خود سوزی نہیں خود سازی
خود سوزی نہیں خود سازی
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کا عمل خُود کُشی(suicide)کہلاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ دماغی خرابی کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جو بیماری کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔ بیماری بھی دراصل دماغی توازن درہم برہم کر دیتی ہے اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں کا تعلق بھی دماغ کے عدم توازن ہی سے ہوتا ہے۔ سرطان کے مریض بہت کم خود کشی کرتے ہیں۔ لیکن سوء ہضم کے مریض اپنے تئیں سرطان کا مریض سمجھ کر خود کشی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
خود کشی کی بڑی وجہ معاشی پریشانی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر رد کیے جانے کا غم بھی کچھ کم نہیں ہوتا ۔ یہ بھی خود کشی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب تقابل کر کر کے کسی کو کمتر اور نا اہل ثابت کیا جاتا ہے تو وہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور پھر۔۔۔
محبت میں ناکامی بھی بعض اوقات خود کشی کی وجہ بن جاتی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ خود کشی کی وجہ ڈپریشن ہوتا ہے ، خواہ بھی کسی بھی وجہ سے ہو۔ مردوں میں عمر کے ساتھ خودکشی کی شرح بڑھتی جاتی ہے لیکن عورتوں میں پچیس برس کی عمر کے بعد خود کشی کرنے کا رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ عورتوں کے مقابلے میں مرد اور سیاہ فام کے مقابلے میں سفید فام لوگ زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہیں۔
جاپان میں خودکشی کو ایک مقدس اور بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا ذرا سی بات پر ’’ ہتک عزت، کاروبار، نقصان، عشق میں ناکامی ‘‘ پر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔
استاد من مظہر کلیم ایم اے نے اسی حوالے سے ’’ ہارا کاری ‘‘ کے نام سے ایک شان دار ناول بھی لکھا تھا۔ دنیا میں خود کشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خودکشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی جان لیتے ہیں۔ یہ 15سے 29سال کے جوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔70سے زائد عمر کے افراد کا اپنی جان لینے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
خودکشی کرنے والوں میں سے ایک تہائی کا تعلق کم آمدن والے طبقے سے تھا۔ امیر ممالک میں خودکشی سے مردوں کی اموات خواتین کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ دماغی صحت کے مسائل سے جڑے معاشرتی داغ کی وجہ سے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جس کی وجہ وہ خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے ہالی وڈ کے اداکار روبن ویلیمز کی موت کی تفصیلات کو رپورٹ کرنے کی طرح خودکشی کے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ برطانیہ میں خودکشی کے خلاف مہم چلانے والے جانی بینجامن نے بی بی سی کو بتایا کہ میرے خیال میں خودکشی کے بارے میں زیادہ آگاہی ہونی چاہیے اور لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ وہ خودکشی کا سوچنے والے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آئیں۔ علیم ترین کی ناگہانی موت کے بعد سوشل میڈیا پر ردعمل زیادہ تر مذہبی نکتہ نظر سے خودکشی کی سزا کے اردگرد گھومتا رہا۔ چنانچہ وفات پا جانے والے پر ایک ایسے گنہگار کا لیبل لگا دیا گیا، جس کا نصیب صرف جہنم کا غیض و غضب تھا۔ اس قسم کے تبصروں کو دیکھنے کے بعد اور بطور ماہر نفسیات میں مجبور ہوئی ہوں کہ ان نفسیاتی محرکات کی نشان دہی کروں جو کسی شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
