پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ ہفتم)

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ ہفتم)
تحریر: شیر افضل ملک
پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)کے ریوائول (Revival) 2005ء کی داستان دراصل لائبریری تحریک کی نئی روح اور ادارہ جاتی بیداری کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ جس طرح سابقہ آرٹیکل میں بیان کیا جا چکا ہے کہ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے قوانین کے مطابق ہر الیکشن کے دوسال بعد ایسوسی ایشن کا ہیڈکوارٹر شفٹ ہو جاتا ہے تو اسی قانون کے تحت جب 1992ء میں الیکشن ہوئے اور اس دفعہ ہیڈکوارٹر شفٹ ہونے کی باری پشاور صوبہ سرحد موجودہ خیر پختونخوا کی تھی اور اس طرح ہیڈکوارٹر شفٹ ہو گیا اور اس وقت کے ہیڈکوارٹر کے پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے صدر سائیں محمد ملک تھے جنہوں نے ایسوسی ایشن کے ساتھ بے انتہا محبت کا شاندار ریکارڈ قائم کیا اور دو سال کی بجائے تقریباً 13سال پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی صدارت کر انجوائے کیا اور الیکشن نہ کروائے جس کی وجہ سے پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا الیکشن پروسس مکمل طور پر جامد ہو گیا ۔ اس بے چینی کی فضاء میں پاکستان کے تمام لائبریری پروفیشنلز نے ہر سطح پر گفتگو و شنید شروع کر دی اور پشاور میں سائیں محمد ملک سے کئی سینئر لائبریری پروفیشنلز نے رابطے کئے اور الیکشن کروانے کا کہا لیکن سب بے سود تھا ۔ آخر کار پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے ڈییڈ ہونے کی وجہ سے کچھ لائبریری گروپس وجود میں آئے جنہوں ایک دفعہ پھر لائبریری کمیونٹی کو ایک ڈسکشن فورم پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئی ان گروپس میں Paklagپاکستان لائبریری آٹو میشن گروپ جس کے Moderatorمحمد اجمل خان تھے انہوں LIMSسافٹ ویئر بنایا جوکہ لائبریرین کے لیے مکمل فری تھا اور اس سافٹ وئیر کی لائبریری پروفیشنلز کو ٹریننگ کورسز کروائے اور ان کے اداروں میں فری انسٹال کرکے دیا جس کی وجہ سے اس دور کا لائبریری آٹومیشن کا ایک بہترین سافٹ ویئر سمجھا جاتا ہے جو آج بھی کافی اداروں میں لائیبریری پروفیشنل استعمال کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ اس سافٹ وئیر کی وجہ سے کئی میل فی میل لائبریرین کو اچھے اداروں میں بطور لائبریرین ملازمت کے مواقع میسر آئے ۔ اس کے بعد دوسرا میلنگ گروپ PLWOپاکستان لائبریرین ویلفیئر آرگنائزیشن گروپ معرضِ وجود میں آیا جو بعد میں کئی صوبوں میں چیپٹر بنائے تاہم سوائے پنجاب کے باقی صوبوں میں کامیاب نہ ہوا کیونکہ یہ ایک ٹرسٹ کے تحت رجسٹرڈ تھا اور اس آرگنائزیشن نے شیر افضل ملک پنجاب کے صدر جب تھے تو ایک باڈی تشکیل دی اور شیر افضل ملک پنجاب برانچ کے بطور صدر PLWOکے پلیٹ فارم سے متعدد ٹریننگ کورسز کروائیں اور منہاج یونیورسٹی کے ساتھ شراکت داری سے لائبریرین کی کانفرنس بھی کروائی شیر افضل ملک نے PLWOکا نیوز لیٹر شروع کیا اور اس کا ایڈیٹوریل بورڈ بنایا اور اس نیوز لیٹر کی چیف ایڈیٹر فوزیہ احمد لائبریرین جم خانہ کلب تھیں جنہوں نے انتہائی اعلیٰ انداز میں اس نیوز لیٹر کو جاری رکھا لیکن جب شیر افضل ملک کے بعد PLWOپنجاب کا صدر تبدیل ہوا تویہ نیوز لیٹر بھی مزید آگے نہ جاری رہ سکا۔ PLWOچونکہ یہ عوامی ایسوسی ایشن اور باقاعدہ ممبر شپ سازی نہ ہونے کی وجہ سے اپنا تسلسل برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی اور اس آرگنائزیشن کے مرکزی پاکستان کے صدر و چیئرمین اس وقت ڈاکٹر شاہد سرویا تھے بعد میں آصف منیر اور رانا جاوید ضیاء صدر رہے ۔ اب اس آرگنائزیشن کا وجود چاروں صوبوں میں کہیں بھی موجود نہیں ہے ۔ اس میلنگ گروپ میں LIBCOP جس کے Moderatorپروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق صاحب ہیں۔ اسی طرح PLCایک ایسوسی ایشن کے طور نمودار ہوئی جوکہ پاکستان لائبریری کلب کے نام سے پہچان بنائی اور اس کے صدر و چیئرمین ارشد محمود عباسی کراچی سے کام کر رہے ہیں یہ ایسوسی ایشن بھی باقاعدہ گورنمنٹ آف پاکستان سے رجسٹرڈ نہیں ہے البتہ اس کاوجو کراچی اور اسلام آباد میں موجود ہے اور یہ اسلام آباد ہر سال سالانہ لائبریری کنونشن کے نام سے تقریبات اور ٹریننگ ورکشاپ بک فیر کرتے رہتے ہیں اور کراچی میں ان کی کانفرنسز بھی ہوتی رہتی ہیں ۔ پاکستان لائبریری کلب کی بھی باقاعدہ ممبر شپ نہیں ہوتی اور نہ ہی باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں جس سے براہ راست لائبریری پروفیشنلز اس ایسوسی ایشن کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کر سکیں ،بلکہ مرکزی صدر اسلام آباد کی برانچ کے صدر کو مقرر کرتے ہیں ۔ لہذا پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی Revivalمیں آن گروپس کا بہت بڑا کردار رہا اور یہ گروپس ہر پروفیشنل کی آواز بنے اور پشاور کے سائیں محمد ملک کو الیکشن کروانے پر مجبور کر دیا ۔ یہاں اگر چودھری محمد حنیف ( مرحوم) سابقہ چیف لائبریرین پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہوگا ۔ چودھری محمد حنیف مرحوم نے سائیں محمد ملک سے متعدد بار رابطے کئے اور پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے الیکشن پر آخر کار قائل کیا اور چودھری محمد نذیر ڈی جی نیشنل لائبریری آف پاکستان اسلام آباد سے مسلسل رابطے میں رہے اور الیکشن کرانے میں آخر کار کامیاب ہوئے ، پنجاب کے اندر چودھری محمد حنیف مرحوم کی پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم پر خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا مزید آنے والے آرٹیکل میں اس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے گا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی Revivalمیں چودھری محمد حنیف مرحوم کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ چودھری محمد حنیف مرحوم نے شیر افضل ملک کو اپنے آفس پاس بیٹھا کر پورے پنجاب کے لائبریری پروفیشنلز سے رابطے کئے اور سب سے زیادہ ممبر شپ کی اور جتنی بھی رقم ممبر شپ کی مدد میں وصول ہوئی وہ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی ہونیوالی اسلام آباد کانفرنس کے لیے بھجوا دی اور اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں پنجاب یونیورسٹی کے لائبریری پروفیشنلز کے ایک بڑے وفد کی قیادت کرتے ہوئے بھرپور شرکت کی۔ چونکہ چودھری محمد حنیف مرحوم سوشل میڈیا اور ای میلنگ گروپس بہت کم استعمال کرتے تھے اس لیے ان کی پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے الیکشن میں کاوشیں زیادہ منظر عام پر نظر نہیں آئیں ان گروپس پر پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی Revivalکے پیغامات نے لائبریری کمیونٹی میں شعور بیدار کیا۔ جن لائبریری پروفیشنلز نے ان گروپس پر پیغامات کے ذریعے Revivalمیں کردار ادا کیا ان میں عابد علی گل سابقہ چیف لائبریرین قائد اعظم لائبریری لاہور ، محترمہ بشریٰ الماس جسوال ، ڈاکٹر شاہد سرویا ، آصف منیر ، رانا جاوید ضیاء جوئیہ ڈاکٹر محمد طارق نجمی، محمد اجمل خان سر فہرست ہیں ۔ اور پس پردہ بہت سارے لائبریری پروفیشنلز پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی Revivalکے لیے کام کرتے رہے۔ پنجاب یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ کا کردار بہت اہم رہا اس وقت چیئرمین ڈپارٹمنٹ آف لائبریری انفارمیشن سائنس پروفیسر ڈاکٹر کنول تھیں جنہوں نے اس پر ڈیپارٹمنٹ کے اندر کئی ایک مذاکرے منعقد کروانے اور ان ڈیپارٹمنٹ کی مجموعی اساتذہ کی ٹیم نے پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے الیکشن کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان سب معززین لائبریری پروفیشنلز نے الیکشن کے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کامیابی حاصل کی اور آخرکار سائیں محمد ملک الیکشن کروانے پر مجبور ہوئے۔ اس احیاء کی کامیابی میں جہاں بہت سے عوامل کارفرما تھے، وہیں نیشنل لائبریری آف پاکستان کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل جناب چودھری محمد نذیر کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا Reival (2005ئ) ایک عہدِ نو کی ابتداء تھی، پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)جو گزشتہ چند برسوں سے داخلی کمزوریوں، انتظامی جمود اور تنظیمی غیر فعالیت کا شکار تھی، 2005ء میں ایک نئے عزم، نئی توانائی اور فعال نظم و نسق کے ساتھ دوبارہ منظرِ عام پر آئی۔ اس احیائے نو کا مرکز نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد بنی جہاں ایک نہایت اہم قومی کانفرنس منعقد ہوئی جس نے تنظیم کو نئی زندگی عطا کی۔ اور ایک دفعہ پھر پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا ہیڈکوارٹر الیکشن کا پروسس مکمل ہونے کے بعد صوبہ بلوچستان میں دو سال کے لیے منتقل ہو گیا۔ تنظیمی جمود اور ضرورتِ احیائ1990کی دہائی کے اختتام پر PLA کا تنظیمی ڈھانچہ غیر موثر ہوتا چلا گیا۔ آئینی تقاضے جیسے باقاعدہ انتخابات، سالانہ کانفرنسیں اور قومی سرگرمیوں کا انعقاد تعطل کا شکار رہے۔ اس کی بڑی وجہ مستقل صدر مقام کا نہ ہونا، تنظیمی ریکارڈ کا بکھرائو، اور قیادت کا غیر فعال ہو جانا تھا۔ اس سست روی نے لائبریری پروفیشن میں ایک خلا پیدا کیا، جسے پُر کرنا وقت کی فوری ضرورت بن چکا تھا۔ نیشنل لائبریری آف پاکستان میں کانفرنس: ایک تاریخ ساز اجلاس، اس تناظر میں 2005ء میں نیشنل لائبریری آف پاکستان میں منعقدہ قومی کانفرنس کو ایک فیصلہ کن لمحہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس نے صرف پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے نئے انتخابات کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ ایک مضبوط، فعال اور متحرک تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد بھی رکھی۔ یہ اجلاس پیشہ ورانہ لائبریرینز، لائبریری اساتذہ، ماہرینِ تعلیم اور لائبریری سائنس کے طلبہ کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہوا۔ چودھری محمد نذیر کا قائدانہ کردار، اس احیائے تحریک کے پسِ پردہ جس شخصیت کی قیادت، وژن اور خلوص نے کلیدی کردار ادا کیا، وہ چودھری محمد نذیر تھے، جو اُس وقت نیشنل لائبریری آف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ چودھری محمد نذیر نہ صرف ایک منتظم اعلیٰ تھے بلکہ ایک پیشہ ور مدبر، تنظیم ساز اور بصیرت افروز شخصیت بھی۔ انہوں نے اپنی دانش مندانہ حکمت عملی سے لائبریری کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم پر دوبارہ سے اکٹھا کیا۔ کانفرنس کے تمام انتظامات، پیشہ ورانہ دعوت نامے، اور تنظیمی سطح پر قانونی و آئینی رہنمائی انہی کی زیرِ نگرانی انجام پائی۔ اور کانفرنس کے اخراجات کو بھی برداشت کیا، ان کی رہنمائی میں نئی عبوری قیادت وجودی میں آئی، جس نےPLAکو دوبارہ فعال بنانے کے لیے مربوط اقدامات کیے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ قومی سطح پر تمام لائبریری ادارے، برانچز اور لائبریرینز اس تحریک میں شامل ہوں تاکہ یہ محض ایک رسمی اجلاس نہ ہو بلکہ ایک زندہ و فعال تنظیم کی بنیاد بنے۔ قومی سطح پر PLAکو نئے سرے سے منظم کرنے کی غرض سے آئینی ترامیم کی تجاویز مرتب کی گئیں۔ مختلف شہروں سے آئے ہوئے مندوبین نے اتفاقِ رائے سے چودھری محمد نذیر کی قیادت میں ایسوسی ایشن کو فعال کرنیکا عزم ظاہر کیا۔ اس کانفرنس کے بعد لائبریری کمیونٹی میں اعتماد بحال ہوا، اور نئی نسل کے لائبریرینز کوایک قابلِ تقلید ادارہ ملا۔2005ء کی یہ کانفرنس اور چودھری محمد نذیر کی خدمات صرف ایک شخصی یا رسمی کامیابی نہ تھیں، بلکہ یہ ایک علمی، فکری، اور ادارہ جاتی بیداری کی نئی صبح تھی۔ اس نے پاکستان میں لائبریری تحریک کو ایک بار پھر منظم کیا، اور پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کو وہ مقام دوبارہ دلایا جس کے وہ بانیان اور پیشرو مستحق تھے۔ چودھری محمد نذیر کے اس تاریخی کردار کو نہ صرف پیشہ ورانہ حلقے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ یہ کردار آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک تحریکی استعارہ بن چکا ہے کہ جب اخلاص، بصیرت اور قیادت یکجا ہوں تو ماند پڑی ہوئی شمعیں بھی پھر سے روشن ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے نیشنل لائبریری آف پاکستان میں باقاعدہ PLAکے لیے آفس کی جگہ بطورِ آفس مقرر کیا اور پاکستان کے ہر کونے سے لائبریری پروفیشنلز کو سہولت دی اور PLAہیڈکوارٹر کے لیے نیشنل لائبریری آف پاکستان کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھول دئیے۔ ( جاری ہے)





