9اکتوبر ڈاک کا عالمی دن

9اکتوبر ڈاک کا عالمی دن
ضیاء الحق سرحدی
پاکستان پوسٹ 9 اکتوبر کو یونیورسل پوسٹل یونین کی 151ویں سالگرہ کے موقع پر ڈاک کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ 9 اکتوبر کو ڈائریکٹوریٹ جنرل پاکستان پوسٹ جی ایٹ فور اسلام آباد میں ڈاک کے عالمی دن کے سلسلہ میں ایک سادہ مگر پر وقار تقریب منعقد ہو گی، جس میں ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ پرچم کشائی کریں گے اور ڈاک کے عالمی دن کے حوالے سے یو پی یو کے ڈائریکٹر جنرل کا پیغام پڑھ کر سنائیں گے۔ تقریب میں پاکستان پوسٹ کے افسران اور عملہ شرکت کرے گا۔ اسی طرح یو پی یو پرچم کشائی کی تقریبات ملک بھر کے پوسٹل سرکلوں اور یونٹوں میں منعقد کی جائیں گی۔
قارئین کرام!
خط، چٹھی بھیجنے یا پیغام رسانی کی تاریخ بھی کچھ عجیب سی ہے۔ پہلے خطوط یا پیغام بھیجنے کے لئے پالتو کبوتروں کو باقاعدہ طور پر تربیت دے کر پیغام بھیجنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ وہ کبوتر دور دراز تک اڑان بھر کر پیغام پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ انہیں صرف گھروں میں پیغام پہنچانے کے لئے ہی نہیں بلکہ میدان جنگ میں پیغام رسانی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد پیغام رسانی کے اس سلسلے کو مختلف انداز میں اپنایا گیا، دنیا کو گلوبل ویلج کہا جاتا ہے مگر یہ اس سے بھی سکٹر کر چھوٹی سی سکرین میں سما گئی ہے، موبائل فون کی سکرین میں ہزاروں میل دور بیٹھا شخص فون، انٹر نیٹ، سوشل میڈیا یا لیپ ٹاپ کے ذریعے آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے جیسے ساتھ ہی بیٹھا ہو۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں کئی صدور اور وزرائے اعظم کو جتوانے یا حکومت سے ہٹانے میں بھی اس کمپیوٹر نے ہی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ اس کے پیچھے چھپے ہوئے دماغوں نے نا صرف دنیا بدل دی ہے بلکہ زندگی آسان بھی بنادی ہے۔ آج جن سہولتوں سے ہم بہرہ ورہو رہے ہیں، کل کسی نے ان کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ڈاک کے ذریعے عید کارڈ بھیجے جاتے تھے، جو مدتوں تک ایک میزوں پر سجے ایک دوسرے کی محبت کی یاد دلاتے رہتے تھے۔ یہ دور پرانا ہو گیا، ماضی میں کہیں کھو گیا۔اب ایک ایس ایم ایس سے ہی کام چل جاتا ہے، کم خرچ بالانشیں۔ دو انگلیاں چلائیں اور دل کی بات کہہ دی۔ ایک منٹ میں کئی شادیوں اور درجنوں بچوں کے پاس ہونے کی مبارک باد بھی سینڈ کر دی جاتی ہیں۔ غمی میں شرکت بھی منٹوں میں ممکن ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1898ء کے ایکٹ میں ردوبدل کر کے پاکستان پوسٹ آفس کی بنیادیں رکھ دی گئیں تا کہ بعد میں آنے والے نااہل حکمران ان بنیادوں کو ہلا سکیں۔ وزارت مواصلات کے ماتحت ڈیپارٹمنٹ آف پوسٹ آفس اینڈ ٹیلی گراف قائم کیا گیا۔ لاہور میں آفس آف دی پوسٹ ماسٹر جنرل قائم کیا گیا۔ ٹیلی گراف آفس کا کام ٹیلی گرام کی تقسیم تھا۔ ایئر لیس ٹیلی گراف ایکٹ 1933ء میں جاری کیا گیا، یہ بعد کی ٹیکنالوجی تھی مگر ڈاک سسٹم سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ پاکستان کے کچھ شہر جسے ایک گنجان شہر کہہ سکتے ہیں، یہاں ڈاک کی کھپت سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ لوگ صبح بیدار ہوتے اور دروازوں پر کھڑے ہوکر ڈاکیے کا انتظار کرتے تھے۔ اگر ڈاکیا کوئی خوشخبری والا خط لے آتا تو لوگ اس کی تواضع کرتے اور انعام و اکرام سے بھی نوازتے تھے۔ اگر کسی محلے میں کوئی ٹیلی گرام آجاتا تو پورے علاقے میں ایک کہرام مچا ہوتا تھا کہ کوئی بری خبر آئی ہے، کیونکہ لوگ اس وقت صرف کسی کی موت کی صورت میں ٹیلی گرام بھیجا کرتے تھے۔ یہ انتہائی مختصر اور چند سطروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ نومبر 1947ء میں پاکستان پوسٹ کا محکمہ عالمی تنظیم یونیورسل پوسٹ یونین کا ممبر بن گیا۔ 1948ء میں چار ٹکٹوں پر مشتمل ایک سیٹ جاری کیا گیا۔1959ء میں اسے پی آئی اے کی مدد سے ایئر میل (All up Airmail)سروس شروع ہوئی۔ یہ عام ڈاک سے ذرا مہنگی تھی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں ڈاک کی تقسیم کے لئے سکورسکی(Sikorsky)ہیلی کاپٹر خرید لئے گئے۔ جولائی 1962ء میں پوسٹ آفس کو وزارت مواصلات ہی کے ماتحت ایک الگ محکمے کا درجہ دے دیا گیا۔ جنوری 1987ء میں ارجنٹ میل سروس اور اپریل1987ء میں لوکل پیکٹ اینڈ پارسل سروس متعارف کرائی۔ یکم جنوری 1988ء کو ملک میں پہلی پوسٹل کوڈز جاری کئے گئے جنہیں پڑھتے ہی سب کو پتہ چل جاتا تھا کہ خط کہاں پہنچانا ہے۔ اگست1992ء میں پوسٹل سروس نے آزادی کے مطالبے شروع کر دیئے،6جولائی1996ء کو ان کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گیا۔ پوسٹل سروس کو وزارت مواصلات کے ماتحت ہی کارپوریشن کاسٹیٹس مل گیا۔ یکم دسمبر1992ء کو بیرون ملک بھی مقیم پاکستانیوں کے لئے اوورسیز پوسٹل سرکل کا شعبہ قائم کر دیا گیا۔ قبل ازیں تمام غیر ملکی ڈاک براستہ کراچی جاتی تھی، اب یہ سروس براہ راست دوسرے شہروں سے بھی شروع کر دی گئی۔1990ء کی دہائی میں ملک بھر میں تیرہ ہزار ڈاک خانے قائم ہوچکے تھے۔ اس وقت ملک بھر کے شہری علاقوں میں 2055اور دیہی علاقوں میں 9470ڈاک خانے قائم ہیں۔ افرادی قوت 32130ہزار سے زائد ہے۔ مشرف دور میں پہلی مرتبہ27کروڑ منافع ہوا جو سیاسی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھایا، وہ دن اور آج کا دن، یہ محکمہ اپنے پیروں پر کبھی کھڑا ہی نہیں ہو سکا۔ حقیقت میں پوسٹ مین ہی اپنا خون پسینہ بہا رہا ہے مگر اسے پوسٹ آفس میں سب سے کم عزت ملتی ہے۔ افسر اور پوسٹ مین کی تنخواہوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر اندیشہ ہے کہ چند سال میں یہ محکمہ نہ صرف مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، بلکہ لوگ، محکمہ ڈاک کے باوردی ڈاکیوں کو مکمل طور پر بھول کر نجی کورئیر کمپنیوں پر اعتماد کرتے ہوئے پیغام رسانی کے لئے ان کے جدید نظام کو اپنا لیں گے۔ جس سے نہ صرف ڈاک کا یہ قدیم ادارہ مکمل طور پر بند ہو جائے گا بلکہ اس میں کام کرنے والے اور اس سے وابستہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کہ ہے کہ حکومت فوری طور پر اس محکمے کی جانب توجہ دے کر نہ صرف خسارے سے باہر لائے۔ تاکہ اس محکمے کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کے ساتھ اسے ایک بار پھر پیروں پر کھڑا کیا جائے۔