عموماً خودکشی کی وجوہات بیان کرتے وقت سادہ تشریحات کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسے کہ اس شخص کا ایمان کمزور تھا یا وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی تھا۔ ان تشریحات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر واقعات میں خودکشی کا فیصلہ ایمان اور صبر یا جذباتی پختگی میں پڑنے والی دراڑوں کی وجہ سے راتوں رات نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک طویل عمل ہے جس میں انسان ایک عرصے تک اذیت میں رہتا ہے، وہ لطف، مسرت اور امید کو اپنی زندگی سے دھیرے دھیرے رخصت ہوتے دیکھتا رہتا ہے اور روزانہ مرتا رہتا ہے۔ تنہائی میں ایک طویل عرصے تک اذیتوں سے لڑتا یہ شخص آخرکار ایک دن خودکشی کی شکل میں زندگی کے خلاف ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیتا ہے۔
ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض انسان کی سوچ اور عمل کے زاویوں کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈپریشن میں مبتلا شخص کا اپنے، دوسروں کے اور دنیا کے متعلق نکتہ نظر منفی ہونے لگتا ہے۔ اس میں ڈپریشن کی دوسری علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں، ان میں اداسی یا خلا کا احساس، قنوطیت پسندی، مایوسی، بے وقعتی کا احساس، لڑکھڑاتا اعتماد اور کمزور پڑتا حوصلہ شامل ہیں، جو اس شخص پر ناامیدی اور بے بسی کی ایک مستقل کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کی جسمانی علامات جیسے تھکن، جسم میں درد، ٹوٹی پھوٹی نیند، بھوک اور جنسی خواہش میں کمی بھی اس پر طاری ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اس شخص کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی متاثر ہونے لگتی ہیں، وہ کسی ایک چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتا، اس کی یادداشت متاثر ہوتی ہے، اس کی قوت فیصلہ کمزور پڑ جاتی ہے۔ یہ تمام وجوہات اس کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
کمزور قوت فیصلہ اس بیماری کا اہم جزو ہے، جس کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلا شخص غلط فیصلے اور غلط چنا کرنے لگتا ہے۔ ڈپریشن کی وجہ سے ہونے والی خودکشی دراصل کمزور قوت فیصلہ، ناامیدی اور منفی طرز فکر کے مجموعی نتائج کے سبب ہوتی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے متاثرہ شخص اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیتا ہے کہ زندگی کے مسائل اور مشکلات کا واحد حل زندگی کا ہی خاتمہ کر دینے میں مضمر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈپریشن کی وجہ سے ہونے والی خودکشیوں کو روکا جا سکتا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد، کمیونٹی اور ریاست، تینوں سطح پر بچائو کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ بطور ایک فرد ہمیں ہر وقت مستعد رہنا چاہیے کہ ہماری فیملی یا قریبی سماجی دائرے میں کسی شخص میں شدید ڈپریشن کی علامات تو ظاہر نہیں ہو رہیں۔ یہ اشد ضروری ہے کہ ہم اس شخص سے رابطے میں رہیں، اس کا سہارا بنیں اور ساتھ دیں، نا کہ اسے تنہائی کا شکار ہونے اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے کے لیے چھوڑ دیں۔
موبائل فون، ریڈیو اور ٹی وی کے پھیلائو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر مینٹل ہیلتھ یا دماغی صحت سے متعلق آگاہی مہم چلانا انتہائی موثر ثابت ہوتا ہے۔ سہل الحصول اور معیاری ہیلتھ سروسز میں اضافہ ذہنی بیماریوں، جن میں ڈپریشن بھی شامل ہے، کی بروقت تشخیص اور علاج پر منتج ہوتا ہے اور یہ خودکشیوں کو روکنے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ مزید برآں، جس طرح دیگر میڈیکل ایمرجنسی اور ریسکیو سروسز موجود ہیں، اسی طرح خودکشی سے بچائو کی ہیلپ لائنز متعارف کرانے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ ہیلپ لائنز عموماً خودکشی کی طرف مائل لوگوں کی خودکشی کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
