نوجوان طبقہ مایوس کیوں؟

نوجوان طبقہ مایوس کیوں؟
کالم نگار: ملک نعمان حیدر حامی
پاکستان میں نوجوان طبقہ جو آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہے، آج کل گہری مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کا شکار نظر آتا ہے۔ وہ طبقہ جو کسی بھی ملک کی اصل طاقت، توانائی اور ترقی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، یہاں اپنی زندگی، تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے شدید اضطراب اور ناامیدی میں مبتلا ہے۔ اس مایوسی کی کئی وجوہات ہیں، جو صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اور نظامی سطح پر جڑی ہوئی ہیں۔ ایک اہم وجہ معاشی بحران ہے، جس نے نوجوانوں کے خوابوں اور منصوبوں کو دھندلا دیا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہر سال لاکھوں نوجوان تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، مگر ان کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ملک کی معیشت طویل عرصے سے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے، صنعتیں سکڑ رہی ہیں، کاروبار کم ہو رہے ہیں، اور نجی و سرکاری شعبوں میں بھرتیاں محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہیں۔ نتیجتاً تعلیم یافتہ نوجوان یا تو کم تنخواہوں پر مجبوراً کام کرتے ہیں، یا بے روزگار رہ کر ذہنی دبائو اور احساسِ محرومی کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال نے نوجوانوں میں یہ یقین پیدا کر دیا ہے کہ محنت اور تعلیم کے باوجود مستقبل غیر محفوظ ہے، اور کامیابی کا انحصار قابلیت یا جدوجہد کے بجائے تعلقات اور سفارش پر ہے۔
تعلیمی نظام بھی نوجوانوں کی مایوسی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا معیار مسلسل زوال پذیر ہے۔ نصاب پرانا، غیر متوازن اور جدید دنیا کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں۔ عملی تربیت، ٹیکنیکل ہنر، تحقیق اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے محض رٹے پر مبنی نظام پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان جب مارکیٹ میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم موجودہ صنعتی اور تکنیکی تقاضوں کے مطابق نہیں۔ اس طرح ایک ’’ مہارتوں کا خلا‘‘ پیدا ہو چکا ہے جہاں تعلیم یافتہ نوجوان ڈگری رکھتے ہیں مگر عملی دنیا کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے باوجود ملازمت حاصل نہیں کر پاتے، اور رفتہ رفتہ خود اعتمادی کھو دیتے ہیں۔ دوسری طرف، فنی تعلیم کے ادارے محدود ہیں، جبکہ ہنرمند نوجوانوں کے لیے مناسب مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ یہ تضاد ایک ایسی نسل پیدا کر رہا ہے جو نہ صرف بے روزگار ہے بلکہ اپنی تعلیم، اپنی محنت اور حتیٰ کہ اپنے ملک پر سے بھی اعتماد کھو چکی ہے۔
معاشی دبائو کے ساتھ ساتھ سماجی اور خاندانی دبائو بھی نوجوانوں کی ذہنی تھکن کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں نوجوانوں پر اکثر اپنے خاندان کی توقعات کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ ڈاکٹر، انجینئر یا سرکاری ملازم بنے، لیکن جب وہ نوجوان اپنی دلچسپی کے مطابق کسی میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح، لڑکیوں کے لیے حالات مزید مشکل ہیں۔ انہیں تعلیم اور ملازمت کے یکساں مواقع نہیں ملتے، اور سماجی رویے اکثر ان کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ نوجوانوں میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے، اور معاشرہ ان پر اپنی سوچ اور اقدار مسلط کرتا ہے۔ یہ احساسِ محرومی اور بے اختیاری ان کے اندر مایوسی، غصہ اور بغاوت پیدا کرتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام بھی نوجوانوں کی امیدوں کے خاتمے کا ایک اہم سبب ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، پالیسیوں میں تسلسل نہیں، کرپشن بڑھ رہی ہے اور انصاف کا نظام کمزور ہے، تو ان میں یہ احساس جنم لیتا ہے کہ محنت اور ایمانداری کا کوئی فائدہ نہیں۔ سیاست میں بدعنوانی اور اقربا پروری عام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ان کی قابلیت کی کوئی قدر نہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جن کے پاس سفارش، پیسہ یا تعلقات ہیں، وہ آگے بڑھ جاتے ہیں، جبکہ محنتی اور باصلاحیت لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہی احساس ناانصافی ان کی سوچ کو منفی سمت میں لے جاتا ہے۔ وہ یا تو سیاست سے مکمل بیزار ہو جاتے ہیں، یا پھر مایوسی کے عالم میں ملک چھوڑنے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ آج ہزاروں نوجوان بیرونِ ملک جانے کے لیے کوشاں ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہو گیا ہے کہ ان کے اپنے ملک میں انہیں عزت، روزگار یا ترقی کے مواقع نہیں ملیں گے۔
