Column

سونے کی لنکا اور جدید ’’ راون‘‘

حرفِ جاوید
سونے کی لنکا اور جدید ’’ راون‘‘
تحریر : جاوید اقبال
دنیا کی سیاست میں ایسے کئی حکمران گزرے ہیں جنہوں نے اپنے عہد میں بلند بانگ دعوے کیے، خوابوں کے ایسے محل تعمیر کیے جو بظاہر شاندار اور ناقابلِ تسخیر دکھائی دیتے تھے، مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ محلات دراصل ریت کی دیواروں پر کھڑے تھے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی ان حکمرانوں کی فہرست میں شامل نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے ’’ نیو انڈیا‘‘ کا جو نعرہ دیا تھا، اُس کے پس منظر میں عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت اب نہ صرف ایک معاشی سپر پاور بننے جا رہا ہے بلکہ ایک ایسی جمہوریت بھی بنے گا جو دنیا کے لیے مثال ہوگی۔ مگر آج دس برس گزرنے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کی کارکردگی نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
مودی حکومت کی سب سے بڑی کمزوری اُس کی معاشی پالیسیوں میں نظر آتی ہے۔ ’’ میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ لگا کر انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت اپنی پیداوار بڑھائے گا اور دنیا کے لیے ایک صنعتی مرکز بنے گا۔ لیکن اعداد و شمار اور زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بھارت کی مقامی صنعت کمزور ہو چکی ہے، روزگار کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ کانگریس رہنما اُدت راج کا یہ کہنا بالکل بے جا نہیں کہ مودی نے ملک کی مینوفیکچرنگ کو نقصان پہنچایا اور بھارت کو چین جیسے ممالک پر مزید انحصار کی طرف دھکیل دیا۔ آج بھارت اپنی معیشت کو خود کفیل بنانے کے بجائے درآمدی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے جس نے عام شہری کے کچن سے لے کر نوجوان کے روزگار تک ہر دروازے پر مایوسی کے سائے ڈال دئیے ہیں۔
معاشی میدان میں اس ناکامی کے ساتھ ساتھ مودی حکومت سیاسی سطح پر بھی اپنے ملک کے اندرونی ڈھانچے کو کمزور کر رہی ہے۔ جمہوریت جس پر بھارت ہمیشہ فخر کرتا رہا، آج اُس کے اپنے شہری سوال اٹھا رہے ہیں۔ اپوزیشن پر دبائو، عدلیہ پر اثر اندازی کے الزامات، میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کی کوششیں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نے بھارت کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ خود بھارتی دانشور اور صحافی یہ و لکھنے پر مجبور ہیں کہ مودی کے دور میں بھارت ایک متوازن جمہوریت سے زیادہ ایک اکثریتی آمریت کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ حقیقت بھارت کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ جمہوریت کی روح عوام کی شمولیت اور اداروں کی خودمختاری میں پوشیدہ ہے، اور جب یہ دونوں کمزور ہوں تو ریاست کا وجود ایک شخص کے سائے میں سکڑ کر رہ جاتا ہے۔
مودی کی پالیسیوں کا ایک اور اہم پہلو بھارت کے بین الاقوامی تعلقات ہیں، خاص طور پر پاکستان اور چین کے ساتھ۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں مگر مودی کے دور میں تلخی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ سرحدی کشیدگی ہو یا سفارتی سطح پر تنا، دونوں ممالک کے تعلقات مسلسل زوال پذیر ہیں۔ یہ کشیدگی نہ صرف خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ بھارت کی سفارتی تنہائی میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ دوسری طرف چین کے ساتھ تعلقات کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ لداخ اور گلوان وادی کے واقعات نے دنیا کو دکھا دیا کہ بھارت کی فوجی اور سفارتی پوزیشن کتنی کمزور ہے۔ چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی معاشی وابستگی نے بھارت کو مزید بے بس کر دیا ہے۔ ایک طرف مودی حکومت قوم پرستی کے نعرے لگاتی ہے، دوسری طرف چین سے درآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ تضاد مودی حکومت کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو مودی حکومت کی کمزوریاں دراصل بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ خطے کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی اور مسلسل کشیدگی نے نہ صرف امن کے امکانات کو محدود کر دیا ہے بلکہ خطے میں معاشی تعاون اور ترقی کے دروازے بھی بند کر دئیے ہیں۔ اگر مودی حکومت نے اپنی پالیسیوں میں حقیقت پسندی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی تو بھارت کی داخلی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ وہ خطے کا امن بھی دائو پر لگا رہے گا۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ خطے میں امن اور تعاون پر مبنی رہی ہے، لیکن اس کے جواب میں اگر بھارت نفرت اور طاقت کے زعم پر اصرار کرے گا تو تاریخ مودی کو ایک ایسے کردار کے طور پر یاد کرے گی جس نے نہ صرف اپنے عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلا بلکہ خطے کے امن کے امکانات کو بھی جلا ڈالا۔
عالمی سطح پر بھی بھارت کی ساکھ ماضی جیسی نہیں رہی۔ مودی نے اپنی ن (Soft Power)کو مضبوط کرنے کے لیے بیرونِ ملک لابنگ پر بے پناہ سرمایہ خرچ کیا، مگر نتائج توقعات کے برعکس نکلے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقلیتوں کے خلاف اقدامات اور میڈیا پر قدغنوں نے بھارت کی تصویر کو داغدار کر دیا۔ یورپی یونین سے لے کر امریکہ تک، مختلف ادارے اور تھنک ٹینک بھارت کی جمہوری کمزوریوں پر رپورٹیں شائع کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک جن کے ساتھ بھارت نے معاشی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی، وہ بھی وقتاً فوقتاً بھارت کی داخلی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت کی عالمی ساکھ ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں دعوے زیادہ اور حقیقت کم ہے۔یہ سب حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مودی حکومت نے جس ’’ نیو انڈیا‘‘ کا خواب دکھایا تھا وہ خواب حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اُتر سکا۔ سونے کی وہ لنکا جسے جدید راون تعمیر کر رہا ہے، بظاہر شاندار ضرور لگتا ہے مگر اس کی بنیاد کھوکھلی ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ طاقت کے نشے میں بنائے گئے ایسے محلات وقت کے ایک جھونکے سے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
مودی آج بھی اپنی تقریروں میں طاقت، ترقی اور عظمت کے قصیدے پڑھتے ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے غریب اور متوسط طبقے کے مسائل حل نہیں ہوئے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا، کسان بدحالی کا شکار ہیں، اور خطے میں بھارت کی سفارتی حیثیت مزید کمزور ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کی حکومت اب اندرونِ ملک بھی عوامی اعتماد کے بحران کا شکار ہے اور عالمی سطح پر بھی تنقیدی نگاہوں کا مرکز۔
وقت شاید زیادہ دور نہیں جب بھارت کے عوام یہ سوال کریں گے کہ آیا اُنہیں وعدوں اور نعروں پر یقین کرنا چاہیے یا زمینی حقائق کی بنیاد پر اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ مودی کو جدید دور کا ’’ راون‘‘ قرار دینا محض ایک سیاسی الزام نہیں، بلکہ یہ اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ طاقت کے غرور اور پالیسیوں کی ناکامی ایک حکمران کو کس طرح تاریخ کے صفحوں پر منفی کردار بنا دیتی ہے۔ آج بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس کھوکھلے خواب سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھے اور اپنی پالیسیوں کو عوامی فلاح، علاقائی امن اور عالمی اعتماد کی بنیاد پر استوار کرے۔
ورنہ وہ دن دور نہیں جب مودی حکومت کا سارا بیانیہ ایک ایسے افسانے کی طرح یاد کیا جائے گا جس میں وعدے بہت تھے مگر حقیقت ریت کی دیوار سے زیادہ مضبوط نہ تھی۔

جواب دیں

Back to top button