Columnمحمد مبشر انوار

انقلاب ۔ دہلیز پریا انقلاب کی دہلیز پر

انقلاب ۔ دہلیز پریا انقلاب کی دہلیز پر
محمد مبشر انوار
دنیا کے عمومی حالات پر نظر دوڑائیں تو یہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہر اس معاشرے میں جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں ہوتی رہی ہیں، وہاں عوام بتدریج اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج نظر آئے ہیں اور بیشتر ممالک میں عوامی احتجاج رنگ بھی لایا اور حکمران اشرافیہ کو دم دبا کر بھگنا پڑا ہے۔ گو کہ اختیارات، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے تاحال ان ممالک کے عوام کی قسمت ویسے نہیں بدلی، جیسی عوام کی خواہش یا حقیقی طور پر بدلنی چاہئے تھی، تاہم یہ ضرور ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کے باعث، عوام کو ثمرات ملنے میں تاخیر ہو گی لیکن امید واثق ہے کہ نئے حکمران، ماضی کے حکمرانوں کے عبرتناک انجام سے سبق سیکھتے ہوئے، عوام الناس کی بہتری کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔ مثلا سری لنکا کے حالات اس قدر دگر گوں تھے کہ وہاں تبدیلی کے اثرات ابھی تک اپنا بھرپور رنگ نہیں دکھا پائے، ایسی ہی صورتحال بنگلہ دیش کی تھی جہاں ایک ماہر ترین شخص کو حکمران بنایا گیا ہے جو اپنی کوششوں /کاوشوں میں مصروف ہیں، اسی طرح نیپال کی صورتحال ہے لیکن نئے حکمرانوں کی ترجیحات بہرطور واضح ہیں جو عوامی فلاح کے لئے ہی بروئے کار آ رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں، کشمیریوں نے انتہائی پرعزم جدوجہد کی اور دوسری مرتبہ بھی اشرافیہ سے اپنے مطالبات منوا لئے لیکن شنید ہے کہ اشرافیہ معمولات کو قابو کرنے کے بعد، اپنے وعدوں سے مکر گئی ہے اور حسب سابق کشمیر ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں پر دھاوا بول دیا گیا ہے، کل تک کشمیری خوش تھے کہ ان کے مطالبات تسلیم ہو گئے ہیں اور اب کم از کم کشمیر میں مقتدرہ کی سیاسی مداخلت کے راستے بند ہو جائیں گے، دس اضلاع میں وزیروں کی فوج ظفر موج کم ہو جائیگی، صحت و تعلیم پر خرچ ہو گا لیکن بدنیت حکمرانوں نے کھیل بدلنے کی کوشش کر لی ہے، یہ جانے بغیر کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ کشمیر ایکشن کمیٹی کے حالات چونکہ دیگر پاکستانیوں سے قدرے مختلف ہیں، اس لئے کشمیریوں پر ویسے تشدد نہیں ہو سکتا جیسے پاکستانی انتظامیہ، پاکستانیوں پر کرتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود، پاکستانی انتظامیہ و فیصلہ سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کشمیریوں کا احتجاج کافی ہونا چاہئے تھا اور انہیں اپنے اقدامات کا ازسرنو جائزہ ضرور لینا چاہئے تھا کہ مبادا کہیں پاکستانی بھی کشمیریوں کی مانند کھڑے ہو گئے تو کیا ہو گا؟، اس پس منظر میں مورخہ 3نومبر 2022ء کی تحریر بعنوان ’’ انقلاب۔ دہلیز پر یا انقلاب کی دہلیز پر‘‘ قارئین کی نذر کر رہا ہوں کہ قارئین خود حالات کا موازنہ کر لیں، بشرطیکہ بھارت نے کوئی مہم جوئی نہ کی، کہ آج پاکستان کہاں کھڑا ہے اور پاکستانیوں کی قسمت کیا ہو سکتی ہے، ’’ مہذب و ترقی یافتہ ممالک کی بے مثال ترقی پر نظر دوڑائیں تو پس منظر میں ایک جہد مسلسل نظر آتی ہے کہ جس میں عوام کی قربانیوں کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان قربانیوں کے عوض جو آزادی ان ممالک نے حاصل کی، اسے شتر بے مہار چھوڑ دیا گیا ہو۔ نظام حکومت ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے حکمرانوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ من مانیاں کر سکیں بلکہ نظام کی مضبوطی و شفافیت ایسی ہے کہ کمزور کے حقوق کا ہر صورت تحفظ ممکن بنایا گیا ہے اور کسی بھی طاقتور کو محض اپنی سماجی حیثیت کے بل بوتے پر ظلم و ستم یا استحصال کی چھوٹ میسر نہیں ہے۔ ایسی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر ادارے از خود حرکت میں آتے ہیں اور بڑی سے بڑی حیثیت کے حامل شخص کو اداروں کے سامنے سرنگوں ہونا پڑتا ہے، نظام انصاف صرف انصاف کرتا نہیں بلکہ اس کا انصاف نظر آتا ہے اور حقیقی معنوں میں عدالتیں شخصی حیثیت کے معاملے میں اندھی دکھائی دیتی ہیں۔ عدالتوں کے نزدیک سب سے اہم چیز قانون ہے، جس کی بنیاد پر اگر ایک کمزور شخص کی حق تلفی ہوئی ہے اور اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو عدالت اس حق تلفی کا ازالہ کرنے کے لئے بغیر کسی سیاسی و سماجی دباؤ کے ہمہ وقت تیار نظر آتی ہے۔ یہی انصاف پسندی ہے، جس نے ان ممالک میں معاشرتی اقدار کو محفوظ ترین بنا رکھا ہے اور معاشرے میں سکون و اطمینان نظر آتا ہے، تیسری دنیا کے شہری ان ممالک کی شہریت لینے کے لئے اسی وجہ سے بے چین نظر آتے ہیں کہ ایسے معاشروں میں ان کے لئے نہ صرف ذہنی سکون و اطمینان میسر ہے بلکہ ایسے ماحول میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک کو مواقع کی سنہری سرزمین اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین میں کوئی بھی اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کا لوہا منوا کر اپنے اور امریکہ کے لئے دنیا بھر میں نام پیدا کر سکتا ہے، ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ امریکہ کی بیشتر بڑی کمپنیوں میں غیر ملکی اپنی صلاحیتیوں اور ہنر مندی کے سبب اعلی ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ یہاں البتہ خامی ضرور موجود ہے کہ ایسے اعلی ترین عہدوں پر بالعموم یا اکثریت میں ہمیں غیر مسلموں کی تعداد ہی نظر آ تی ہے جبکہ مسلم افراد اب اس دوڑ میں شامل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ حالات رہے ہیں کہ جب جدید ٹیکنالوجی کی یہ دنیا آباد ہو رہی تھی، اس وقت مسلم ممالک کے داخلی حالات کے علاوہ بیرونی عوامل بری طرح اثر انداز ہورہے تھے اور مسلم طالبعلموں کے لئے جدید علوم کے دروازے بھی کسی نہ کسی حد تک بند رکھے جا رہے تھے جبکہ مسلم حکمرانوں کی دور اندیشی بھی اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہی۔ بہرکیف وہ وقت گزر چکا اور اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور مسلمان بھی اس دوڑ میں نہ صرف شامل ہو رہے ہیں بلکہ اس میں بہت تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے نظر بھی آ رہے ہیں، پاکستان جیسے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ بتدریج بڑھ تو رہی ہیں لیکن حکومتیں ابھی تک ان کو وہ وسائل فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس سے اس شعبہ میں جلد از جلد ترقی ہو سکے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی حالات روز اول سے ہی قابل فخر نہیں رہے کہ جمہوریت کی بنیاد اور اصول پر بننے والی یہ ریاست ابتداء سے ہی جمہوری طرز حکومت سے بھٹک گئی یا بھٹکا دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن ریاست میں سیاسی سرگرمیاں کمزور تر ہوتی رہی اور سیاستدانوں کی جو کھیپ منظر عام پر آئی، اسے بہر طور سیاستدان کسی طور نہیں کہا جا سکتا۔ نرسری کے گملوں میں پروان چڑھنے والی سیاسی قیادت، بالخصوص پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں منظر عام پر آنے والی قیادت نے بتدریج اپنی سیاسی حیثیت پر سمجھوتے کئے اور اس کے عوض اس ملک کے سیاسی و سماجی و معاشرتی اقدار کو کمزور کرتے رہے۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ گزشتہ چار دہائیوں میں اس ملک کے ساتھ انتہائی بے دردی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ معاشی حالات بھی ایسے ہیں کہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے کوئی انتہائی خبر سامنے آ سکتی ہے خاکم بدہن لیکن ان حقائق سے نظریں چرانا ایسے ہی ہے کہ جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اختیار کی رسہ کشی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ تقریبا تمام سیاسی جماعتیں، جیسے ہی اقتدار سے نکلتی