
جگائے گا کون؟
اتحادیوں کی لڑائی، مریم نواز کی پذیرائی
تحریر: سی ایم رضوان
سیاست کے لغوی معنی ہیں عوام سے متعلقہ معاملات۔ یعنی عوام الناس کی رائے، حمایت اور خیالات کے بغیر نہ تو سیاست کے مقاصد پورے ہوتے ہیں اور نہ ہی سیاست کا اصل نصب العین حاصل ہوتا ہے۔ اگر پنجاب کی موجودہ سیاست اور عوامی رحجانات پر بات کی جائے تو یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ اس صوبہ کے عوام اپنی وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پر مطمئن ہیں۔ یہاں تک کہ وہ سٹریٹ سنگر جو مسلم لیگ ن کے سخت ترین ناقد تھے وہ بھی یہ امر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نہ صرف شب و روز محنت کر رہی ہیں بلکہ وہ تمام تر فنڈز صوبہ کے عوام پر لگا رہی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے ایک تاجر رہنما دوست عمران الحق جو کہ لاہور مصری شاہ کی مارکیٹ میں شافٹ ڈیلر ہیں اور شافٹ کی ایک بڑی آڑھت کے مالک ہیں نے بتایا کہ ان کا روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لوگوں سے رابطہ رہتا ہے اور لوگوں کے بے ساختہ خیالات سے آگاہی ہوتی ہے انہوں عوام الناس کی مجموعی آرا کی روشنی میں یہ قرار دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی مقبولیت پچھلے ایک سال کے عرصہ میں عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ جو لوگ آٹھ فروری کے نتائج سے مایوس ہو کر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے انتخاب پر سیخ پا ہو گئے تھے وہ بھی اب تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا انتخاب پنجاب کے عوام کے حق میں بہتر ثابت ہوا ہے۔ البتہ عمران الحق کا کہنا ہے کہ وفاق کے دو بڑے اتحادیوں کے درمیان ان دنوں جو نوک جھونک چل رہی ہے وہ ان دونوں جماعتوں کے لئے فی الحال تو اتنی نقصان دہ اور مخدوش نہیں البتہ آنے والے دنوں میں اگر اس لڑائی میں مزید تیزی اور تندی ا گئی تو پھر نقصان ان دونوں پارٹیوں کا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیروں اور ترجمانوں کی جانب سے پنجاب کے معاملات میں دخل در معقولات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے جوابات اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چھوٹے، چھوٹے سپیکروں پر تنقید کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ البتہ وہ صدر زرداری اور بلاول بھٹو کو اس حوالے سے استثنیٰ دے رہی ہیں۔ اس جھگڑے کی ابتدا سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے طریقہ کار پر اختلاف سے شروع ہوئی تھی پھر یہ معاملہ اب صوبوں کے درمیان پانی اور وسائل کی تقسیم کی بحث میں تبدیل ہو چکا ہے۔ عمران الحق کا کہنا تھا کہ جمعرات کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران مریم نواز شریف نے ایک بار پھر استدلال دیا تھا کہ ملک کے تمام صوبوں کو یکساں وسائل میسر ہیں مگر فرق یہ ہے کہ پنجاب کے وسائل اِس کے عوام پر لگتے ہیں مگر باقی صوبوں کو ملنے والا پیسہ کہاں جاتا ہے؟ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ وہ پنجاب کے عوام کے حقوق کے لئے بات کرتی رہیں گی اور اس کے لئے کسی سے معافی نہیں مانگیں گی۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد کے لئے عالمی امداد کی اپیل کرنے سمیت متاثرین کی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی معاونت کرنے پر زور دیا تھا، جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اصرار ہے کہ پنجاب حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گی۔ یہ سب انہوں نے اس لئے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے مختلف تجاویز دی گئی تھیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تجویز دی تھی کہ سیلاب زدگان کی مدد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کی جائے۔ تاہم مریم نواز شریف نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر مسئلے کا حل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں اور یہ بھی کہ وہ پنجاب میں سروے کروائیں گی اور ہر متاثرہ خاندان کو 10لاکھ روپے تک دیئے جائیں گے۔ مریم نواز نے پیپلز پارٹی کی تجویز کو پنجاب کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ اس پر پیپلز پارٹی کے رہنماں کا دعویٰ تھا کہ پنجاب میں ’’ فوٹو سیشن‘‘ کے علاوہ سیلاب زدگان کے لئے کچھ نہیں ہو رہا۔ دو روز قبل فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ ذاتی تنقید پر خاموش رہیں گی، تاہم پنجاب کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ مریم نواز نے چولستان میں نہریں نکالنے کے منصوبے کا بھی دوبارہ ذکر چھیڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ نہریں پنجاب کے پانی پر بنیں گی اور کسی کو اِس کی مخالفت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے لیکن اُنہوں نے سیلاب کے معاملے پر سیاست کی، ’’ ہم پنجاب کے عوام کی جانب اُٹھنے والی ہر اُنگلی توڑ دیں گے‘‘۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مریم نواز اس نوعیت کے بیانات دے کر مستقبل کی سیاسی صف بندی کر رہی ہیں۔
