Column

غزہ جنگ بندی معاہدہ

غزہ جنگ بندی معاہدہ
غزہ میں جاری طویل اور تباہ کن جنگ کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کو تاریخی اور بے مثال قرار دیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیلی افواج کے انخلا جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ اگرچہ معاہدے کی تمام تفصیلات ابھی منظر عام پر نہیں آئیں، لیکن ابتدائی اعلانات اور بیانات سے یہ واضح ہے کہ فریقین نے کسی نہ کسی حد تک ایک مستقل امن کی جانب قدم اٹھایا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ معاہدہ واقعی ایک پائیدار امن کی طرف لے جائے گا یا ایک اور عارضی وقفہ ثابت ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول، اس معاہدے کا طے پانا نہ صرف اسرائیل اور فلسطین بلکہ پوری مسلم دنیا، مشرق وسطیٰ اور امریکا کے لیے عظیم دن ہے۔ معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج متفقہ لائن تک پیچھے ہٹیں گی، تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا اور انسانی امداد کی فراہمی روزانہ 600ٹرکوں کے ذریعے کی جائے گی۔ حماس کی جانب سے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی گئی ہے اور اس نے زور دیا ہے کہ تمام فریقین اسرائیل کو معاہدے کی مکمل پاسداری پر مجبور کریں، تاکہ تاخیر یا وعدہ خلافی نہ ہو۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئی ہو، لیکن اس بار معاہدے کی نوعیت کچھ مختلف ہے۔ عالمی سطح پر طاقتور ممالک جیسے امریکا، قطر، مصر، ترکی اور اقوام متحدہ کے کردار کو نمایاں طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ مصری صدر عبدالفتح السیسی کے بقول دنیا ایک تاریخی لمحے کی گواہ ہے، جہاں امن کی فتح ہوئی ہے۔ معاہدے کے تحت حماس 20زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی جبکہ اسرائیل 250عمر قید یافتہ قیدیوں اور 1700 دیگر فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ ان میں وہ رہنما بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے جیلوں میں قید ہیں۔ اس اقدام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکومت نے واضح کیا ہے کہ حماس کے رہنما محمد یحییٰ السنوار اور ان کے بھائی کی لاشوں کی واپسی معاہدے کا حصہ نہیں ہوگی۔ گزشتہ روز امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں کمی نہ آئی۔ معاہدے کے اعلان کے بعد بھی غزہ میں فضائی حملے جاری رہے، جن میں مزید فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، تاہم اگلے روز اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدہ نافذالعمل ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کے 11قیدی رہا کیے جائیں گے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے اپنے فوجیوں کو غزہ معاہدے کے تحت طے شدہ لائن سے پیچھے ہٹانا شروع کردیا ہے جبکہ غزہ کے لوگوں نے اپنے علاقوں کی جانب واپس جانے کا آغاز کردیا ہے۔ قطر، مصر اور ترکی نے اس معاہدے کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ممالک کی سفارتی کوششوں کو سراہا جارہا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ مستقل حل کی امید پیدا کرتا اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ فلسطینی ریاست کی بنیاد 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر ہونی چاہیے، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور سعودی عرب کی قیادت نے بھی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ صدر اردوان نے اعلان کیا کہ ان کا ملک نہ صرف معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کرے گا بلکہ غزہ کی تعمیر نو میں بھی بھرپور کردار ادا کرے گا۔ غزہ اور اسرائیل دونوں جانب معاہدے کی خبر پر جشن منایا گیا۔ تل ابیب کے ’’ہوسٹیجز اسکوائر‘‘ میں لوگوں نے رات بھر خوشی منائی، یرغمالیوں کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی ممکنہ واپسی پر مسرت سے اشک بار دکھائی دئیے۔ دوسری طرف خان یونس، رفح اور غزہ شہر میں فلسطینیوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا، لیکن ان خوشیوں کے درمیان ایک مشترک احساس بھی نمایاں تھا یہ کہ آیا یہ امن واقعی مستقل ہوگا یا نہیں۔ اس معاہدے کا سب سے اہم پہلو اس پر عملدرآمد ہے۔ جیسا کہ حماس رہنما اسامہ حمدان نے کہا کہ قیدیوں کا تبادلہ صرف اسی وقت ہوگا جب جنگ کے مکمل خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امدادی سامان کی تقسیم بین الاقوامی اداروں کے تحت ہو گی تاکہ شفافیت اور غیر جانب داری قائم رہے۔ ثالث ممالک نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، لیکن اسرائیل کا ماضی اس حوالے سے مایوس کن رہا ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو اس معاہدے کی نگرانی کے لیے ایک موثر اور غیر جانبدار نظام بنانا ہوگا تاکہ فریقین کسی بھی ممکنہ انحراف سے باز رہیں۔ اس معاہدے کو اگرچہ ’’ امن کی فتح‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ابھی صرف پہلا قدم ہے۔ جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، امداد کی فراہمی اور افواج کا انخلا یہ سب اہم عناصر ہیں، لیکن فلسطینی عوام کی آزادی، خودمختاری اور ریاستی حیثیت کا مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔ اسرائیل کی دیرینہ پالیسی، فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ اور دو ریاستی حل سے انکار جیسے رویے اس بات کی ضمانت نہیں دیتے کہ یہ امن مستقل ہوگا۔ اگر عالمی برادری اس موقع کو سنجیدگی سے لے اور دو ریاستی حل کی طرف عملی اقدامات کرے تو شاید یہ معاہدہ ایک نئے دور کا آغاز بن سکے، لیکن اگر یہ معاہدہ صرف وقتی ریلیف ثابت ہوا، تو خدشہ ہے کہ یہ ایک اور ناکام کوششوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا، لہٰذا اب ذمے داری عالمی طاقتوں، خصوصاً امریکا، اقوام متحدہ اور مسلم دنیا پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاہدے کو کامیاب بنانے کیلئے حقیقی نگرانی، سیاسی دبائو اور سفارتی کوششیں جاری رکھیں، تاکہ غزہ کے مسلمان پُرامن اور باعزت زندگی گزار سکیں۔
مردہ مرغیوں کے گوشت کا گھنائونا دھندا
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی موٹروے M5پر کامیاب کارروائی کے دوران 4ہزار کلو مضر صحت مردہ مرغیوں کا گوشت برآمد ہونا نہ صرف ایک مجرمانہ فعل ہے، بلکہ ہمارے معاشرتی، قانونی اور اخلاقی نظام پر سنگین سوالیہ نشان بھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ گوشت وہاڑی سے کراچی لے جایا جارہا تھا، جہاں اسے ہوٹلوں اور دیگر تجارتی مراکز کو سپلائی کیا جانا تھا۔ خوش آئند بات کہ اتھارٹی نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس خطرناک سازش کو بے نقاب کیا، ملزمان کو گرفتار کیا اور موقع پر ہی یہ زہریلا گوشت تلف کر دیا۔ تاہم یہ واقعہ محض ایک خبر نہیں، بلکہ ایک الارمنگ سگنل ہے، جو ہمارے پورے فوڈ سپلائی سسٹم میں موجود خرابیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص نگرانی اور عوامی صحت سے جڑے خطرات کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ مردہ یا بیمار مرغیوں کا گوشت مارکیٹ میں فروخت کے لیے جارہا ہو۔ ماضی میں بھی ایسی متعدد رپورٹس سامنے آچکی ہیں، لیکن چند گرفتاریوں اور جرمانوں کے سوا کبھی کسی بڑے مجرم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ سب سے خطرناک پہلو یہ کہ یہ گوشت کراچی جیسے بڑے شہر میں ہوٹلوں کے ذریعے فروخت ہونا تھا۔ وہ ہوٹل جہاں روزانہ ہزاروں افراد کھانا کھاتے ہیں، جن میں بچے، بزرگ اور مریض بھی شامل ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات کہ اگر یہ گوشت بروقت نہ پکڑا جاتا تو یہ کتنے افراد کی صحت کو نقصان پہنچا سکتا تھا، حتیٰ کہ اموات کا سبب بھی بن سکتا تھا۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ فوڈ سیفٹی کے نظام کو مزید سخت، فعال اور شفاف بنایا جائے۔ مضر صحت گوشت یا اشیاء خورونوش کی تیاری، ترسیل اور فروخت میں ملوث عناصر کو سخت ترین سزائیں دی جائیں اور ان پر میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر بے نقاب کیا جائے، تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ اس کے ساتھ ہوٹلوں اور فوڈ پوائنٹس کی باقاعدہ مانیٹرنگ، لائسنسنگ اور لیبارٹری ٹیسٹنگ کو بھی لازم قرار دیا جائے۔ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب تک صارف خود سوال نہیں کرے گا کہ اس کے سامنے رکھی گئی پلیٹ میں موجود گوشت کس معیار کا ہے، تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی موجودہ کارروائی قابل تحسین ہے، مگر اس واقعے کو مثال بناکر ایک ایسی جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو مستقبل میں کسی بھی شہری کی صحت سے کھیلنے کی اجازت نہ دے۔ پورے ملک میں مُردہ مرغیوں کے گوشت کے گھنائونے دھندے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کریک ڈائون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button