آخر میں ایک انتہائی اہم بات ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں جو خودکشی کی خبروں پر سخت اور بے حس قسم کے تبصرے کرتے ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا خودکشی جیسے انتہائی قدم پر مجبور کرنے والے حالات پر غور کیے بغیر ایک مرے ہوئے شخص کو تنہا قصوروار ٹھہرانا ایک صائب عمل ہے؟۔
میرے دوست صدیق علی خان کے بقول ’’ اپنی صلاحیتوں کو دفن کر دینا، خوابوں کو ترک کر دینا اور گھٹ گھٹ کر جینا بھی تو ایک خاموش خود سوزی ہی ہے‘‘۔
زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی پہچان بنائے، اپنی قوت کو بروئے کار لائے اور اپنی ہستی کو جلنے کے بجائے روشن کرے ۔ ہمارا معاشرہ جس تندہی سے لوگوں کو ڈپریشن کا مریض بنا دیتا ہے ۔ کھلی تنقید کر کے کسی کی شخصیت کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے ، اس کا وقار گرا دیتا ہے ، اس سرگرمی سے اسے اٹھاتا نہیں ہے ۔
میرا سوال ہے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ کیا صرف اسے گرانا ہی آتا ہے۔ ساتھ دینا، حوصلہ بڑھانا ، شاباشی دینا کیوں نہیں آتا ؟؟؟؟
اس سوال کا جواب کون دے گا ؟؟
اس پوری تحریر کو ایک جملے میں بیان کروں تو کہا جا سکتا ہے’’ جو لوگ خود سازی نہیں کرتے ، خود سوزی کرتے ہیں ‘‘۔
اب ضروری نہیں ہے کہ اسے خود کشی پر ہی محمول کیا جائے، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لانا اور گھٹ گھٹ کر جینا بھی تو خود سوزی ہی ہے ۔
آخر میں ایک افسانچہ پیش خدمت ہے۔ ایسے کردار آپ کو اپنے اردگرد عام ملتے ہیں ۔
پاگل
افسانچہ
صفدر علی حیدری ۔۔۔
’’ ارشد ۔۔ ارشد ۔۔۔ ارشد ‘‘ اس نے میرا کندھا ہلا ڈالا
’’ کیا ہے یار، کیوں کان کھاتے ہو ‘‘ میں نے ناگواری سے کہا
میں تمہیں پاگل دکھائوں، تم بھی کیا یاد کرو گے، اس کے لہجے میں جوش تھا۔
میں نے اس کی آنکھوں کا تعاقب کیا ’’ ارے یہ ۔۔ یہ تو ۔۔۔۔۔ بھولا ہے ۔ پاگل تو نہیں‘‘ ۔۔۔
’’ چپ ۔۔ چپ رہو ‘‘ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا
’’ اوئے پاگل۔۔ کہاں جا رہے ہو‘‘۔۔۔
نماز پڑھنے ۔۔ مگر میں پاگل نہیں ہوں، تم پاگل ہو۔ بالکل پاگل ۔۔ نرے بدھو
’’ مم ۔۔۔ میں۔۔ پاگل نہیں ہوں‘‘ وہ ہاتھ جھٹکتا ہوا منہ بگاڑ کر بولا۔
وہ بھولا تھا۔ سیدھا سادا سا اللہ لوک۔ بچے اسے تنگ کرتے تھے۔ وہ چڑتا ضرور تھا مگر کسی کو کہتا کچھ نہیں تھا۔ اب اس نے گھر سے نکلنا کم دیا تھا۔ بس نماز کے لیے گھر سے باہر آتا تھا۔ یا کبھی کوئی سودا سلف لینا ہوتا تب۔
’’ تم پاگل ہو، پاگل کے بچے‘‘
’’ مجھے پاگل مت کہو۔ مت کہو مجھے پاگل ورنہ ‘‘۔۔
’’ ورنہ ۔۔۔ ورنہ کیا کر لو گے ؟‘‘
’’ میں تمہارا سر پھاڑ دوں گا ‘‘بھولے نے اینٹ اٹھا لی تھی ۔ میں بھاگ کر گیا اور اس کے ہاتھ سے اینٹ چھین لی۔ وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
’’ کہا تھا پاگل ہے۔ ثابت ہو گیا ناں آج ‘‘وہ ہنسا۔
’’ ہاں واقعی میں نے آج پاگل دیکھ لیا ہے ‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
فلوٹیلا مشن: فلسطین کی اُمید، قربانی اور مزاحمت کا استعارہ
ڈاکٹر اے اے جان
مقدمہ: دُنیا کی تاریخ قربانی اور مزاحمت کے باب کے بغیر ادھوری ہے۔ ظلم و جبر ہمیشہ طاقتوروں کی پہچان رہا ہے، لیکن اس کے مقابل انسانیت کی ایک اور کہانی بھی جنم لیتی ہے، قربانی اور انصاف کیلئے جدوجہد کی کہانی۔ فلسطین اس باب کا سب سے روشن اور دردناک حوالہ ہے۔ غزہ کی تنگ گلیوں، مقبوضہ بیت المقدس کی فضائوں اور دریائے اردن کے کناروں پر ظلم کی جو داستانیں لکھی گئیں، وہ انسانی تاریخ کے بدن پر ایک ناسور کی مانند ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ قربانی، صبر اور امید کی روشن مثالیں بھی اسی دھرتی پر نظر آتی ہیں۔ فلوٹیلا مشن انہی مثالوں میں سے ایک ہے۔ یہ قافلہ محض جہازوں اور امدادی سامان کا نام نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ایک صدا تھی، ظلم کے اندھیروں میں جلتا ہوا چراغ تھا، اور محکوم قوموں کیلئے ایک پیغام تھا کہ حق کی خاطر لڑنا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
