پاکستان اور ملائیشیا کا مشترکہ ترقی کا عہد

پاکستان اور ملائیشیا کا مشترکہ ترقی کا عہد
پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تازہ ترین پیش رفت نے دونوں ممالک کے تاریخی اور گہرے رشتے کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اعلیٰ تعلیم، سیاحت، حلال سرٹیفکیشن، بدعنوانی کی روک تھام اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ جیسے مختلف اہم شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط اس بات کے واضح عکاس ہیں کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتے، بلکہ مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ تعلقات صرف سیاسی یا اقتصادی نہیں بلکہ ثقافتی اور انسانی سطح پر بھی گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ پاکستان اور ملائیشیا کے تعلقات کا آغاز 1957ء سے ہوا، دونوں میں برادرانہ اور دوستانہ رشتہ قائم ہے۔ دونوں ممالک نے کئی دہائیوں سے مختلف بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کیں۔ وقت کے ساتھ یہ تعلقات مضبوط ہوئے اور اب دونوں ممالک نے اپنی دوستی کو تجارتی، تعلیمی اور سماجی شعبوں تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام عالمی سطح پر پاکستانی سفارت کاری کی کامیابیوں میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ پاکستان اور ملائیشیا نے وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کے دوران اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں، یہ معاہدہ نہ صرف تعلیمی سطح پر طلبہ کے تبادلے کو فروغ دے گا، بلکہ تحقیق و ترقی کے مشترکہ منصوبوں کو بھی تقویت دے گا۔ بڑی تعداد میں پاکستانی طلبہ ملائیشیا میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جو اس تعلیمی تعلق کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اسی طرح سیاحت کے شعبے میں تعاون کی یادداشت، دونوں ممالک کے درمیان سیاحتی رابطوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ملائیشیا کے خوبصورت سیاحتی مقامات کی طرح پاکستان بھی خوبصورت سیاحتی ملک ہے اور دونوں ممالک کے سیاحتی شعبے کو ترقی دینا خطے میں اقتصادی اور ثقافتی روابط کو بڑھانے کا ذریعہ ہوگا۔ حلال سرٹیفکیشن کے حوالے سے تعاون، جس میں پاکستان سے ملائیشیا کو حلال گوشت کی برآمدات کا کوٹہ 20کروڑ امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے، دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ حلال گوشت کی عالمی منڈی میں یہ پاکستان کے لیے اہم کامیابی ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا، بلکہ معیاری حلال مصنوعات کی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بھی بڑھے گی۔ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک شفافیت، انصاف اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بدعنوانی کا خاتمہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بنیادی شرط ہے اور اس شعبے میں تعاون دونوں ممالک کی معیشت اور حکمرانی کے نظام کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)کے فروغ کے لیے بھی معاہدہ، دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ SMEsمعاشی ترقی کا ایک بنیادی ستون ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس شعبے میں تعاون سے پاکستان اور ملائیشیا دونوں اپنی صنعتوں کو مستحکم اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں مزید مقابلہ کر سکیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس دورے نے پاکستان اور ملائیشیا کے تعلقات کو ایک نئی روح بخشی ہے۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ملائیشیا کو نہ صرف ایک تجارتی اور سفارتی شراکت دار سمجھتا ہے بلکہ اسے اپنا ’’ دوسرا گھر‘‘ بھی کہتا ہے۔ یہ الفاظ ان تعلقات کی گہرائی اور خلوص کی عکاسی کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے ملائیشیا کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور اقتصادی ترقی کے تجربات سے سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جو پاکستان کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ دونوں ممالک کے ماہرین کے مابین تعاون سے نہ صرف معیشت بلکہ سائنسی اور تکنیکی میدان میں بھی دونوں قومیں فائدہ اٹھا سکیں گی۔ ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کا بھی پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون اور خطے میں امن کے قیام کے عزم کا اظہار اہم ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے دونوں ممالک کو شدید متاثر کیا ہے اور اس پر مل کر قابو پانا خطے کی سلامتی کے لئے ناگزیر ہے۔ قریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ملائیشیا میں مقیم ہیں، جو دونوں ممالک کے مابین ثقافتی اور معاشرتی تعلقات کی مضبوط بنیاد ہیں۔ یہ کمیونٹی نہ صرف ملائیشیا کی معیشت میں حصہ ڈال رہی ہے بلکہ دوستی کے پُل کا کام بھی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف کی انور ابراہیم کی کتاب اسکرپٹ کا اردو ترجمہ متعارف کرانا دوستی اور مشترکہ اقدار کو بڑھانے میں مددگار ہوگا۔ وزیراعظم کا علامہ اقبالؒ کے اشعار پڑھنا اور ملائیشیا کے وزیراعظم کا اس پر مثبت ردعمل دکھانا دونوں ممالک کے مشترکہ ثقافتی ورثے اور جذباتی تعلقات کی گواہی دیتا ہے۔ یہ لمحے دونوں قوموں کے درمیان خلوص اور احترام کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ملاقات کے دوران فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال دونوں ممالک کی عالمی ذمے داریوں کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان اور ملائیشیا دونوں مسلم دنیا کے اہم ملک ہیں اور عالمی امن و استحکام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ خطے میں امن و امان کے حوالے سے ان کے تعاون سے خطے میں استحکام کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ ملائیشیا کا پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات اور خطے میں امن کے لیے اشتراک اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنے اندرونی مسائل بلکہ عالمی چیلنجز کے حل میں بھی ہاتھ بٹانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ دورہ اور معاہدے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک مثبت اور تعمیری پیش رفت ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ملائیشیا کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھا ہے اور ان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے موثر حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی اور تعلیمی حالت بہتر ہوگی، بلکہ خطے میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہونے کے ساتھ اثرورسوخ بھی بڑھے گا۔ پاکستان اور ملائیشیا کے مابین تعلقات کی یہ نئی جہتیں، معاہدات اور مشترکہ منصوبے مستقبل میں دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہیں۔ یہ تعلقات صرف سرکاری سطح پر نہیں بلکہ عوامی اور ثقافتی سطح پر بھی گہرے اثرات چھوڑیں گے۔ دوستی اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار یہ رشتہ خطے میں امن و خوشحالی کا پیغام دے گا۔ ملائیشیا اور پاکستان دونوں کی مشترکہ کوششیں، ہنر اور وسائل کو ملانے کی جو خواہش سامنے آئی ہے، وہ ایک روشن مستقبل کی طرف قدم ہے، جہاں خطے کے عوام ترقی، خوشحالی اور امن کے خواب کو حقیقت میں بدل سکیں گے۔ پاکستان اور ملائیشیا کی دوستی صرف سفارتی یا تجارتی تعلق نہیں بلکہ خلوص اور احترام کا رشتہ ہے، جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہورہا ہے اور آنے والے وقت میں دونوں ممالک کے عوام کے لیے بے شمار مواقع اور کامیابیوں کی وجہ ثابت ہوگا۔
قیامت خیز زلزلے کو 20سال مکمل
آج 8اکتوبر ہے اور اس دن سے ہماری قیامت خیز زلزلے کے حوالے سے تلخ یادیں وابستہ ہیں، 20سال قبل اسی دن پاکستان کی تاریخ کا انتہائی المناک واقعہ پیش آیا تھا۔ 2005ء کے اس زلزلے نے ملک کے شمالی علاقوں خصوصاً آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے کچھ حصوں کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ یہ قدرتی آفت اس قدر شدید تھی کہ اس کے نتیجے میں لگ بھگ 87ہزار سے زائد جانیں گئیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور بے شمار گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس وقت ہر طرف ماتم ہی ماتم بپا تھا۔ کتنے ہی لوگوں کے پیارے اُن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ اس حادثے نے ہماری کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہم نے سنجیدہ اقدامات کرنے ہیں۔ زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر بے شمار امدادی سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ پاکستان کے عوام، فوج، حکومت اور بین الاقوامی اداروں نے مل کر متاثرین کی مدد کی اور ان کی زندگیوں کو دوبارہ سنوارنے کی کوشش کی۔ لاکھوں لوگ جو ایک دم بے گھر ہوئے تھے، انہوں نے ہمت، حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس زلزلے کی کہانی نہ صرف انسانی درد کی داستان ہے، بلکہ قوم کے جذبہ ہمدردی، قربانی اور اتحاد کی بھی عظیم کہانی ہے۔8اکتوبر 2005ء کا زلزلہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قدرت کے سامنے انسان بے بس ہے، لیکن اس بے بسی کو کم کرنے کے لیے ہم اپنی تیاری کو بہتر بناسکتے ہیں۔ زلزلے جیسی قدرتی آفات پر قابو پانے کے لیے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، بلکہ عوام میں شعور بیدار کرنا بھی بہت ضروری ہے، تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں اور ہنگامی صورت حال میں مناسب ردعمل دے سکیں۔ اس سانحے کی یاد ہمیں ایک بار پھر اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ ہم ایک قوم کے طور پر اپنے گھروں، اسکولوں اور دیگر عمارتوں کی تعمیر میں احتیاط کریں، حکومتی حکمت عملیوں میں حصہ لیں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن تیاری کریں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنی جانوں کو محفوظ رکھ سکیں گے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ اور خوشحال پاکستان دے سکیں گے۔ یقیناً 8اکتوبر کا وہ دن ایک دردناک تاریخ ہے، لیکن اس میں پوشیدہ سبق ہمارے لیے روشنی کی کرن ہے، جسے ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔





