فتووں کے ذمہ داروں کو چھوٹ

فتووں کے ذمہ داروں کو چھوٹ
تحریر: تجمل حسین ہاشمی
قوم حیرانی کا شکار ہے، اور اس حیرانی کی ذمہ دار وہ خود بھی ہے۔ ہمارے رویے خراب ہیں، لیکن ہم دوسروں پر دل کھول کر تنقید کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ لوگوں کے پاس تنقید اور دوسروں کو بے عزت کرنے کی سوچ کے سوا کچھ نہیں بچا۔ پہلے بڑوں، بزرگوں اور سرکاری افسروں کا احترام ہوتا تھا، لیکن ناانصافی نے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔ آج کل سرکاری ملازمین بھی فتوے بانٹ رہے ہیں۔ وہ اتنی جلدی افواہوں پر یقین کر لیتے ہیں کہ اس کی کوئی انتہا نہیں۔ اپنے غلط فیصلوں کو انا کا مسئلہ بنا کر وہ خود اپنا سکون خراب کر لیتے ہیں۔
پہلے کانا پھوسی کا الزام عورتوں پر لگتا تھا، لیکن آج کل بڑے بڑے سرکاری بیوروکریٹ اس بیماری کا شکار ہیں۔ میں ایسے رویوں کو بیماری سمجھتا ہوں، جو آج کل مردوں میں زیادہ پائی جا رہی ہے۔ ایسے افراد ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کے رویوں سے بے چینی اور افراتفری پھیلتی ہے۔ یہ صورتحال بڑے بڑے لیڈروں کو بھی درپیش ہے۔ فیصلہ ساز بھی ان فتووں کا شکار ہیں۔ بے بنیاد فتووں سے قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ جیسے ہیروز بھی متاثر ہوئے، لیکن انہوں نے تحمل سے کام لیا اور ایسی حرکتوں کا مقابلہ جنگ سے نہیں، بلکہ صبر سے کیا۔اسلامی تعلیمات ہمیں صبر و تحمل کا درس دیتی ہیں، لیکن ہم سب بے راہ روی کا شکار ہیں۔ قائداعظم اور ان کی بہن فاطمہ جناح پر غدار اور کفر کے فتوے لگے۔ 26جولائی 1943ء کو بمبئی میں قائداعظمؒ پر حملہ ہوا۔ حملہ آور رفیق صابر مزنگوی، جو خاکسار تحریک سے تعلق رکھتا تھا، نے انہیں انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا۔ قائداعظمؒ نے اس حملے کو اپنے ہاتھ سے روکا۔ اسی طرح گاندھی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے پر انہیں گولی مارنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ قائداعظمؒ نے گاندھی کے ہندو مفادات کے تحفظ اور سیکولر ازم کی وجہ سے کانگریس چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ جوائن کی۔جب بھی عدل و انصاف سے ہٹ کر فیصلے ہوئے، اس کے نقصانات پوری قوم نے بھگتے۔ غداری کے فتوے اور کردار کشی آج بھی جاری ہے۔ یہ رجحان پہلے سیاسی حلقوں تک محدود تھا، لیکن اب اس کے اثرات خاندانی نظام اور گلی محلوں تک پھیل کر نفرت کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ نفرت سماجی اور معاشرتی قدروں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ معاشی تنگدستی اور عوامی رائے کو دبانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے ایک مضبوط معاشی پالیسی اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے، جس پر حکومتی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
عوامی فیصلے طاقت کے زیر اثر ہیں، چاہے وہ یو سی کی سطح پر ہی کیوں نہ ہوں۔ جب تک تعلیمی شعور بیدار نہیں ہو گا، یہ کیڑے ملک کو کھاتے رہیں گے۔ کئی دہائیوں سے الزامات کی سیاست چل رہی ہے، اور آج بھی وہی سوچ کارفرما ہے۔ ہر صوبہ اپنی لسانی سوچ پر گامزن ہے۔ اس مشکل صورتحال میں مریم نواز شریف نے پنجابیت کے نعرے کے ساتھ خود کو وزیراعظم پاکستان کے لیے پیش کیا ہے، جس کا اظہار رانا ثناء اللہ نے کیا۔ قوم کو ایسی سوچ اور نعروں کے زیر اثر نہیں آنا چاہیے۔ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے، جس پر 24کروڑ پاکستانیوں کا ایمان ہے۔ ملک کا قیام دو قومی نظریے پر ہوا۔ لسانی نعرے ہمیشہ قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے جوان دن رات سرحدوں پر ملکی سلامتی کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ امن، سکون اور معاشی بحالی کے لیے نعروں یا میٹنگوں سے زیادہ بروقت انصاف کی دستیابی ضروری ہے۔ فتووں کے ذمہ داروں کو پکڑنا ہوگا، ورنہ یہ روش قوم کو مزید نقصان پہنچائے گی۔





