ آپ کو کبھی گرنے نہیں دے گی۔ نہ کسے کے قدموں میں نہ کسی کی نظروں میں۔
اب آخر میں وظیفہ کہ نماز پنج گانہ کی پابندی جس میں لازم ہے، نماز فجر اور نماز مغرب کی فرض نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی، اسی حالت میں ساکن بیٹھے بیٹھے سو بار پڑھیں’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، لا حول ولا قوۃ لا باللہ العظیم‘‘۔ہر بار ملا کر ۔۔ سو بار
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر مرض سے محفوظ رکھے، آمین
اندر کا آدمی کبھی باہر نہ آ سکا
پتھرا گیا وہ جسم کے اندر پڑے پڑے

جواب دیں

Back to top button