ColumnQadir Khan

کراچی کا خوفناک المیہ: حافظ نور عالم کی شہادت

کراچی کا خوفناک المیہ: حافظ نور عالم کی شہادت
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
کراچی کی سڑکوں کا نقشہ اب خون اور خوف سے لکیر کی صورت اختیار کر چکا ہے، جہاں ہر گلی اور کوچہ مجرموں کا میدان جنگ بن چکا ہے۔ حافظ نور عالم، شیر عالم کے لخت جگر، معصومیت کا وہ جوہر تھے جو بازاروں میں بھی اپنے جلال اور وقار کے ساتھ برق رفتاری سے پھرتے تھے، لیکن اسی شہر نے ان کی شرافت اور حسنِ سلوک کے چراغ کو ایک گولی کی آواز سے گل کر ڈالا۔ اورنگی ٹائون سیکٹر ساڑھے گیارہ خلیل مارکیٹ کے سانولے اندھیروں میں ڈاکوئوں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر نور عالم کی جان لے لی، اس سال اب تک مزاحمت کی پاداش میں شہید ہونے والے شہریوں کی تعداد 67تک پہنچ گئی ہے، جن میں حافظ قرآن کی جانب سے کی گئی مزاحمت نے ایک روز ابھی تک ٹوٹا ہوا دل شہید کر دیا ہے۔ میرے لئے یہ بہت مشکل امر رہا کہ میں شیر عالم کے سینے میں اٹھنے والی تکلیف و درد کی کیفیت کو سمو لیتا ، اس کا جوان بیٹا جو خاندان کے آنکھوں کا نور تھا وہ ناپرساں شہر میں اپنے زندگی کی قیمتی لمحوں سے محروم ہوگیا تھا ۔ میرے پاس الفاظ نہیں تھے کہ میں اپنے دوست شیر عالم کو تسلی دے پاتا ۔ مجھے اب بھی لکھنے کے لئے ہمت کی ضرورت تھی۔ تو اس لمحہ میں جب جوان بیٹا منوں مٹی تلے ر ب تعالیٰ کے حضور پیش ہورہا تھا تو میں تو کیا دنیا کی کوئی طاقت بھی اس باپ کے دکھ کا احساس بھی نہیں کر سکتی تھی کہ جب باپ اپنے ہاتھوں سے رب تعالیٰ کی امانت سپرد خاک کر رہا تھا ۔
نور عالم کی شہادت کی المیہ خیزی اس میں مضمر تھی کہ جب وہ زخمی ہوا، تو ریسکیو اور علاقائی پولیس کو فوری اطلاع کے باوجود امدادی ٹیمیں بروقت نہ پہنچ سکیں، پھر اسے رکشے میں عباسی اسپتال تک لے جایا گیا، مگر اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اسے موت نے گھیر لیا۔ اگر بروقت طبی امداد اور ایک مربوط ایمرجنسی ریسپانس سسٹم موجود ہوتا تو شاید حافظ نور عالم آج زندہ ہوتا۔ یہ سوال ہر شعور رکھنے والے شہری کے ذہن میں گونجتا ہے کہ کیا یہ زمینی حقائق ہمارے شہریوں کی زندگی کا درجہ طے کرتے ہیں یا کوئی ذمہ دار ادارہ اس المیے کا نوٹس لے گا اور اپنے کردار کو سمجھ کر اصلاحات لائے گا؟۔آج کراچی میں صرف ڈاکوئوں کی بندوقوں کا راج نہیں بلکہ عدالتی لا نظام، پولیس کی نااہلی اور ایمرجنسی سروسز کی ناکامی نے شہریوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ جنوری سے اب تک 43419سٹریٹ کرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور اس دوران 60شہریوں نے مزاحمت کی پاداش میں اپنی جان گنوا دی جبکہ مزید 216شہری زخمی ہوئے ہیں۔ ستمبر کے مہینے میں 51شہری صرف فائرنگ کے واقعات میں مارے گئے، 1542موبائل فون چھینے گئے، 199گاڑیاں چوری یا چھینی گئیں اور 3698موٹرسائیکلیں ڈاکوں کے نشانے پر آئیں، مگر یہ اعداد و شمار محکمہ شماریات کی رپورٹس میں نہیں بلکہ ہر گلی کے باشندے کے دل پر کندہ ہیں۔ مئی میں 47شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جون میں اس تعداد میں اضافہ ہوا اور جولائی تک 48ہو گئی، اور اکتوبر میں یہ خوف ناک تعداد 67کو چھو گئی۔
