Aqeel Anjam AwanColumn

وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا فوڈ سیفٹی ویژن۔۔۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا فوڈ سیفٹی ویژن۔۔۔
عقیل انجم اعوان
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کے ویژن میں ایک مرکزی نکتہ نمایاں تھا۔۔۔ صحت مند پنجاب۔ ایک ایسا صوبہ جہاں شہریوں کو خالص خوراک دستیاب ہو جہاں بچے دودھ اور دہی میں ملاوٹ سے محفوظ رہیں جہاں بازاروں میں فروخت ہونے والی اشیاء زہر نہیں شفا بنیں اور جہاں خوراک کی حفاظت ریاست کی اولین ترجیح ہو۔ اسی ویژن کی عملی تعبیر کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا ادارہ متحرک کیا گیا اور اس ادارے کی قیادت جب ڈی جی فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید جیسے متحرک، دیانتدار اور غیر روایتی افسر کے سپرد ہوئی تو گویا ایک نیا باب رقم ہوا۔ عاصم جاوید کی تعیناتی کے بعد فوڈ اتھارٹی نے وہ کام شروع کیا جو برسوں سے صرف کاغذوں میں ہو رہا تھا۔ ملاوٹ مافیا جو ایک منظم نیٹ ورک کی طرح پورے صوبے میں پھیل چکا تھا اسے پہلی بار ریاستی قوت کا حقیقی سامنا کرنا پڑا۔ یکم جنوری سے 4 اکتوبر تک کے اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ فوڈ اتھارٹی نے صرف بیانات نہیں دئیے بلکہ عملی اقدامات سے اپنے وجود کو ثابت کیا۔ اس مدت میں صوبے بھر کے لاکھوں فوڈ پوائنٹس میں سے ایک بڑی تعداد کو چیک کیا گیا۔ ہزاروں ایسے مراکز تھے جہاں صفائی کے معیار پر سوال اٹھایا گیا، سینکڑوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور درجنوں کو فوراً سیل کر دیا گیا۔ بعض کاروبار ایسے بھی تھے جو برسوں سے انسانی صحت کے ساتھ کھلواڑ کر رہے تھے مگر پہلی بار ان کے خلاف ریاست نے آہنی ہاتھ دکھایا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری سے 4اکتوبر 2025ء تک صوبے بھر میں مجموعی طور پر9لاکھ 93ہزار ایک سو 11سے زائد فوڈ پوائنٹس کا معائنہ کیا گیا۔ ان میں سے قریباً 3لاکھ 73ہزار چار سو 84کو مختلف نوعیت کے نوٹس جاری کیے گئے1ہزار سات سو 73کے قریب فوڈ پوائنٹس کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور 2700سے زائد مراکز کو موقع پر ہی سیل کر دیا گیا۔ جرمانوں کی مد میں قریباً1 ارب26کروڑ کی رقم جمع کی گئی جو نہ صرف قانون کی بالادستی کا ثبوت ہے بلکہ عوامی صحت کے تحفظ کے لیے ادارے کی سنجیدگی کا مظہر بھی ہے۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے ڈی جی فوڈ اور فوڈ انسپکٹرز کی دن رات کی محنت، چھاپہ مار ٹیموں کی کارروائیاں اور انتظامیہ کی وہ غیر معمولی ہمت جس نے طاقتور مافیا کے سامنے پسپائی اختیار نہیں کی۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو پنجاب میں ملاوٹ ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ دودھ میں فارملین، مٹھائیوں میں مصنوعی رنگ، مصالحہ جات میں اینٹوں کا برادہ، گھی میں کیمیکل اور حتیٰ کہ بچوں کی خوراک میں غیر معیاری اجزاء شامل کر کے بچوں کی صحت سے کھیلنا معمول بن چکا تھا۔ کئی تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ان مافیائوں کے پیچھے بڑے سرمایہ دار، سیاسی شخصیات اور بعض اثر و رسوخ رکھنے والے عناصر موجود تھے جنہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔ مگر عاصم جاوید کی تعیناتی کے بعد اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے ایک واضح پیغام دیا کہ اب خوراک میں ملاوٹ جرم ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی پر حملہ سمجھا جائے گا۔ فوڈ اتھارٹی نے جدید لیبارٹری نظام، ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور موبائل ٹیسٹنگ یونٹس کو فعال کیا جس سے موقع پر ہی خوراک کے نمونوں کی جانچ ممکن ہوئی۔ اس عمل نے عوام کے اندر ایک نئی آگاہی بھی پیدا کی کہ خالص خوراک ان کا حق ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فوڈ اتھارٹی نے صرف چھاپوں یا جرمانوں تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک تعمیری حکمت عملی کے تحت عوامی شعور بیدار کرنے پر بھی زور دیا۔ تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور عام عوام میں مہمات چلائی گئیں تاکہ لوگ خود بھی ملاوٹ کے خلاف مزاحمت کا حصہ بنیں۔ کیونکہ اگر صارف باشعور ہو جائے تو ملاوٹ کرنے والا خود بخود کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوٹل انڈسٹری، بیکریوں، ڈیری فارمز اور فوڈ سپلائی چین کے لیے ایک جامع تربیتی نظام بھی متعارف کرایا گیا تاکہ وہ عالمی معیار کے مطابق خوراک کی تیاری اور ذخیرہ کرنے کے طریقے اپنائیں۔ تاہم فوڈ اتھارٹی کے اس موثر کردار کے باوجود چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے۔ صوبے کے دور دراز علاقوں میں آج بھی ایسے مقامات موجود ہیں جہاں ملاوٹ زدہ خوراک کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔ بعض دیہی مارکیٹوں میں جانوروں کی خوراک اور انسانی خوراک کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ ایسے حالات میں فوڈ اتھارٹی کی کارروائیاں محدود وسائل کے باوجود غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک طرف ادارہ مافیا سے لڑ رہا ہے دوسری طرف اسے تنقید کا بھی سامنا ہے کہ بعض کارروائیوں میں چھوٹے دکاندار یا غیر منظم کاروباری افراد مشکلات میں آ جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر نظام کو صاف کرنا ہے تو سخت فیصلے ناگزیر ہیں۔ مریم نواز کے ویژن کا دوسرا پہلو’’ پریوینشن‘‘ یعنی پیش بندی ہے۔ ان کی ہدایت پر فوڈ اتھارٹی نے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ملاوٹ شروع ہونے سے پہلے ہی روکی جا سکے۔ مثال کے طور پر، فوڈ چین لائسنسنگ کی نئے ضوابط متعارف کرائے گئے ہیں جن کے تحت ہر کاروباری مرکز کو ایک مخصوص معیار پر پورا اترنا لازمی ہے۔ اگر وہ معیار برقرار نہیں رکھتا تو اس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جاتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ماضی میں صرف خانہ پُری تک محدود تھا مگر اب اسے عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ جرمانوں سے جمع ہونے والی رقم بھی صرف خزانے میں جمع نہیں ہوتی بلکہ اسے فوڈ سیفٹی نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس رقم سے موبائل لیبارٹریاں خریدی جا رہی ہیں انسپکٹرز کو جدید آلات فراہم کیے جا رہے ہیں اور عوامی آگاہی کے پروگراموں کو وسعت دی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ ایک خود کفیل نظام بنتا جا رہا ہے جو حکومت کے لیے بوجھ بننے کے بجائے عوام کے لیے سہولت فراہم کر رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اقدامات نے ایک اور اہم پیغام بھی دیا ہے کہ گورننس اگر نیت اور نظم سے ہو تو نتائج ممکن ہیں۔ پاکستان میں عموماً ادارے سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں مگر فوڈ اتھارٹی نے یہ تاثر بدلا ہے۔ اب عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایک ادارہ ان کے مفاد کے لیے عملی طور پر موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر عام شہریوں کی شکایات کے فوری جواب دئیے جا رہے ہیں، ہیلپ لائن پر رپورٹ ہونے والے کیسز پر فوری کارروائیاں ہو رہی ہیں اور اب عوام خود ملاوٹ کے خلاف ادارے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے جو ماضی میں شاید کبھی دیکھی نہیں گئی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ملاوٹ کا خاتمہ صرف سرکاری کارروائیوں سے ممکن نہیں۔ یہ ایک سماجی بیماری ہے جسے ختم کرنے کے لیے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو خالص خوراک کی پہچان سکھائیں، تعلیمی ادارے طلبہ میں فوڈ سیفٹی کا شعور پیدا کریں ، میڈیا عوامی آگاہی میں کردار ادا کرے اور سب سے بڑھ کر مذہبی و سماجی رہنما اس معاملے کو اخلاقی فریضے کے طور پر اجاگر کریں۔ کیونکہ جب تک معاشرہ خود ملاوٹ کو گناہ سمجھ کر رد نہیں کرے گا ریاست کی کوششیں جزوی رہیں گی۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی حالیہ کارکردگی یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ عاصم جاوید اور ان کی ٹیم نے نہ صرف مافیا کے دانت کھٹے کیے بلکہ عوام میں یہ اعتماد بھی بحال کیا کہ حکومت ان کی صحت کے تحفظ میں سنجیدہ ہے۔ اگر یہی تسلسل برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب واقعی صحت مند صوبہ بنے گا۔ مریم نواز کا ویژن محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک عملی تحریک بنتا جا رہا ہے۔ ایسی تحریک جو نہ صرف خالص خوراک پر زور دیتی ہے بلکہ انسانی وقار، انصاف اور شہری حقوق کی بنیاد بھی مضبوط کرتی ہے۔ اگر پنجاب نے صحت مند معاشرے کی سمت میں قدم بڑھا دیا ہے تو یہ عمل دوسرے صوبوں کے لیے بھی ایک مثال ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ دیگر صوبے بھی فوڈ سیفٹی کو اسی سنجیدگی سے لیں جس طرح پنجاب لے رہا ہے۔ کیونکہ صحت مند قوم ہی ترقی یافتہ قوم بن سکتی ہے اور خالص خوراک ہی مضبوط نسلوں کی بنیاد ہے۔

جواب دیں

Back to top button