ColumnQadir Khan

یہ فتح صرف حماس کی ہے

یہ فتح صرف حماس کی ہے !!
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
غزہ کی ویران گلیوں میں، جہاں ہر ملبہ انسانی ہڈیوں کا ڈھیر ہے اور ہر ہوا میں بچوں کی آخری سانسیں گونجتی ہیں، ایک خبر نے بالآخر امید کی ایک پتلی سی کرن جھلکی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 8اکتوبر 2025ء کو جاری بیان میں اعلان کیا گیا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، جو مصر کے شہر شرم الشیخ میں امریکہ، قطر، مصر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ یہ اعلان محض سفارتی کامیابی نہیں، بلکہ حماس کی ان لاتعداد قربانیوں کا ثمر ہے جو انہوں نے فلسطینی سرزمین کی حفاظت اور قوم کی بقا کے لیے دی ہیں، جبکہ غزہ کی المناک صورتحال نے پوری دنیا کو شرمندہ کر دیا ہے۔
یہ خبر سنتے ہی غزہ کی ان ویران گلیوں میں، جہاں دھول اور راکھ کی تہیں انسانی یادوں کو دبا رکھی ہیں، ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسی خاموشی جو نہ تو خوشی کی تھی نہ غم کی، بلکہ ایک ایسے درد کی جو برسوں سے سہا جا رہا غزہ، یہ چھوٹی سی پٹی، جو دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی تھی، اب شاید ایک نئی صبح کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ کا یہ اعلان، جو پہلے تو ایک مذاق لگتا تھا، اب حقیقت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ، جو برسوں سے اسرائیل کا بے لوث حامی رہا، اب بالآخر ایک ایسا قدم اٹھا رہا ہے جو فلسطینیوں کے درد کو تسلی دے سکتا ہے، چاہے صدر ٹرمپ ماضی میں جو کچھ کہتے رہے ، منصوبے بناتے رہے لیکن آخر کار مصر، قطر اور ترکی کی ثالثی، جو برسوں سے جاری تھی، رنگ لائی۔ شرم الشیخ کی ان گرم راتوں میں، جہاں مذاکرات کار بند کمروں میں بیٹھے تھے، شاید انہوں نے نہ صرف کاغذوں پر دستخط کیے، بلکہ انسانی جانوں کی قیمت بھی سمجھی۔ ٹرمپ کا بیان پڑھتے ہوئے، دل میں ایک سوال اٹھتا ہے،کیا یہ واقعی امن کی طرف قدم ہے، یا محض ایک عارضی سانس؟
حماس، جو اسرائیل کے لیے دہشت گرد ہے، فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کی علامت بن گئی۔ انہوں نے نہ صرف یرغمالوں کو محفوظ رکھا، بلکہ نئی بھرتیاں کرکے اپنی فوجی طاقت برقرار رکھی۔ یہ مزاحمت، جو برسوں کی ہے، اب امن کی طرف قدم بڑھا رہی ہے، لیکن کیا یہ امن پائیدار ہوگا؟ غزہ کی ان گلیوں میں، جہاں ہر قدم پر موت کا سایہ ہے ۔یہ فتح صرف حماس کی ہے، کیونکہ انہوں نے نہ صرف 48اسرائیلی یرغمالوں کو، جن میں 20زندہ ہیں، اپنے پاس رکھا بلکہ اسرائیل کو 2000فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر مجبور کر دیا۔
معاہدہ تقریباً 48اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی پر مرکوز ہے جو غزہ میں قید ہیں، جن میں زندہ اور فوت شدہ دونوں شامل ہیں؛ بدلے میں اسرائیل 303فلسطینیوں میں سے 250کو جو عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں، اور 7اکتوبر 2023کے بعد گرفتار 1700غزہ باشندوں کو، بشمول تمام خواتین اور بچوں کو رہا کرے گا۔ ہر فوت شدہ اسرائیلی یرغمال کی واپسی پر اسرائیل 15فوت شدہ فلسطینیوں کی باقیات واپس کرے گا۔ حماس نے خاص طور پر اعلیٰ پروفائل قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا، جیسے مروان البرغوثی، فتح کا سینئر رہنما جو متعدد عمر قید کی سزائیں کاٹ رہا ہے اور سب سے مقبول فلسطینی شخصیت سمجھا جاتا ہے؛ احمد سعدات، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطائن کا سیکرٹری جنرل جو 2001 میں اسرائیلی وزیر رحبعام زیوی کے قتل کی منصوبہ بندی کے جرم میں سزا یافتہ ہے، اور عبداللہ البرغوثی، حماس کارکن جو 2000کی دہائی کے خودکش حملوں میں ملوث ہونے پر 67عمر قید کی سزائیں کاٹ رہا ہے۔ فوجی انتظامات کے تحت اسرائیل غزہ میں متفقہ لائن تک فوجیں واپس لے آئے گا، کابینہ کی منظوری کے بعد 24گھنٹوں میں، اور انخلاء کے بعد یرغمالوں کی رہائی شروع کرنے کے لیے حماس کے پاس 72گھنٹے ہوں گے۔
وائٹ ہاس کے اہلکاروں کے مطابق نفاذ کا ٹائم ٹیبل کے مطابق 9اکتوبر کو اسرائیلی کابینہ ووٹ دے گی، 24گھنٹوں میں فورسز واپس لوٹیں گی، 72گھنٹے کی الٹی گنتی شروع ہو گی، اور 13اکتوبر کو یرغمالوں کی رہائی متوقع ہے۔اس تبادلے کی خبر سنتے ہی، غزہ کی ان کچی گلیوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ قیدیوں کی رہائی، جو فلسطینیوں کے لیے ایک خواب تھی، اب حقیقت بن رہی ہے۔ مروان البرغوثی، جو اسرائیلی جیلوں میں برسوں سے قید ہے، اس کی رہائی فلسطینیوں کے لیے ایک علامت ہے۔ وہ نہ صرف فتح کا رہنما ہے، بلکہ فلسطینی مزاحمت کی روح۔ احمد سعدات، جو اپنے نظریات پر ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے، اور عبداللہ البرغوثی، جس کی سزائیں موت کی مانند ہیں، ان کی آزادی فلسطینی قوم کو نئی طاقت دے گی۔ یہ تبادلہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں، بلکہ انسانی کہانیوں کا ہے۔ اسرائیلی یرغمالوں کی فیملیز بھی، جو دو سال سے اشتیاق میں تھیں، اب خوشی کے آنسو بہا رہی ہیں۔
خواتین اور بچوں کی رہائی، جو معاہدے کا حصہ ہے، انسانی حقوق کی بحالی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ، جب تک مکمل نہ ہو، ایک خواب ہی رہے گا۔ غزہ کی ان ویران دیواروں پر، جو بموں سے جھکی ہوئی ہیں، اب شاید امن کی تحریریں لکھی جائیں، مگر اس کے لیے دونوں فریقوں کو سنجیدگی سے کام لینا ہوگا۔حماس کی تاریخی قربانیاں اس فتح کی بنیاد ہیں، جو 2007سے غزہ پر ناکہ بندی کے باوجود جاری رہیں؛ اکتوبر 7کے حملے میں 1200اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 252یرغمال لیے گئے، جو اسرائیلی قبضے، گرفتاریوں اور بمباریوں کا بدلہ تھا۔ حماس نے 25000سے زائد جنگجوئوں میں سے تقریباً 20000کو ضائع ہونے کے باوجود نئی بھرتیاں کیں اور یرغمالوں کو صحت مند رکھا، جو ان کی مزاحمت کی عکاسی کرتا ہے۔
غزہ میں 67000سے زائد شہادتیں، جن میں 18500بچے شامل ہیں، صحت کارکنوں پر 480ہلاکتیں، اور 2ملین بے گھر ہونے کے باوجود حماس نے اپنی فوجی صلاحیت برقرار رکھی۔ اسرائیل نے ہسپتالوں، اسکولوں اور امداد پر حملے کیے، 447 صحت تنصیبات کو نشانہ بنایا، مگر حماس نے نہ تو یرغمال چھوڑے اور نہ ہی ہتھیار ڈالے۔ یہ اسرائیل کی شکست ہے، کیونکہ انہوں نے غزہ کو تباہ کر دیا۔زرعی زمینیں برباد، بجلی اور پانی کی قلت، وبائی امراض، مگر حماس کی قیادت اور حمایت کو ختم نہ کر سکے۔ غزہ کی ان گلیوں میں، جہاں لوگ ابھی تک ملبوں سے لاشیں نکال رہے ہیں، یہ خبر ایک نئی شروعات کی طرح لگتی ہے۔ امن محض دستخطوں کا نہیں، بلکہ انصاف کا نام ہے۔

جواب دیں

Back to top button