یہ تمام اعداد و شمار اس حقیقت کی عکاسی ہیں کہ کراچی نہ تو پولیس کے دفتر میں، نہ ہی سرکاری دفاتر کی دیواروں پر محفوظ ہے۔ کراچی کے قاتل نہیں رکتے، چاہے عدالتی پولیسنگ ہو یا نگران فورس۔ 17سال سے سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت، شہر کی ترقیاتی منصوبہ بندی، پانی کی فراہمی اور سڑکوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ شہری تحفظ کا بڑا دعویٰ کرتی رہی ہے، لیکن ان دعوں کے پیچھے صرف کاغذی اعداد و شمار ہیں۔ عوام کے تجربے میں روزانہ دو سے تین بے قصور شہری گولیاں کھا کر پتھر کے سینے پر دم توڑ دیتے ہیں، بچوں کی مائوں کی چیخیں سسمی ہوئی ہیں، اور کاروباری افراد کے لہو سے زمیں رنگین ہے۔ منشیات کی دھندہ بازی نے اس شہر کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آئس، چرس اور کوکین کی سمگلنگ نے نوجوانوں کو جرائم کی برائی میں دھکیلا ہے جبکہ عدالتوں میں مقدمات کے لمبے انتظار نے مجرموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ملزمان ضمانت پر ضمانت لیکر واپس میدان عمل میں آجاتے ہیں، کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ قاتل کون ہے اور نشانے پر کون ہوگا۔ عدالتوں کے بیک لاگ میں پھنسے کیسز کی بدولت قانون ایک کاغذی شیر بن کر رہ گیا ہے۔
کیا کراچی اب کوئی ایسا شہر رہا جہاں روزانہ اوسطاً 126موبائل فون چھینے جائیں، 6گاڑیاں چوری ہوں اور 31موٹر سائیکلیں ڈاکوئوں کے ہاتھ لگیں؟ یہ واقعات ہماری بقا کو لرزا دینے کے لیے کافی ہیں، اسی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں بند ہوکر بے بسی کی نیند سوتے ہیں۔ جن چہروں اور دلوں میں کبھی اس شہر کے لیے محبت اور امید بھری تھی، آج وہیں مست اور پریشانی دونوں کا طوفان ہے۔ شہریوں کا رد عمل بھی خوفزدہ ہے۔ پولیس تھانے میں پہنچ کر رپورٹ درج کرانے والا شہری عموماً واپس لوٹتے ہوئے اپنی غیر حاضری کے احساس سے لبریز ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی شکایت کا اندراج محض رپورٹس کے نمبر بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں، کوئی حقیقی تفتیش یا کارروائی نہ ہونی کے برابر ہوتی ہے۔ کراچی کا کوئی محلہ، کوئی مارکیٹ، کوئی معاشی سرگرمی ایسی نہیں رہ گئی جہاں ڈاکوئوں نے اپنا جال نہ بچھایا ہو۔ ان دنوں کراچی کے لوگ صبح اٹھ کر اس دعا کے ساتھ بستر چھوڑتے ہیں کہ آج کا دن زندہ سلامت گزر جائے۔
ایمرجنسی ریسپانس سروس، پولیس اور عدلیہ کے مساموں سے رندوق نکلتی ہے جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ ساتھی شہری اپنے زخمی ہم وطن کو ایمرجنسی گاڑی کی منتظر آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ کبھی تو فون کال ہی نہ لیں، کبھی اوقات ایسے نکالیں کہ مریض اس عالم میں ہسپتال پہنچے کہ واپس نہ آئے۔ اگر ہمارے پاس واقعی کوئی موثر انسداد ڈکیتی حکمت عملی ہوتی، تو حافظ قرآن نور عالم جیسے انمول جذبوں کو موت کی وادی میں دفنانے کی زحمت نہ ہوتی ۔ ہر واقعے کے بعد تھانہ انچارج تبدیل ہوتا، ایس ایچ اوز کی تنزلی ہوتی، بیوروکریسی اپنے عہدوں پر ہاتھ دھو کر سکوت اختیار کرتی، لیکن سڑکوں پر خون رکا نہیں۔ یہ خون بہہ بہہ کر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا یہ کراچی ہے؟ کیا یہ وہ شہر ہے جسے کبھی ’’ محبتوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا؟
حافظ نور عالم اب اپنے رب کے گھر پہنچ گئے، لیکن ان کی لاش بتاتی ہے کہ کراچی کے باشندے ابھی تک اس ایسی فضا میں سانس لے رہے ہیں جس میں دہشت گردی، نااہلی اور بے حسی کا ملی جلی پودا گرواں ہے۔ یہ پودا ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو رسوا کرتا ہے، ہر پھول اور پتّی کے ساتھ ہماری انسانیت کا خون کھینچ کر لے جاتا ہے۔ کراچی والوں کو چاہیے کہ وہ اس قیامت خیزی کا نوٹس لیں، اپنے خوابوں اور امیدوں کے دیے جلائیں، اور ایک ایسی اجتماعی بیداری کے دیولے روشن کریں جس سے یہ شہر ایک بار پھر اپنے حقیقی چہرے کی روشنی میں آباد ہو سکے۔

جواب دیں

Back to top button