ہیں، ان کا اگلا ٹھکانہ پاکستان کی سڑکیں ہوتی ہیں اور وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے بہانے مقتدرہ پر تنقید کے نشتر لگانے لگتی ہیں، وہ خواہ نواز شریف ہوں یا پیپلز پارٹی او ر اب تحریک انصاف بھی اس صف میں شامل ہو چکی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ یہی سیاسی جماعتیں جب تک اقتدار میں رہتی ہیں، ان میں کوئی بھی جماعت سویلین اختیار کی خاطر ، اپنے حقوق کی خاطر اقتدار کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتی البتہ دبے لفظوں میں اختیار نہ ہونے کا شکوہ ضرور کرتی ہے کہ انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف نہ صرف سڑکوں پر ہے بلکہ تاریخی اعتبار سے، پچاسی کے بعد سے، عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ہم رکاب ہے اور بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ عوام کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ عمران خان ہماری سیاسی تاریخ کا دوسرا بڑا لیڈر بن کر سامنے آیا کہ جسے حکومت سے نکلنے کے بعد اتنی بڑی عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے وگرنہ اپنی زندگی میں ماسوائے بھٹو کے کسی بھی دوسرے سیاسی قائد کو اتنی عوامی حمایت و پذیرائی ملتے نہیں دیکھی۔ یہاں عمران خان بھی اس وقت اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں اور دہائیوں سے جمہوریت سے محروم عوام اور سیاسی قیادتوں کے حکومتی اختیار کی لڑائی اس وقت سڑکوں پر ہوتی نظر آ رہی ہے، یہ جنگ کون جیتے گا، اس کے متعلق فی الوقت کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ بعد ازاں کے حالات پر کوئی رائے دی جا سکتی ہے کہ جیسے عمران خان قانون کی بالا دستی کی بات کر رہے ہیں، وہ حقیقتا اس ملک میں نافذ العمل ہو سکے گا یا نہیں۔ عمران خان نے کنٹینر سے عمران ریاض خان کو اپنے حالیہ انٹرویو میں مارشل لاء کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں مارشل لاء سے ڈرایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ اس دھمکی سے ڈر نے کے لئے تیار ہیں، ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ عمران خان اس وقت صرف ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملک میں فی الفور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جائے کہ موجودہ صورتحال میں یہی ایک واحد راستہ ہے کہ جس سے ملک میں استحکام ممکن ہے جبکہ دوسری طرف حکومتی اراکین کی طرف سے اس کی نفی یہ کہہ کر کی جا رہی ہے کہ جس طرح ان کی حکومت کو لانگ مارچ کی صورت غیر مستحکم کیا جار ہا ہے بعینہ اگر وہ اپوزیشن میں آتے ہیں تو عمران حکومت کے لئے بھی حکومت کرنا مشکل ہو گا اور وہ اسی طرح سڑکوں پر ہوں گے۔ یہ ساری صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ ملکی معاملات کی بجائے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کرتی نظر آتی ہے اور کہیں بھی سیاسی بصیرت و بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ کل تک موجودہ حکومت مراسلے کو ڈھکوسلہ قرار دے رہی تھی جبکہ آج اس مراسلے پر سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کروا کراس کی حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے اور عمران خان اپنے موقف پر سختی کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ان کی حکومت کو غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ہٹایا گیا ہے اور اس موقف کو عوام میں پذیرائی بھی مل چکی ہے۔ علاوہ ازیں! عمران خان نے اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ پچھلے چھ ماہ سے عوام کی آنکھوں میں انقلاب دیکھ رہے ہیں، اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس انقلاب کو نرم انقلاب تک مخصوص رکھتے ہیں یا خونی انقلاب کی طرف لے جاتے ہیں۔ کیا پاکستان واقعی انقلاب کی دہلیز پر ہے یا انقلاب، دہلیز پر ہے!!!

جواب دیں

Back to top button