Column

کالم:صورتحال

کالم:صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
مرنے والے فائدے میں رہے
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے راہنمائوں کی طرف سے تیز و تند بیانات پر نہ جائیں۔ سیاسی ہنگامہ نظریہ ضرورت کے تحت برپا کیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ لطف آپ ان نورا کشتیوں سے حاصل کر سکتے ہیں جو ’’ ریسلنگ چمپئن‘‘ نامی پروگرام میں آج سے قریباً تیس برس قبل حاصل ہونا شروع ہوا تھا، یہ لطف اپنی خوبصورت پروڈکشن کے باعث آج بھی قائم ہے، ان کشتیوں کو پہلی مرتبہ دیکھنے والے ہوں یا ہزار مرتبہ دیکھ کر ہر سین کو اپنے ذہن کے پردے میں محفوظ کر لینے والے، ان کشتیوں کا سکرپٹ لکھنے والوں، کیمرہ مینوں، اداکاروں، ہدایتکاروں اور پروڈیوسروں کو داد دئیے بنا نہیں رہ سکتے۔ رِنگ میں تیلا پہلوان اپنے سے دس گنا بھاری پہلوان کی پھنٹی لگانا شروع کرتا ہے۔ تماشائی خوشی سے پھولے نہیں سماتے، پھر کچھ دیر بعد پہاڑ پہلوان تیلے پہلوان کو اٹھا کر رنگ سے باہر پھینک دیتا ہے۔ ایک لمحے کیلئے تماشائیوں پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے، وہ کمزور کے ہاتھوں طاقتور کی پھینٹی لگتا دیکھ کر خوب خوش ہوتے ہیں، کیونکہ دنیا میں ہر ملک، ہر شہر، ہر ادارے، ہر گلی کوچے میں طاقتور ہی کمزور کی پھینٹی لگاتا، اس کے حقوق غصب کرتا، اسے لوٹتا، اس پر زندگی تلخ کرتا نظر آتا ہے، پس ان کی ہمدردیاں کمزور تیلے پہلوان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ کچھ دیر بعد تیلا پہلوان رنگ میں واپس آکر پے در پے تین فلائنگ ککس پہاڑ پہلوان کے سینے پر مارتا ہے۔ وہ زمین پر گر جاتا ہے، ابھی اٹھنے کی کوشش کر ہی رہا ہوتا ہے کہ تیلا پہلوان اسے’’ نیک لاک‘‘ لگا کر بے بس کر دیتا ہے۔ ریفری گنتی پوری کر کے تیلے پہلوان کی فتح کا اعلان کر دیتا ہے، تماشائیوں کا جوش و خروش آسمان پرجا پہنچتا ہے، وہ تیلے پہلوان کی جیت کو حق کی فتح اور ظالم کی شکست سمجھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے، وہ سمجھتے ہیں زندگی کے جس میدان میں انہیں پہاڑ نظام، پہاڑ سامراج، پہاڑ رسم و رواج نے شکست دی ہے۔ تیلے پہلوان نے ان تمام شکستوں کا بدلہ لے لیا ہے، صرف تیلا پہلوان ہی کشتی نہیں جیتا بلکہ وہ خود تمام ہاری ہوئی کشتیاں جیت گئے ہیں۔
جیتنے والے پہلوان کو کم اور ہارنے والے پہلوان کو زیادہ معاوضہ ملتا ہے، جیتنے والے پہلوان کو کم معاوضہ ملتا ہے کیونکہ اس کی جیت اس کی طاقت کی مرہون منت نہیں ہوتی اور ہارنے والے پہلوان کو زیادہ معاوضہ اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی عزت نفس کا سودا کرتا ہے اور جیتنے کی طاقت رکھنے کے باوجود کشتی ہار جاتا ہے۔ ہمارے یہاں سیاسی کشتیاں اسی ضرورت اور اسی سکرپٹ کے مطابق ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا ایک اضافی مقصد اصل مسائل سے حکومتی کمزوریوں اور عظیم الشان ناکامیوں سے توجہ ہٹانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ ورنہ ناک کا اور ساکھ کا مسئلہ ہو، عوامی حقوق اور سیاسی حقوق کا مسئلہ ہو تو پھر ایک دوسرے کو سیاسی سہارا دینے کی بجائے کوئی ایک فریق حکومت سے الگ ہو کر گھر بیٹھے اور دوسرے کو گھر پہنچائے۔
مینار پاکستان پر بیٹھ کر شدید گرمی میں ہاتھ کے پنکھے جھلنے والے مخالف کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی قومی دولت نکالنے والے ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک اور مودی کا یار ثابت کرنے والے سیاسی کشتی کے اختتام پر پھر ایک میز پر مہمان و میزبان بنے نظر آتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس اہم نکتے کی طرف کہ ملک میں جاری جعلی ریسلنگ کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے، اہم ترین معاملہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا، جہاں امن منصوبے پر دستخط کرنے یا ڈرافٹ تبدیل کرنے کی کہانی سنائی جا رہی ہے، پہلے تو بتایا گیا کہ تیلا