افغان طالبان بمقابلہ غزہ حماس: تقابلی جائزہ ( حصہ دوم )

افغان طالبان بمقابلہ غزہ حماس: تقابلی جائزہ ( حصہ دوم )
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
حماس کی موجودہ فوجی حیثیت، جو اکتوبر2023ء کے حملے کے دو سال بعد بھی برقرار ہے، شدید کمزوری کا شکار ہے مگر ختم نہیں ہوئی، اور یہ افغان طالبان کی 20سالہ مزاحمت کی طرح بین الاقوامی دبائو کے باوجود مزاحمتی صلاحیت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسرائیلی دعووں کے مطابق، حماس کے 30000جنگجوئوں میں سے 23000جاں بحق ہو چکے ہیں اور 24میں سے 20بٹالینز تباہ ہو گئی ہیں، مگر حماس نے غزہ کی بے گھر آبادی سے 30000نئے بھرتی شدہ افراد کو شامل کیا ہے، جو تربیت اور وسائل کی کمی کا شکار ہیں مگر مقامی حمایت پر قائم ہیں۔ اس کے راکٹ ذخیرے میں سے صرف 10سے 15فیصد باقی ہے، اور یہ اب نیم فوجی تنظیم سے زیر زمین سرنگوں پر مبنی غیر مرکزی گوریلا فورس میں تبدیل ہو گیا ہے، ’ ہٹ اینڈ رن‘ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ حماس کے فوائد میں غزہ کی آبادی کے اندر گہری انضمام، وسیع سرنگ کا نیٹ ورک، گوریلا جنگ کی موافقت اور نظریاتی عہد شامل ہیں، مگر نقصانات بھی واضح ہیں۔ اسرائیلی سرحدوں پر بیرونی سپلائی لائنز کی بندش، قیادت کا انحطاط، مالی بحران اور پاکستان جیسی محفوظ پناہ گاہوں کی کمی، جو افغان طالبان کے ماڈل سے الگ کرتی ہے جہاں پاکستان نے لاجسٹک سپورٹ دی۔ افغان طالبان کی کامیابی پاکستان کی پناہ گاہوں، دیہی بھرتیوں، حکومتی بدعنوانی کے استحصال اور گوریلا حکمت عملیوں پر مبنی تھی، جو حماس کے لیے ایک ٹیمپلیٹ مگر غزہ کی جغرافیائی پابندیوں کی وجہ سے محدود ہے۔
اسلامی ممالک کا کردار ان دونوں تنازعات میں ایک واضح تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، جو فوجی مدد سے سفارتی دبا کی طرف منتقل ہو گیا ہے، مگر اسرائیل کے مسلم ممالک پر بغیر اجازت کے حملوں نے اس کردار کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ افغانستان میں، پاکستان نے افغان طالبان کو لاجسٹک سپورٹ اور پناہ گاہوں کے ذریعے فتح کی راہ ہموار کی، جبکہ ایران نے فرقہ وارانہ اختلافات کے باوجود ہتھیار فراہم کیے، خاص طور پر داعش کے خلاف، جو علاقائی نیٹ ورک طالبان کی کامیابی کا ستون بنے۔ غزہ میں، صورتحال الٹ ہے؛ قطر، مصر اور ترکی سفارتی ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، قطر نے حماس کی سیاسی برادری کی میزبانی کی اور ٹرمپ منصوبے پر مثبت ردعمل کے لیے دبا ڈالا، جبکہ مصر اور ترکی نے دوحہ میں مذاکرات کیے، اور سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب امارات نے بھی حمایت کی۔ مگر یہ سب پرامن حل کی طرف مائل ہیں نہ کہ مادی فوجی مدد کی، کیونکہ اسرائیل کے حملے،جیسے لبنان، شام، یمن، ایران، تیونس اور قطر پر 2025ء میں 72گھنٹوں میں چھ ممالک پر حملے، یا 2024ء سے 17000سے زائد حملے، بغیر اجازت اور خود ساختہ جوازوں سے جاری ہیں، جو مسلم ممالک کو روکنے یا پابند کرنے کی کوئی کوشش ناکام بنا دیتے ہیں، جیسے ایران پر حملوں پر 21عرب اور مسلم ممالک کی مشترکہ مذمت مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
یہ تبدیلی علاقائی حرکیات کی عکاسی کرتی ہے، جہاں ایران کی کمزوری اور عرب اتحاد کی مضبوطی نے اسلامی ممالک کو فوجی سپورٹ سے ہٹا کر ثالثی کی طرف دھکیلا ہے، مگر اسرائیل کی جارحیت نے ان کی سفارتی کوششوں کو کمزور کر دیا ہے۔ حکومتی مطالبات اور امریکی اسٹریٹجک مقاصد بھی ان تنازعات کی پیچیدگی کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں غیر مسلح کرنے کی شرط دونوں میں مرکزی ہے مگر نفاذ میں فرق ہے۔ فلسطینی اتھارٹی ( پی اے) ٹرمپ منصوبے پر محتاط امید رکھتی ہے، مگر اصلاحات اور انتخابات کی شرط رکھتی ہے، ڈپٹی فارن منسٹر عمر عوض اللہ نے جارحیت کے خاتمے کو ترجیح قرار دیا، جبکہ پی اے یورپی یونین کی نگرانی میں انتخابات کے بعد کی بات کرتی ہے اور حماس کی مسلح مزاحمت کو غزہ کی بقا کا ضامن سمجھتی ہے کہ بغیر جوابدہی کے بحران ختم نہیں ہوگا۔ دوسری طرف، طالبان کی عبوری حکومت، محمد حسن اخوند کی قیادت میں، مکمل خودمختاری اور شرعی نفاذ پر اصرار کرتی ہے، مطالبہ کرتی ہے کہ پابندیاں ہٹیں اور اثاثے واپس ہوں، اور غنی حکومت کی طرح غیر مسلح کرنے کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے فوجی فتح سے مقاصد حاصل کیے۔ امریکی مقاصد دونوں میں دہشت گردی روکنے اور استحکام پر مرکوز ہیں، مگر افغانستان میں انخلاء پر توجہ تھی جہاں دوحہ نے 2500فوجیوں تک کمی کی، جبکہ غزہ میں یرغمالیوں کی واپسی، غیر مسلح کرنے اور علاقائی امن پر، جو اسرائیلی حملوں کی وجہ سے چیلنج ہے۔
تقابلی کامیابی کے عوامل میں، افغانستان 20سالہ جنگ اور 2 ٹریلین ڈالر کے باوجود ناکام رہا، جہاں دوحہ نے افغان طالبان کی واپسی آسان کی اور غنی کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ غزہ میں، منصوبہ نفاذی چیلنجز کا سامنے ہے۔ حماس کی جزوی قبولیت کے باوجود غیر مسلح کرنے کا معاملہ حل طلب ہے، کیونکہ اسرائیل کی واپسی کی شرط اور ماضی کی ناکامیوں کے تحفظات مرکزی ہیں، اور کامیابی بین الاقوامی نگرانی، حکومتی منتقلی اور حماس کی رضامندی پر منحصر ہے، جو افغانستان سے زیادہ سخت ہے مگر مسلم ممالک کی سفارتی مدد سے ممکن ہے۔ افغان طالبان اور حماس کو غیر مسلح بنانے کی کوششوں کا موازنہ یہ بتاتا ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر نرم سے سخت کی طرف بڑھا ہے، جہاں قیدیوں کی تبادلہ جیسی مماثلتیں ہیں مگر غیر مسلح کرنے کی شرط میں فرق ہے۔ افغان طالبان نے شرط سے بچتے ہوئے فتح حاصل کی، جبکہ حماس اسرائیل کی مکمل واپسی تک انکار کر رہی ہے، اور اگر مسلح مزاحمت ختم ہو تو بحران طول پکڑے گا، کیونکہ اسرائیل کے بغیر جواز حملے مسلم ممالک کو کمزور کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک کا کردار سفارتی ہو گیا ہے، جو علاقائی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ حتمی کامیابی غیر مسلح کرنے، منتقلی، سیاسی شکایات کے حل اور جوابدہی پر منحصر ہوگی، ورنہ یہ تنازعات مزید طول پکڑیں گے، اور غزہ کی طرح افغانستان کی طرح ایک نئی مزاحمت جنم لے گی۔
افغان طالبان اور حماس کو غیر مسلح بنانے کی کوششوں کے درمیان موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر افغانستان میں استعمال ہونے والے نرم فریم ورک سے غزہ میں زیادہ سخت ماڈل کی طرف ترقی کر گیا ہے۔ جبکہ افغان طالبان نے کامیابی سے غیر مسلح کرنے کی ضروریات سے بچا اور فوجی فتح حاصل کی، حماس کو مکمل فوجی ہتھیار ڈالنے کے واضح مطالبات کا سامنا ہے۔ اگر غیر مسلح کرنا نامکمل ثابت ہوتا ہے تو مسلسل مزاحمت کی صلاحیت موجود ہے، اگرچہ حماس، افغان طالبان کے تجربے سے زیادہ محدود حالات میں کام کرتا ہے۔ اسلامی ممالک کا کردار مادی سپورٹ ( افغانستان) سے سفارتی ثالثی ( غزہ) میں منتقل ہو گیا ہے، جو مختلف علاقائی حرکیات اور اسٹریٹجک حسابات کی عکاسی کرتا ہے۔ حتمی کامیابی غیر مسلح کرنے کے طریقہ کار کے نفاذ، پائیدار حکومتی منتقلی، اور بنیادی سیاسی شکایات کو حل کرنے پر منحصر ہوگی جو مسلح مزاحمت کو ہوا دیتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ غزہ کی تعمیر نو میں امریکی اہداف کو کامیاب بنانے کے لئے کون کون سے ممالک ’’ عبوری حکومت ‘‘ کا حصہ بنتا ہے ۔ افغان طالبان کسی دوسرے فریق کو عبوری حکومت کا حصہ بننے سے روکنے میں کامیاب رہے اور بلا شرکت غیرے حکومت کررہے ہیں اور انہیں کسی بورڈ آف پیس کا سامنا بھی نہیں جبکہ غزہ کی مشکلات افغانستان سے کئی زیادہ دشوار اور حل طلب ہیں۔