حصہ اوّل: فلسطین کا تاریخی پس منظر: 1917ء کے بالفور ڈیکلریشن سے شروع ہونیوالا فلسطینی المیہ آج تک جاری ہے۔ برطانوی حکومت نے یہودی قوم کو فلسطین میں ایک ’’ قومی گھر‘‘ دینے کا وعدہ کیا، جبکہ وہاں صدیوں سے عرب مسلمان اور عیسائی آباد تھے۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی لاکھوں فلسطینی اپنے ہی گھروں سے بے دخل کر دئیے گئے، اس دن کو فلسطینی ’’ نکبہ‘‘ یعنی عظیم تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے آج تک فلسطینی عوام اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے طاقت، ہتھیار اور عالمی سیاست کو اپنے حق میں استعمال کیا، جبکہ فلسطینی عوام نے مزاحمت، صبر اور قربانی کو اپنا ہتھیار بنایا۔
بقول فیض احمد فیض:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
حصہ دوم: غزہ کا محاصرہ: غزہ کی پٹی دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ کہلاتی ہے۔ تقریباً دو ملین لوگ محصور، جنہیں خوراک، پانی، دوا اور حتیٰ کہ تعلیم و روزگار کے مواقع سے بھی محروم رکھا گیا۔ اسرائیل نے سمندری، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس محاصرے نے بچوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیں۔ بیمار علاج کے بغیر مر گئے۔ نوجوانوں کو روزگار نہ ملا۔ عورتیں اور بزرگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ اس ظلم نے دنیا کے ضمیر کو کئی بار جھنجھوڑا، لیکن عالمی طاقتوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دی۔
یہ جو ظلم سہتے ہیں روز و شب
یہ ہمارے زمانے کے لوگ ہیں
حصہ سوم: فلوٹیلا مشن کا آغاز: 2010ء میں ترکی کی ایک تنظیم IHH( فائونڈیشن فار ہیومن رائٹس اینڈ فریڈمز) نے فیصلہ کیا کہ غزہ کے عوام تک سمندر کے راستے امداد پہنچائی جائے، اس مشن میں چھ جہاز شامل تھے جن پر خوراک، ادویات، طبی سامان اور تعمیراتی وسائل موجود تھے۔ یہ قافلہ صرف ترک شہریوں تک محدود نہ تھا۔ اس میں برطانیہ، امریکا، جرمنی، پاکستان، ملائیشیا، الجزائر اور دیگر ممالک کے کارکن شامل تھے۔ ڈاکٹر، صحافی، وکلائاور عام انسان دوست افراد، سب ایک آواز میں کہہ رہے تھے کہ: ’’ غزہ کا محاصرہ ختم کرو، انسانیت کو زندہ رہنے دو!‘‘
ظلم کے ضابطے، کوڑوں کی بارشیں
کوئے دار و رسن، قید کی سختیاں
سب گوارا ہمیں، سب منظور ہیں
بس کہ آزادی کا وہ سورج طلوع ہو
حصہ چہارم: ماوی مرمرہ کا سانحہ:31مئی 2010ء کی رات اسرائیلی افواج نے ’’ ماوی مرمرہ‘‘ جہاز پر حملہ کیا۔ ہیلی کاپٹروں اور کمانڈوز کے ذریعے یہ کارروائی کی گئی۔ غیر مسلح کارکنوں پر گولیاں برسائی گئیں، جس کے نتیجے میں دس کارکن شہید اور کئی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ بین الاقوامی پانیوں میں ہوا، جس سے اسرائیل کا غیر قانونی اور غیر انسانی رویہ پوری دنیا کے سامنے بی نقاب ہوا لیکن یہ خون رائیگاں نہیں گیا۔ شہداء کی قربانی نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر کر دیا۔
قتل گاہوں سے چن کے ہمارے علم
اور نکلیں گے عَشّاق کے قافلے
حصہ پنجم: عالمی ردِعمل: اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔
ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دئیے۔
یورپ اور امریکا کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
اقوام متحدہ نے اسرائیل کی کارروائی کو ’’ ناقابلِ قبول‘‘ قرار دیا۔