مریم نواز کے اس بیان کی گونج پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہنچ گئی تھی، جہاں وفاق میں ن لیگ کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے مریم نواز سے اپنے اس بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں اتحادی حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے مریم نواز کے بیان پر ابھی تک ان کی پارٹی اس موقف پر قائم ہے کہ جب تک معذرت نہیں کی جاتی وہ حکومت کی کسی بھی قانون سازی کی سپورٹ نہیں کریں گے۔
بدھ کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیمبر میں دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے ملاقات کی تھی، جس میں معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا مگر اس سیاسی بیان بازی کے بیچ بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ماضی میں مختلف مواقع پر اتحادی رہنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک بار پھر دُوریاں بڑھ رہی ہیں؟ کیا مریم نواز کو اپنے والد نواز شریف کی بھی آشیر باد حاصل ہے؟ کیا پیپلز پارٹی حکومتی حمایت سے پیچھے ہٹ سکتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لئے ہم نے سیاسی ماہرین اور دونوں جماعتوں کے رہنماں سے بات کی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال اور عالمی تناظر کے پیش نظر دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان کوئی بڑی دراڑ پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ عمران الحق کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اِس وقت سسٹم سے الگ تھلگ رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اسی لئے فی الحال کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ ان کے بقول اس وقت پی ٹی آئی دبی ہوئی ہے کہ اکیلی پیپلز پارٹی نہیں لڑ سکتی۔ لیکن کل کو اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی آتی ہے، جو کہ آتی رہتی ہے، تو پھر گرانڈ تیار ہو گا اور پیپلز پارٹی کے لئے مسلم لیگ ن کو چھوڑنا بھی آسان ہو گا۔ دونوں جماعتیں چونکہ صوبائی سطح پر اپنے کشیدہ معاملات طے نہیں کر پا رہیں، لہٰذا آنے والے دنوں میں اِن کے درمیان کسی حد تک گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو یہ گلہ ہے کہ اُنہیں پنجاب میں جگہ نہیں دی جا رہی ہے جبکہ اُنہیں یہ بھی پتا ہے کہ جب تک پنجاب میں اُن کی جگہ نہیں بنتی تو وہ وفاق میں نہیں آ سکتے۔ لہٰذا اگر سسٹم سے اُن کا یہ گلہ مزید بڑھ گیا تو پھر وہ اپنے کارڈ شو کریں گے۔ عمران الحق کے بقول مریم نواز یہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کو دبائیں گی تو انہیں پنجاب میں مقبولیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا معاملہ یا قومی مالیاتی ایوارڈ کی بات ہے تو یہ معاملات پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ طے کراتی ہے اور آئندہ بھی کراتی رہے گی۔ جبکہ تسلسل سے اس نوعیت کے بیانات دے کر مریم نواز مستقبل کی سیاسی پیش بندی کر رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکال کر چولستان کو آباد کرنے کا منصوبہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کا ہے، لیکن اب مریم نواز بھی اس کی کُھل کر حمایت کر رہی ہیں۔ بظاہر مریم نواز کو لگتا ہے کہ اب یہی نظام تسلسل کے ساتھ آگے بڑھے گا، لہٰذا اس نظام میں اپنی جگہ مستحکم کرنے اور پنجاب میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنے کے لئے وہ ایسے بیانات دے رہی ہیں۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی بلوچستان چولستان کینال منصوبے کی مخالف ہے، لہٰذا اس منصوبے کی حمایت کر کے مریم نواز اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات مزید بہتر بنانا چاہتی ہیں۔ واضح رہے کہ رواں برس وفاقی حکومت کے گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے اعلان کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر پانی کی تقسیم کے معاملے پر صوبوں میں اختلافات ایک بار پھر سامنے آئے تھے۔ وفاقی حکومت نے دریائے سندھ کے پانی سے نہروں کی تعمیر کے اس منصوبے کو ’’ چھ سٹریٹجک کینال‘‘ منصوبے کا نام دیا تھا۔ اس نہری منصوبے کے خلاف سب سے زیادہ آواز صوبہ سندھ سے اٹھائی گئی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس کی کُھل کر مخالفت کی تھی۔ بعد ازاں اس منصوبے کو وقتی طور پر روک دیا گیا تھا۔ این ایف سی ایوارڈ کا ذکر کرتے ہوئے عمران الحق کا کہنا تھا کہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے معاملے پر سب سے بڑا سٹیک ہولڈر پنجاب ہے۔ ان کے بقول این ایف سی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کو کچھ تحفظات ہیں، لہٰذا اس معاملے پر مریم نواز اپنے موقف کو اسٹیبلشمنٹ کے موقف سے قریب کر لیتی ہیں تو آگے چل کر اُنہیں سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی طرز سیاست ہے جو نوے کی دہائی میں نواز شریف نے اپنایا تھا۔ تاہم عوام میں مریم نواز کی پذیرائی اس لڑائی کے باوجود کم نہیں ہو پا رہی۔
.