پہلوان، پہاڑ پہلوان کو پچھاڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے، لیکن پہاڑ پہلوان نے زمین سے اٹھنے کے بعد بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، کشتی وہی جیتا ہے، تیلاپہلوان اور ہمنوائوں نے ہتھیار پھینک دیئے تھے، پہاڑ پہلوان کا اصرار ہے کہ لکھے گئے سکرپٹ کے مطابق کشتی کا انجام تسلیم کرنا چاہئے جو بوجہ تیلے پہلوان کیلئے قابل قبول نہیں رہا، دوسری پریشانی گیارہ ارب ڈالر کی ہے، جس کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارے نے سوال اٹھا دیئے ہیں، اب سمجھ میں نہیں آ رہا اسے کیسے مطمئن کریں، اس سے قبل آئی ایم ایف کو جعلی اعداد و شمار مہیا کرنے، جھوٹ پکڑے جانے، ثابت ہو جانے کے بعد ہم کئی کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کر چکے ہیں، ہمارے بارے میں اب تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ تازہ ترین ہتھوڑا جو سر پر پڑا ہے وہ درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان میں اپنے کاروبار بند کرنے کی خبریں ہیں، جن سے انکار ممکن نہیں، اب یہ تو کہا نہیں جا سکتا کہ کمپنیاں اپنے کاروبار اس لیے بند کرتی ہیں کہ ان کا پیٹ بھر چکا ہوتا ہے اور اس میں مزید منافع سمیٹنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، جو خبر آج سامنے آئی ہے اس کے بارے میں پہلی اطلاع تو لاہور چیمبرز آف کامرس کے صدر جناب ابوذر شاد نے دی تھی، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اس سچ کو بولنے پر مجھے گولی مارنی ہے تو مار دیں، انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ انڈسٹری بند ہو رہی ہے، سب سے برا حال ٹیکسٹائل سیکٹر کا ہے، جبکہ دیگر سیکٹرز میں بھی پروڈکشن بند اور زبوں حالی کا شکار ہے، انتہا پر پہنچی ہوئی بے روزگاری بھی ایک سنگین صورت اختیار کر رہی ہے، جن کمپنیوں کے بارے میں پاکستان سے کاروبار سمیٹنی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کی جانب سے اس خبر کی تردید نہیں کی گئی، پس یہ بات اب قابل یقین ہے کہ یہ کمپنیاں یہاں سے جا چکی ہیں یا کچھ ایسی ہیں جو جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں، ان میں مائیکروسافٹ، گل احمد، کار سروس کریم، پراکٹر اینڈ گیمبل، سیمنز ٹیکنالوجیز، بائیر، شیل پاکستان ، ٹوٹل پارکو، ٹیلی نار، فائزر، ایس ڈبلیو وی، انڈس موٹرز، امریکی سٹیل نے متعدد مرتبہ اپنی پروڈکشن بندکی۔ ٹرک ان اور سینڈوز نے اپنے کاروبار بند کئے۔
سرکاری دفاع میں کہانی سنائی جاتی ہے کہ اگر ایک کمپنی اپنا کاروبار فروخت کر کے گئی ہے تو اس کی جگہ کسی اور کمپنی نے سنبھال لی ہے، یہ درست نہیں۔ دو کمپنیاں ایک شعبے میں کام کر رہی تھیں، کام کم اور نقصان زیادہ شروع ہوا تو دونوں کمپنیوں کے مالکان نے معاہدہ کیا کہ سیل کم ہے اخراجات زیادہ ہیں، لہٰذا ایک کمپنی دوسری کو اپنا بزنس فروخت کر دے اور نقصان سے بچ جائے، ایسے معاملات سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، جن کمپنیوں نے اپنا کاروبار فروخت نہیں کیا یا ہو نہیں سکا، وہ بند کرنے کی ایک سی وجہ بتاتی ہیں، پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔ ٹیکس بے تحاشہ ہیں، ایک سطح پر پہنچ کر یہ 499فیصد ہوجاتے ہیں، یہاں بجلی اور گیس بہت مہنگی ہے، پراڈکٹ کاسٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جن کمپنیوں نے پاکستان میں کاروبار بند کیے ہیں انہوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ نائیجیریا میں بھی اپنے کاروبار بند کئے ہیں، دونوں ممالک میں عوام کی قوت خرید میں ساٹھ فیصد کمی آئی ہے۔ پنجاب میں معاشی ترقی کیلئے موت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی فیس تین سو روپے سے بڑھا کر بارہ سو کر دی گئی ہے۔ یوں فائدہ میں وہ رہے جو یکم اگست سے پہلے انتقال کر گئے، دنیا بھر میں ایٹمی پاکستان کی روز افزوں ترقی کا مقابلہ اب نائیجریا سے کیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button