صرف سول سرونٹس نہیں تمام سرکاری افسران

صرف سول سرونٹس نہیں تمام سرکاری افسران
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا جو وفد پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے اس نے حکومت کی مالیاتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کئے جس میں ان کا سب سے اہم اور بڑا مطالبہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔ اگرچہ حکومتی نمائندوں نے وفد کو بتایا ہے کرپشن کے خاتمے کے لئے ٹاسک فور س بنائی گئی ہے جو اس مقصد کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ بادی النظر میں حکومت کو اس وقت جس بڑی مشکل کا سامنا ہے وہ اعلیٰ سرکاری افسران کے اثاثوں کی ڈیکلریشن ہے۔ حکومت نے وفد کو بتایا ہے تمام سول سرونٹس کو اپنے اپنے اثاثے ڈیکلئر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے لیکن وفد کا اس امر پر اصرار ہے صرف سول سرونٹس کے اثاثے نہیں بلکہ ملک کے تمام اداروں کے افسران کے اثاثے ڈیکلئر کئے جائیں خواہ ان کا تعلق عدلیہ یا کسی بھی سرکاری ادارے سے کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے آئی ایم ایف وفد اور حکومتی ٹیم کے درمیان ہونے والی بات چیت پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے مملکت میں کرپشن اس حد تک سرایت کر چکی ہے کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں کرپشن نہ پائی جاتی ہو۔ اگرچہ حکومت نے اس امر کی وفد کو یقین دہانی کرائی ہے وہ سول سرونٹس ایکٹ میں اس مقصد کے لئے ترمیم لا رہی ہے مگر وفد نے اس بات پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے تمام اداروں کے افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ملک سی کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے ایف آئی اے اور صوبائی اینٹی کرپشن کے افسران کی تربیت کا بھی جائزہ لیا گیا اور ان محکموں کے افسران کی تربیت کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر کرپشن کے خاتمے کے لئے امیگریشن کی ذمہ داری ایف آئی اے سے لے کر سیکورٹی اداروں کو دینی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ وفد کو بتایا گیا منی لانڈرنگ کے کیسوں کی تفتیش صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو دی جائے گی۔ حالیہ وقتوں میں منی لانڈرنگ کی کیسوں کی تفتیش ایف آئی اے کرتی ہے لیکن حکومت اب یہ کام صوبوں میں اینٹی کرپشن کے محکموں کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ماضی قریب میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے دیگر مقدمات درج ہونے کے باوجود جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ منی لانڈرنگ میں بعض بڑے بڑے سیاست دان ملوث رہے ہیں ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں جانے کے باوجود ان کے مقدمات قوانین میں ترامیم کے بعد ختم کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا ہے ہر کوئی امیر سے امیر تر بننے کے لئے کوشاں ہے۔ بعض سیاسی رہنمائوں کرپشن کی حد کر دی عجیب تماشا ہے ایک سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے دوسری سیاسی جماعت کے رہنمائوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات قائم کرتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد خود ہی اپنے خلاف مقدمات ختم کر دیتے ہیں۔ تعجب ہے اندرون اور بیرون ملک کرپشن سے جائیدادیں بنانے والوں سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا۔ ملک میں کرپشن کا ایک نیا طریقہ رائج ہو گیا ہے دریائوں اور ندی نالوں کی گزرگاہوں پر بڑی بڑی ہائوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں۔ ملک کی ایک بڑی ہائوسنگ سوسائٹی نے لاکھوں ایکٹر سرکاری اراضی پر تعمیرات کر لیں ۔ کئی سال گزرنے کے بعد جب تعمیرات ہو چکی ہیں اس کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ ہایوسنگ سوسائٹی کے مالک کو برسوں کسی نے باز پرس نہیں کی مگر اب اس کے خلاف ریفرنس نیب عدالت میں بھیج دیا گیا ہے۔ سوال ہے کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات کو اتنی طوالت کا ذمہ دار کون ہے لیکن ذمہ داروں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔ جس ملک میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے سرکاری خزانے سے صحافیوں کو گاڑیاں مفت دی جاتی ہوں کیا ایسے ملک سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں احتساب صرف مخصوص لوگوں کا ہوتا ہے جب تک بلاتمیز احتساب نہیں ہوتا ہمارے ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ جس ملک کی عدلیہ میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی ہوں ایسے ملک میں احتساب اور انصاف خواب بن جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار انہی ملکوں میں ہوتا ہے جہاں بلا تمیز احتساب کی بجائے چند گنے چنے لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاسف ہے پبلک فنڈ سے سڑکیں اور دیگر تعمیرات کرنے کے بعد ارکان اسمبلی کے ناموں کے بورڈ آویزاں ہو جاتے ہیں جیسے انہوں نے اپنی ذاتی جیب سے تعمیرات کرائی ہوں۔ سرکاری ہسپتالوں میں سیاسی رہنمائوں کے ناموں کی تختیاں آویزاں ہو رہی ہیں کیا ان اقدامات سے عوام کے ہمدردیاں لی جا سکتی ہیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے عوام باشعور ہو چکے ہیں جنہیں مبینہ کرپٹ اور راست باز سیاست دانوں کی خاصی تمیز ہو چکی ہے۔ ملک کی بدقسمتی دیکھئے عوام جنہیں مینڈیٹ دیتے ہیں ان کی بجائے جنہیں ووٹ نہیں دیا جاتا انہیں اقتدار سونپ دیا جاتا ہے۔ آخر یہ سارا کھیل کب تک چلے گا، اس ملک میں کوئی تو آیت اللہ خمینی آئے گا جو ملک و قوم کو لوٹنے والوں کا بلا امتیاز احتساب کرے گا۔ پاکستان کے عوام اب کسی آیت اللہ خمینی کے آمد کے منتظر ہیں جو ملک و قوم کو لوٹنے والوں کا بلاامتیاز احتساب کرے۔ ہم بات کر رہے ہیں آئی ایم ایف اور اس کی شرائط کی کیا آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ غلط ہے تمام سرکاری محکموں کے افسران کے اثاثے ظاہر کئے جائیں؟، اس ملک کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کوئی بڑا جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور کسی غریب سے جرم سرزد ہو تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ حکومت کے لئے ایک امتحان ہے وہ تمام سرکاری اداروں کے افسران کے اثاثے ظاہر کرتی ہے یا اس سلسلے میں امتیاز برتی ہے۔ ملک میں کرپشن نہ ہوتی تو نہ ہمیں آئی ایم ایف یا کسی اور ملک کا دست نگر ہونا پڑتا اے کاش ہمارے سیاست دان اور تمام سرکاری افسران کے دلوں میں حق تعالیٰ کو خوف پیدا ہو اور وہ اپنے آپ کو کرپشن سے پاک رکھنے کی سعی کریں۔





