ColumnImtiaz Aasi

عمران خان کی نئی حکمت عملی، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس

عمران خان کی نئی حکمت عملی، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور سے استعفیٰ لینے کے بعد پارٹی رہنمائوں کو اپنی نئی حکمت عملی پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پارٹی رہنمائوں کو کہا گیا ہے علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ نامنظور ہونے کی صورت میں صوبے کو بند کر دیا جائے اور انہیں قید تنہائی میں رکھنے کی صورت میں بھرپور احتجاج کرنے کی ہدایت کی ہے۔ راولپنڈی کینٹ میں خصوصی جیل کے قیام کے بعد اس امر کا خدشہ ہے بانی پی ٹی آئی کو خصوصی جیل منتقل کر دیا جائے گا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے خصوصی جیل میں دو قیدیوں کو رکھا گیا تھا جن میں سے ایک کو رہا کر دیا گیا ہے اور ایک ابھی وہیں موجود ہے۔ ذمہ دار حلقوں نے خصوصی جیل میں پہلے سے دو قیدیوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے تاہم ان کے نام بتانے سے گریز کیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی رہنمائوں کو ہر منگل کو سنٹرل جیل راولپنڈی کے باہر عوامی کچہری لگانے کی ہدایات دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کے ارکان کو آزاد ڈیکلئر کرنے کے بعد اس بات کا قومی امکان ہے کہیں کے پی کے میں گورنر راج نہ لگا دیا جائے۔ عمران خان نے علی امین کی جگہ سہیل آفریدی کو وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کیا ہے، جو بعض اداروں کو قابل قبول نہ ہیں۔ عجیب تماشہ ہے ایک طرف علی امین گنڈا پور کا دعویٰ ہے انہوں نے اپنا استعفیٰ گورنر آفس میں بھیجا ہے جسے باقاعدہ وصول کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف گورنر سیکرٹریٹ کی طرف سے علی امین کے استعفیٰ کی وصولی سے انکاری ہے۔ اس صورت حال نے بہت سے خدشات کو جنم لیا ہے۔ علی امین گنڈا پور کے مستعفی ہونے کے بعد اصولی طور پر ان کا استعفیٰ گورنر کو منظور کر لینا چاہیے تھا لیکن ان کے استعفیٰ کی منظوری میں لیت و لعل سے کے پی کے میں گورنر راج کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کے پی کے میں جان بوجھ کر دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو لایا گیا۔ انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری تھا۔ اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان کو دہشت گردی پر اکسایا جبکہ ہمارے ہا ں دہشت گردی کے معاملے پر سیاست ہوئی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو قید و بند اور کوڑوں کی سزائوں کے باوجود پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں فرق نہیں آیا۔ یہ علیحدہ بات ہے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی عوام میں مقبولیت کھو چکی ہے اور پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی بجائے سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پاکستان کے عوام جان چکے ہیں وفاق ہو یا صوبے طاقتور حلقوں کی آشیرباد کے بغیر کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں نہیں آسکتی۔ گزشتہ انتخابات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو چکی ہے طاقت کا سرچشمہ عوام کی بجائے بعض ادارے ہیں، لہذا ملک میں انتخابات کا انعقاد بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے تھے، وہ طاقتور حلقوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور بانی پی ٹی آئی کی قربت چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ عمران خان اور علی امین کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ عمران خان جیسا چاہتے تھے علی امین ویسا کر نہیں پائے، نہ وہ طاقتور حلقوں کی قربت سے دوری کے متحمل ہو سکتے تھے۔ صوبہ کے پی کے میں مبینہ طور پر کرپشن کا بہت شور و غوغا تھا، اس سلسلے میں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان بھی اشارہ کر چکے تھے۔ درحقیقت علی امین عمران خان کا اعتماد کھو چکے تھے۔ جب کوئی رہنما اپنے لیڈر کا اعتماد کھو دے تو اس کا کسی منصب پر رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔ عمران خان نے ایک نوجوان سہیل آفریدی کا وزیراعلیٰ کے منصب کے لئے انتخاب کیا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ صوبے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن ایک بات ضرور ہے سہیل آفریدی سابق وفاقی وزیر اور عمران خان کے دست راست مراد سعید کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں۔ سہیل آفریدی کا ایک ایسے وقت میں وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے انتخاب اس لحاظ سے بھی اہم سمجھا جا رہا ہے ان کا تعلق باڑہ سے ہے جو سابقہ فاٹا کا علاقہ ہے، جہاں دہشت گردی زوروں پر ہے، لہذا نئے وزیراعلیٰ سابقہ قبائلی علاقہ جات کے کلچر سے اچھی طرح واقف ہیں، ان سے امید کی جا سکتی ہے وہ صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افواج پاکستان کے لئے مددگار اور معاون ثابت ہو سکیں گے۔ سہیل آفریدی زمانہ طالب علمی سے پی ٹی آئی سے وابستہ تھے۔ وہ پہلی مرتبہ خیبر سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ جہاں تک علی امین کی بات ہے وہ عمران خان کا اعتماد کھو چکے تھے۔ خاص طور پر سانحہ ڈی چوک کے موقع پر وہ پی ٹی آئی ورکرز کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے، جس سے پی ٹی آئی ورکرز بھی انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے جلسہ میں ورکرز نے انہیں جوتے دکھائے اور انہیں تقریر نہ کرنے دی۔ علی امین گنڈا پور کے اپنے قائد عمران خان کا اعتماد کھونے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی وہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایات کو
درخور اِعْتِنا نہیں سمجھتے تھے اور من مانی ان کا شیوہ تھا۔ علی امین گنڈا پور استعفیٰ نہ بھی دیتے، ان کے خلاف عدم اعتماد لائی جا سکتی تھی، جو انہوں کے لئے مزید سبکی کا باعث بن سکتی تھی۔ اس ناچیز کے خیال میں علی امین گنڈا پور کے دور میں صوبے میں جو مبینہ طور پر کرپشن ہوئی ہے۔ علی امین اس ضمن میں مقدمات سے محفوظ رہیں گے۔ جس کی وجہ وہ عمران خان کے ساتھ بھی رہے اور طاقتور حلقوں کا اعتماد بھی بحال رکھا۔ وزارت اعلیٰ چھوڑنے سے علی امین گنڈا پور کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ وہ بہت سے جھمیلوں سے محفوظ رہیں گے۔ تازہ ترین صورتحال میں عمران خان کے نامزد کردہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار سہیل آفریدی کو نیا منصب سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

جواب دیں

Back to top button