ColumnRoshan Lal

پنجاب کے سیلاب کی انکوائری کیوں ضروری ہے؟

پنجاب کے سیلاب کی انکوائری کیوں ضروری ہے؟
روشن لعل
دریائوں کا بہائو معمول پر آنے کی بعد پنجاب باسیوں کے وہ نقصانات اب بھی میڈیا کی توجہ کے طالب ہیں جن کی وجہ سیلاب کا پانی بنا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز سیلاب زدگان کے نقصانات اور مسائل ہونے چاہئیں اس وقت اکثر میڈیا پرسنز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لوگوں کے درمیان جاری نوک جھونک پر اظہار خیال کرتی نظر آرہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ حالیہ نوک جھونک بلاول بھٹو زرداری کی سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پیش کردہ تجویز سے مریم نواز کے اختلاف کے بعد شروع ہوئی مگر بعد ازاں یہ ہوا کہ پنجاب کے سیلاب زدہ لوگوں کی بحالی کا موضوع کہیں نیچے دب گیا اور دونوں جماعتوں کے ترجمانوں کی ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نمایاں ہو گئی۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے نام پر پی پی پی اور ن لیگ کے لوگوں کے درمیان شروع ہونی والی نوک جھونک کے لیے اب یہ کہا جارہا ہے کہ شہباز حکومت کے نمائندہ وفد کی صدر آصف علی زرداری سے نواب شاہ میں ملاقات کے بعد اس تو تو میں میں کا خاتمہ بالخیر، ہونے کو ہے۔ یہ نوک جھونک اس طرح کی قطعاً نہیں تھی جس کے لیے یہ کہا جا سکے کہ ’’ لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک چونچ اور ایک کی دم‘‘ ۔ اس نوک جھونک کے’’ خاتمہ بالخیر‘‘ کو کچھ لوگ ’’ نورا کشتی‘‘ کا نام بھی دے رہے ہیں۔ مبینہ نورا کشتی کے خاتمہ بالخیر کے باوجود وہ سوالات اب بھی بامعنی ہیں جو سیلاب کے دوران پنجاب حکومت کی مبینہ کوتاہیوں پر اٹھائے گئے ۔ ان سوالوں کا نہ تو یہ جواب ہے کہ کوئی مریم نواز صاحبہ یا عظمیٰ بخاری صاحبہ آئیں او ر کسی انکوائری کا سامنا کیے بغیر خود ہی مدعی ، وکیل اور منصف بن کر یہ فیصلہ صادر فرما دیں کہ سیلاب زدگان کے لیے جو انہوں نے کیا وہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا اور نہ ہی یہ جواب تسلی بخش ہے کہ سیلاب متاثرین کے مصائب کو اب اس وجہ سے نظر انداز کر دیا جائے کیونکہ پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان سیز فائر ہو چکا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کے لوگوں کو حقیقت میں سیلاب متاثرین کا درد ہے تو انہیں پنجاب میں فلڈ انکوائری کے مطالبے سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔
کسی بھی سیلاب کے دوران سیلابی پانی کے آبادیوں میں داخل ہونے کے بعد اگر مفاد عامہ کے انفراسٹرکچر اور لوگوں کی ذاتی املاک کو نقصان پہنچے تو یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ کہیں سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے والے ادارے اپنا طے شدہ کام تسلی بخش طور پر کرنے میں ناکام تو نہیں رہے۔ جامع انکوائری کے بغیر سیلاب کے نقصانات کی درست وجوہات جاننا ممکن نہیں ہے۔ سیلاب کے نقصانات کی انکوائری کے دوران سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس دریا کا سیلابی پانی نقصانات کا باعث بنا اس دریا میں آنے والے سیلابوں کا تاریخی ڈیٹا کیا ظاہر کرتا ہے اور سیلاب سے تحفظ کی غرض سے کیے جانے والے انتظامات کے دوران کہیں تاریخی ڈیٹا نظر انداز تو نہیں کر دیا گیا۔ اگر دریائے ستلج کی بات کی جائے تو تاریخی ڈیٹا کے مطابق سال 1955ء میں آنے والے سیلاب کے دوران اس دریا میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر آٹھ لاکھ سینتیس ہزار کیوسک، ہیڈ سلیمانکی ، جس میں سے پانی گزرنے کی گنجائش تین لاکھ پچیس ہزار کیوسک ہے وہاں پر پانچ لاکھ اٹھانوے ہزار کیوسک اور ہیڈ اسلام جہاں سے پانی گزرنے کی گنجائش تین لاکھ کیوسک ہے وہاں پر چار لاکھ بانوے ہزار کیوسک پانی آیا۔ واضح رہے کہ اگر تو دریا میں سیلابی پانی کا بہائو کسی پل ، ہیڈورکس یا بیراج کی گنجائش سے کم رہے تو یہ پانی صرف حفاظتی بند کے اندر کے علاقوں کو متاثر کرتا ہے اور بند سے باہر موجود آبادیوں کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر دریا کی زیریں سمت میں بہہ جاتا ہے ۔ اس کے برعکس، اگر سیلابی پانی کا حجم پل یا ہیڈ ورکس میں سے پانی گزرنے کی گنجائش سے زیادہ ہو تو پھر پلوں اور ہیڈ ورکس کو نقصان سے بچانے کے لیے حفاظتی بندوں میں شگاف ڈال کر فاضل پانی نسبتاً کم آباد علاقوں کی طرف بہا دیا جاتا ہے۔ حالیہ سیلاب کے دوران گنڈا سنکھ والا پر سیلابی پانی کا زیادہ سے زیادہ حجم تین لاکھ پچاسی ہزار کیوسک، ہیڈ سلیمانکی پر ایک لاکھ پچپن ہزار کیوسک اور ہیڈ اسلام پر ایک لاکھ پچیس ہزار کیوسک رہا۔ دریائے ستلج کے ملحقہ علاقوں میں سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے کے انتظامات 1955ء کے ڈیٹا کو مد نظر رکھ کر کیے جانے چاہئیں تھے مگر اس دریا کے سیلابی پانی کی زد میں آنے والی آبادیوں میں ظاہر ہونے والا نقصان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شاید متعلقہ ادارے اپنے طے شدہ فرائض کے مطابق سیلاب سے تحفظ کا کام نہیں کر سکے۔
دریائے چناب سے ملحقہ علاقوں جلال پور پیر والہ، علی پور اور سیت پور میں آنے والا سیلاب اس حوالے سے زیادہ تشویش ناک ہے کہ یہ علاقے قرض کی رقم سے پنجند ہیڈ ورکس کی توسیع کے باوجود سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ سات لاکھ کیوسک پانی کے بہائو کی گنجائش رکھنے والا پنجند ہیڈ ورکس 1932ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پنجند ہیڈ ورکس سے پانی کے بہائو کا حجم آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک تک بڑھانے کے لیے تعمیراتی کام ایشیئن ڈیویلپمنٹ بنک کے قرض سے 2018ء میں شروع ہو کر 2024ء میں ختم ہوا۔ پنجند ہیڈ ورکس سے پانی کے بہائو کی گنجائش ڈیڑھ لاکھ کیوسک سے زیادہ بڑھانے کے بعد ضروری تھا کہ اس سے ملحقہ حفاظتی پشتوں کی سیلابی پانی روکنے کی استعداد کو بھی بڑھایا جاتا ۔ جس پنجند ہیڈ ورکس سے پانی کے بہائو کی گنجائش سات لاکھ کیوسک سے بڑھا کر آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار کیوسک کر دی گئی حالیہ سیلاب کے دوران وہاں زیادہ سے زیادہ سات لاکھ تین ہزار کیوسک پانی گزرا۔ پنجند ہیڈورکس کی ترمیم شدہ اضافی گنجائش سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ کیوسک کم پانی گزرنے کے باوجود بھی وہاں یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ ہیڈ ورکس بچانے کے لیے حفاظتی بند توڑنے کے لیے مشاورت شروع کر دی گئی تھی۔ ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کے قرض سے ری ماڈل کیے گئے پنجند ہیڈ ورکس سے ملحقہ حفاظتی بند تو نہ توڑے گئے لیکن دریائے چناب کے سیلابی پانی نے بائیں کنارے پر جلال پور پیروالا کو ڈبو کر موٹر وے ایم فائیو کو بھی تباہ کر دیا اور دائیں کنارے پر یہی حال علی پور اور سیت پور کے باسیوں کا کیا۔ جلال پور پیروالہ اور علی پور وہ بدقسمت علاقے ہیں جہاں سے ہفتوں بعد بھی سیلابی پانی کا نکاس ممکن نہیں ہو سکا۔
جن علاقوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، ان کے علاوہ بھی دریائے ستلج، راوی اور چناب سے ملحقہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پانی میں گھرے ہوئے سیلاب متاثرین پہلے امداد کے منتظر رہے اور اب بحالی کے کاموں کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہاں حیرانی اس بات پر ہے کہ سیلاب کی مذکورہ تباہ کاریوں کا عکس ان میڈیا ہائوسز پر نظر نہیں آرہا جن کے لوگ سال 2010ء کے دوران بائولے ہوئے پھر تیتھے ۔ ان میڈیا ہائوسز کی بوجوہ سرد مہری کے باوجود حالیہ سیلاب کی انکوائری کا مطالبہ نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button