مہنگائی اور معاشی عدم استحکام نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ روزمرہ زندگی کے اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ایک متوسط طبقے کے نوجوان کے لیے مستقبل کے خواب دیکھنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ تعلیم کے اخراجات، کرایے، بجلی، خوراک اور آمدورفت کے خرچ نے نوجوانوں کو زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف کر دیا ہے۔ جو نوجوان گھر کے واحد کفیل ہیں، ان کے لیے ذمہ داریاں اور دبائو کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ وہ اپنی خواہشات، دلچسپیاں اور خواب ترک کر کے صرف بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورتحال میں ذہنی دبائو، اضطراب اور ڈپریشن جیسے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ذہنی صحت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، نہ تعلیمی اداروں میں کونسلنگ کا نظام موجود ہے اور نہ ہی نوجوانوں کے لیے ایسے پلیٹ فارمز جہاں وہ اپنی مشکلات بیان کر سکیں۔دوسری طرف میڈیا اور سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی توقعات اور موازنہ کرنے کی عادت کو بڑھا دیا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ان کی عمر کے لوگ کامیابی حاصل کر رہے ہیں، کاروبار کر رہے ہیں، اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے خواب پورے کر رہے ہیں، جبکہ وہ خود ایک جمود اور رکاوٹوں والے نظام میں قید ہیں۔ یہ احساسِ محرومی ان کے ذہن میں ایک نفسیاتی خلا پیدا کرتا ہے۔ ان میں سے بہت سے نوجوان اپنی قابلیت پر شک کرنے لگتے ہیں، بعض مایوسی کے عالم میں خود کو الگ تھلگ کر لیتے ہیں، جبکہ کچھ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف انفرادی بلکہ قومی سطح پر خطرناک ہے، کیونکہ جب کسی ملک کے نوجوان مایوس ہو جائیں تو اس کا مستقبل غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ نوجوانوں کے مسائل کا حل موجود ہے، اگر ریاست اور معاشرہ سنجیدگی سے ان پر توجہ دے۔ سب سے پہلے تعلیم کے نظام میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا، عملی تربیت اور ہنر مندی پر توجہ دینا، اور نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، حکومت اور نجی شعبہ مل کر روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو سہولتیں دی جائیں تاکہ وہ نوجوانوں کو ملازمت فراہم کر سکیں۔ انٹرن شپ، ٹریننگ اور اپرنٹس شپ پروگرامز کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان عملی تجربہ حاصل کر سکیں۔
سماجی سطح پر بھی اصلاح ضروری ہے۔ نوجوانوں کو اپنی دلچسپیوں کے مطابق کیریئر اختیار کرنے کی آزادی دی جائے، والدین اور اساتذہ انہیں حوصلہ دیں کہ وہ اپنی راہ خود چن سکیں۔ خواتین کے لیے برابری کے مواقع فراہم کیے جائیں، دیہی علاقوں میں تعلیمی و فنی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ وہاں کے نوجوان بھی ترقی کے دھارے میں شامل ہو سکیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں کی آواز کو سننے کے لیے پلیٹ فارم بنائے، پالیسی سازی میں ان کی رائے شامل کرے، اور انہیں ملک کے مستقبل کی تعمیر میں شریک کرے۔
سیاسی سطح پر شفافیت اور انصاف کا قیام نوجوانوں کے اعتماد کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ جب نوجوان دیکھیں گے کہ قابلیت اور ایمانداری کی قدر ہو رہی ہے، تب ہی ان کے دل میں امید پیدا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے کہ وہ نوجوانوں میں مثبت سوچ، خود اعتمادی اور ہنرمندی کا پیغام عام کریں۔ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ مشکلات کے باوجود محنت کا پھل ضرور ملتا ہے، اور تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب وہ خود اس کا حصہ بنیں۔
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نوجوان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، اگر وہ مایوس ہوں تو قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو امید دلائے، ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے مواقع دے، اور ایسا ماحول فراہم کرے جہاں وہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ مایوسی کا علاج صرف امید ہے، اور امید تب پیدا ہوتی ہے جب ریاست، معاشرہ اور فرد مل کر ایک مقصد کے لیے کوشاں ہوں۔ اگر ہم نے آج اپنے نوجوانوں کی مایوسی کو دور نہ کیا تو کل یہ مایوسی ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم نوجوانوں کو صرف وعدوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے یقین دلائیں کہ ان کا مستقبل روشن ہے، ان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی، اور پاکستان ان کا ملک ہے جس میں وہ عزت، ترقی اور اعتماد کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو نوجوانوں کی مایوسی کو امید میں، اور پاکستان کے اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔





