ColumnImtiaz Ahmad Shad

عوام معافی کے طلبگار

ذرا سوچئے
عوام معافی کے طلبگار
امتیاز احمد شاد
پاکستان کی سیاست میں اگر بیانات کو بجلی کی اکائیاں سمجھا جائے تو ہمارا نظام کبھی شارٹ سرکٹ کا شکار نہ ہو ۔ ہر روز اتنے ’’ کرنٹ والے‘‘ جملے پھینکے جاتے ہیں کہ قومی گرڈ بھی شرما جائے۔ تازہ مثال پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان وہی پرانی کشمکش ہے جسے اب ذرا نئے الفاظ میں ’’ معافی تلافی‘‘ کا رنگ دیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے حال ہی میں فرمایا ہے کہ اگر معافی تلافی کا معاملہ ہے تو سندھ حکومت کی طرف سے بہت معافیاں اُدھار ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کس چیز کی معافی مانگیں؟۔
یعنی اب سیاسی معافیاں بھی کسی مالیاتی خسارے کی طرح ’’ ادھار‘‘ چلی گئی ہیں۔ جس طرح بجلی کے بلوں، قرضوں اور اقساط کے دفتر بھرے ہوتے ہیں، شاید ایک نیا ’’ محکمہ معافی و تلافی‘‘ بھی جلد قائم ہو جائے، جہاں ایک کھڑکی پر سندھ والے اور دوسری پر پنجاب والے فارم جمع کرائیں گے۔ سیاست میں معافی ایک عجیب مظہر ہے۔ جو معافی مانگے، اسے کمزور سمجھا جاتا ہے، اور جو نہ مانگے، اسے مغرور۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں ہارنے والا بھی جیتنے والا بننے کی کوشش کرتا ہے، اور جیتنے والا بھی یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ جیت گیا ہے۔
وزیر اطلاعات کا بیان دراصل اسی سیاسی تھیٹر کا ایک منظر ہے۔ وہ تھیٹر جس میں ڈائیلاگ پہلے لکھے جاتے ہیں، جذبات بعد میں ڈالے جاتے ہیں، اور عوام ہمیشہ ’’ ایکسٹرا‘‘ کے کردار میں رہتے ہیں۔ دوسری طرف سندھ حکومت کے ترجمان اور وزراء نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت مرکز کی ترجمان بن کر صوبائی خود مختاری کو کمزور کر رہی ہے۔ یعنی ان کے مطابق پنجاب اسلام آباد کا’’ فرنچائز آفس‘‘ بن چکا ہے، جہاں ہر حکم ’’ ہیڈ کوارٹر‘‘ سے آتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ بحث صوبائی مفادات کی کم اور سیاسی برتری کی زیادہ ہے۔ بیان بازی کا یہ کھیل اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ لگتا ہے دونوں فریق کسی فٹبال میچ کے کھلاڑی نہیں بلکہ مباحثے کے پنڈال میں موجود مقرر ہیں، جہاں داد کے سکے زیادہ اور حل کے راستے کم نکلتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ساری لفظی جنگ میں عوام کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ مہنگائی آسمان پر ہے، آٹا، گھی، چینی غائب ہیں، کسان پانی کے لیے پریشان ہیں، اور شہروں میں بے روزگار نوجوان کسی’’ سیاسی روزگار‘‘ کے انتظار میں ہیں۔ لیکن ہمارے محترم وزراء بیانات کی گنتی میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام ان معافیوں سے کیا کریں؟ کیا ان سے بجلی کے بل کم ہوں گے؟ یا پٹرول سستا ہو جائے گا؟
عوام تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ صبح کی روٹی میسر ہو، شام کا چولہا جلے، اور سیاست کم از کم ان کے مسائل کے گرد گھومے، نہ کہ مخالف کے گرد۔
پنجاب اور سندھ کے درمیان یہ جنگ نئی نہیں۔ کبھی پانی کی تقسیم پر، کبھی گندم کی خریداری پر، اور کبھی انتظامی فیصلوں پر دونوں حکومتیں آمنے سامنے آتی رہی ہیں۔ یہ کشمکش کبھی اتنی سنگین نہیں ہوئی کہ وفاق ہل جائے، مگر اتنی طویل ضرور رہی کہ عوام کے کان پک گئے ہیں۔ ہر حکومت اپنے صوبے کے مفادات کی بات کرتی ہے، مگر جب عملی اقدامات کا وقت آتا ہے تو مفادات کسی اور سمت نکل جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں صوبے ایک ہی کشتی میں بیٹھے ہیں مگر پتوار مخالف سمت میں چلا رہے ہیں۔ میڈیا بھی اس سیاسی جنگ کا سب سے بڑا سہولت کار بن گیا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دن رات سیاسی تجزیے، ٹکرز اور ہیڈ لائنز چلتی ہیں۔ ’’ سندھ حکومت کا پنجاب کو کرارا جواب‘‘، ’’ پنجاب نے سندھ پر تابڑ توڑ حملہ کر دیا‘‘، گویا کوئی سرحدی جھڑپ ہو گئی ہو۔ دراصل یہ میڈیا کی ضرورت بھی ہے۔ عوام کو تفریح چاہیے، اور سیاستدان تفریح فراہم کرنے کے ماہر ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ اس ’’ نورا کشتی‘‘ کا ٹکٹ عوام کے ٹیکسوں سے خریدا جاتا ہے۔ ہماری سیاست میں سب کچھ ہے بیان، جوش، نعرہ، طنز، مگر جو چیز سب سے کم ہے، وہ ہے سیاسی بلوغت۔ کسی بھی مہذب جمہوریت میں اختلافِ رائے کو دشمنی نہیں سمجھا جاتا۔ مگر یہاں اختلاف کا مطلب ہے ’’ غداری‘‘، ’’ نااہلی‘‘، یا ’’ نافرمانی‘‘۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں اگر چاہیں تو یہ اختلاف تعمیری مکالمے میں بدل سکتا ہے۔ پانی، زراعت، صنعت اور معیشت یہ وہ شعبے ہیں جہاں دونوں صوبوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ان ایشوز پر مل بیٹھنے کی ہمت دکھائی جائے تو شاید ایک نیا باب کھل جائے، مگر افسوس، ہمارے سیاستدان ایک ہی میز پر بیٹھنے کے بجائے الگ الگ کیمروں کے سامنے آنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ یہ لڑائی واقعی ہے یا محض سیاسی تماشہ؟۔ میرا ماننا ہے کہ زیادہ تر اختلافات ’’ نوری‘‘ ہیں، یعنی روشنی دکھانے کے لیے، اندھیرا چھپانے کے لیے۔ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے بیانات کی توپیں چلائی جاتی ہیں۔ پانی کا مسئلہ ہو یا گندم کا بحران، ایک دوسرے پر الزام لگا کر وقتی ریلیف حاصل کر لیا جاتا ہے۔ لیکن نتیجہ ہمیشہ وہی نکلتا ہے، عوام کے صبر کا مزید امتحان۔ اگر اس معاملے کو ہلکے مزاح کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دو بھائی ایک ہی تھالی میں کھا رہے ہوں، مگر ہر نوالے پر لڑ رہے ہوں کہ پہلے کس نے لیا؟۔ پنجاب کہتا ہے، پہل سندھ نے کی تھی۔ سندھ کہتا ہے، پنجاب نے جواب زیادہ دیا۔ گویا یہ کھیل اب ’’ بیان بمقابلہ بیان‘‘ کا بن چکا ہے، جس کا نہ ریفری ہے نہ اصول۔ اور عوام تماشائی بن کر تالیاں بھی نہیں بجا پاتے، کیونکہ ان کے ہاتھ بجلی کے بل تھامے ہوئے ہیں۔
یہ نیا ’’ معافی کلچر‘‘ پاکستانی سیاست کا دلچسپ پہلو ہے۔ پہلے تو معافی مذہبی یا اخلاقی عمل سمجھا جاتا تھا، اب یہ سیاسی ہتھیار بن چکی ہے۔ کبھی عدالتوں میں، کبھی اسمبلی میں، کبھی میڈیا پر معافیاں مانگی بھی جاتی ہیں اور واپس بھی لی جاتی ہیں۔ پنجاب کہتا ہے، ’’ ہم کیوں معافی مانگیں؟‘‘۔ سندھ کہتا ہے، ’’ ہم نے کیا غلط کہا؟‘‘، گویا یہ معافیاں بھی کسی ’’ اقساطی اسکیم‘‘ کے تحت چل رہی ہیں۔ پہلے قسط الزام کی، پھر قسط جواب کی، اور آخر میں سود عوام ادا کرتے ہیں۔ یاد رکھیں پاکستان کے وفاقی نظام میں صوبائی ہم آہنگی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر پنجاب اور سندھ جیسی بڑی اکائیاں آپس میں محاذ آرائی میں مصروف رہیں تو وفاق کی عمارت کمزور ہو جائیگی۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، مگر تہذیب، شائستگی اور مکالمہ وہ اوزار ہیں جن سے قومیں بنتی ہیں، بگڑتی نہیں۔ یہ وقت معافی مانگنے یا دینے کا نہیں، بلکہ سنجیدگی سے سوچنے کا ہے کہ سیاست آخر کس سمت جا رہی ہے۔ مت بھولیں عوام اب صرف تماشائی نہیں رہ سکتے۔ انہیں ان بیانات سے نہیں بلکہ اقدامات سے فرق پڑتا ہے۔ سیاستدانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بیان بازی وقتی تالی تو بجوا سکتی ہے، مگر خالی پیٹوں میں روٹی نہیں ڈال سکتی۔ معافیاں ادھار ہوں یا بیانات، آخر کار حساب عوام ہی نے دینا ہے۔ اور اگر یہی کھیل جاری رہا تو شاید ایک دن عوام خود اعلان کر دیں کہ ہمیں تم سب ہی معاف کر دو۔

جواب دیں

Back to top button