عوامی سطح پر بھی فلسطین کے حق میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا انسانی حقوق صرف طاقتور اقوام کیلئے ہیں؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟
بقول احمد فراز
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
حصہ ششم: فلوٹیلا کے بعد کے قافلے: فلوٹیلا مشن کے بعد کئی اور قافلے روانہ ہوئے۔ اگرچہ اسرائیل نے سب پر پابندی لگائی، لیکن یہ تحریک رک نہ سکی۔ دنیا کے مختلف خطوں سے لوگ امداد لیکر نکلے، کبھی ترکی سے، کبھی یورپ سے، کبھی افریقہ سے۔ یہ قافلے دراصل ایک اعلان تھے کہ غزہ کے لوگ اکیلے نہیں ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں ایسے دل موجود ہیں جو ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔
بقول محسن نقوی
میں جس کے عشق میں برباد ہو گیا محسن
وہ اجنبی بھی میرا ہم سفر نکلے گا
حصہ ہفتم: پاکستان اور عالمِ اسلام کا ردِعمل: پاکستان میں فلوٹیلا مشن کی خبر بجلی کی طرح پھیلی، عوام نے مظاہرے کیے، اخبارات میں اداریے لکھے گئے، شعرا نے فلسطین کے حق میں کلام کہا۔ عالم اسلام میں ترکی کو ایک رہنما کی حیثیت حاصل ہوئی کیونکہ اس نے سب سے جرات مندانہ موقف اپنایا تاہم کئی مسلم ممالک نے صرف رسمی بیانات تک خود کو محدود رکھا۔ یہی منافقت آج بھی امت مسلمہ کے زخموں کو اور گہرا کرتی ہے۔
جیسا کہ حبیب جالب نے کہا:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کے چلے
وہ جو سایہ عام بن کے چلے
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
حصہ ہشتم: ادبی معنویت اور فلسطین: ادب ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتا ہے۔ فلسطین پر دنیا کے کئی شعرا نے کلام لکھا۔ فیض کی نظمیں، جالب کے انقلابی اشعار، محسن نقوی کی قربانی کی تصویریں، اور مظفر وارثی کی دعائیں، سب فلسطین کی جدوجہد کے استعارے ہیں۔ فلسطین دراصل ظلم کیخلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ جب بھی دنیا میں کوئی محکوم قوم آزادی کی بات کرتی ہے، وہ فلسطین کو اپنی تحریک کا حصہ سمجھتی ہے۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
حصہ نہم: انسانی ضمیر کا امتحان: فلوٹیلا مشن نے دنیا کو یاد دلایا کہ انسانی حقوق کا مطلب صرف مغربی دنیا نہیں۔ فلسطینی بھی انسان ہیں، ان کے بھی خواب ہیں، ان کے بھی بچے ہیں لیکن عالمی طاقتوں کی منافقت عیاں ہوئی۔ ایک طرف وہ انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، دوسری طرف اسرائیل کے ظلم پر خاموش رہتے ہیں۔ یہ دوغلا پن دراصل انسانیت کے ضمیر پر ایک دھبہ ہے۔
مظفر وارثی کہتے ہیں:
ستمگر کو خود اپنے ظلم کا حساب دینا ہے
یہ دنیا فانی ہے، یہ دن بھی بدلنے ہیں
حصہ دہم: فلسفیانہ پہلو اور مستقبل کی اُمید: فلوٹیلا مشن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اندھیروں میں بھی اگر کوئی چراغ جلایا جائے تو وہ روشنی ضرور پھیلاتا ہے۔ ظلم وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے، مگر ہمیشہ کیلئے نہیں۔ فلسطین کی آزادی آج نہیں تو کل ضرور ہوگی کیونکہ دنیا میں ہمیشہ حق غالب آتا ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی قرآن کا پیغام ہے، اور یہی انسانی ضمیر کی آواز ہے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اختتامیہ: فلوٹیلا مشن قربانی، انسانیت اور امید کا استعارہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ظلم کے سامنے سر جھکانا بزدلی ہے اور مظلوم کی مدد کرنا انسانیت کی اصل پہچان۔ فلسطین کے معصوم بچے آج بھی امید کی نگاہ سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ قافلہ رکا نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک اور ایک تاریخ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ظلمت کو جلا ڈالیں گے، ہم لوگ وفا ڈالیں گے
اس ظلم کے اندھیروں میں، اُمید کا دیا ڈالیں گے







