خواجہ سرا برادری پر جبر، کیا انصاف کا ترازو جھکا ہوا ہے؟؟

خواجہ سرا برادری پر جبر، کیا انصاف کا ترازو جھکا ہوا ہے؟؟
عقیل انجم اعوان
پاکستان کی تاریخ میں ایسے کئی باب ہیں جو محروم طبقات کے حوالے سے ایک اجتماعی ناکامی کو عیاں کرتے ہیں۔ ان محروم طبقات میں خواجہ سرا برادری سب سے زیادہ غیر محفوظ، سب سے زیادہ نظر انداز اور سب سے زیادہ مظالم کا شکار ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے ایک طرف تو صدیوں سے تماش بینی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اور دوسری طرف انہیں معاشرتی و ریاستی سطح پر وہی بنیادی حقوق دینے سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے جو کسی بھی شہری کو آئین کی رو سے حاصل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ایک برادری جس کی تعداد سرکاری اندازوں کے مطابق پچاس ہزار کے قریب ہے۔ مسلسل خوف، بے دخلی، تضحیک اور عدم تحفظ کا شکار ہے؟ حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں جو کچھ ہوا وہ محض ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان میں خواجہ سرا برادری کے ساتھ جاری اجتماعی رویے کی ایک اور مثال ہے۔ گیارہ رکنی جرگے نے اس برادری کو علاقے سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور الزام یہ لگایا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ اعلان پولیس کے ایک چھاپے کے بعد سامنے آیا جس میں خواجہ سرا کمیونٹی کی جانب سے منعقد کی جانے والی رقص و موسیقی کی تقریب پر حملہ کیا گیا۔ دو سو سے زائد افراد گرفتار ہوئے اور کئی کو لاٹھیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر فحاشی، ناجائز اجتماع اور اسلحہ رکھنے کے الزامات لگائے گئے۔ گویا وہ سب مجرم اور قابل سزا قرار دیے گئے جبکہ ان تقریبات میں شریک مرد یا وہ عناصر جو درپردہ ان محفلوں کو ممکن بناتے ہیں مکمل طور پر بچ نکلے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو معاشرتی انصاف اور ریاستی عملداری پر سنگین سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خواجہ سرا برادری اخلاقی اور سماجی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو پھر اس عمل میں شریک دیگر افراد کو بھی یکساں سزا ملنی چاہیے۔ مگر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اس سوال کا جواب ہمیں معاشرتی طاقت کے توازن میں ملتا ہے۔ طاقتور طبقے خواہ وہ مردوں کی صورت میں ہوں یا مقامی بااثر افراد کی شکل میں ہمیشہ قانون کی گرفت سے بچے رہتے ہیں جبکہ کمزور طبقے کو آسان شکار سمجھ کر عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواجہ سرا برادری کے ساتھ یہ امتیازی سلوک نئی بات نہیں ہے۔ 2009ء میں سپریم کورٹ نے انہیں پاکستان کے برابر شہری تسلیم کیا ان کے شناختی کارڈ کے اجرا کا حکم دیا اور وراثت، تعلیم و صحت میں مساوات کے حق کو تسلیم کیا۔ 2018ء میں ایک جامع قانون ’’ خواجہ سرا حقوق ایکٹ‘‘ بھی منظور کیا گیا جس میں وراثتی حقوق سے لے کر خود اپنی شناخت کے حق تک سب کچھ شامل تھا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سب محض کاغذی قانون کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور بعض مذہبی گروہوں کی جانب سے اس قانون کے خلاف پے در پے درخواستیں دائر کی گئیں۔ اعداد و شمار اس حقیقت کو مزید بھیانک بنا دیتے ہیں صرف 2025ء کے آغاز سے اب تک خیبر پختونخوا میں پندرہ خواجہ سرا قتل کیے جا چکے ہیں اور قریباً چودہ سو مقدمات اغوا، بھتہ خوری اور جنسی تشدد کے درج ہیں۔ پشاور میں قائم ٹرانسجینڈر کمیونٹی الائنس کی صدر کے مطابق ’’ تشدد اور بھتہ خوری ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے اور اکثر اوقات مجرم وہی پولیس اہلکار یا مقامی بااثر لوگ ہوتے ہیں جن سے ہمیں تحفظ ملنا چاہیے تھا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جب محافظ ہی مجرم بن جائیں تو پھر کمزور طبقہ کہاں جائے؟ یہ بھی قابل غور ہے کہ اس برادری کو بے دخل کرنے کی مہم ایک ایسے وقت میں چلائی گئی جب خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں معاشی بدحالی، بیروزگاری اور منشیات کے استعمال جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیا جرگوں نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے ایک کمزور ہدف کو چن لیا؟ یا یہ سب کچھ سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی جائے؟ اس سوال کا جواب بظاہر آسان ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوامی دبائو بڑھتا ہے تو طاقتور طبقے کوئی نہ کوئی کمزور طبقہ تلاش کر لیتے ہیں جس پر اپنی ناکامیوں کا بوجھ ڈال سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر واقعی سماج سے بے راہ روی ختم کرنی ہے تو پھر اس کے لیے یکساں معیار ہونا چاہیے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کیوں آزاد گھومتے ہیں؟ مدرسہ اساتذہ پر جنسی تشدد کے مقدمات کیوں دبائے جاتے ہیں؟ آئس جیسے نشہ آور پائوڈر کے سوداگر کیوں بغیر رکاوٹ کے اپنا زہر پھیلاتے ہیں؟ ان سب کے مقابلے میں خواجہ سرا برادری نہایت آسان ہدف ہے کیونکہ وہ نہ طاقت رکھتے ہیں نہ ان کے پاس وسیع وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی سرپرستی۔ اس صورتحال کے باوجود یہ برادری ہار ماننے کو تیار نہیں۔ پشاور ہائیکورٹ میں چھبیس خواجہ سرا اور ان کے حامیوں نے صوبے کے آئی جی پولیس اور دیگر افسران کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔ یہ قدم محض قانونی جنگ نہیں بلکہ آئینی حق کا دعویٰ بھی ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی تذلیل اور ہراسانی آئین کے بنیادی آرٹیکلز 4، 9، 14، 25، 26اور 28کی خلاف ورزی ہے۔ گویا یہ معاملہ صرف ایک برادری کا نہیں بلکہ آئینی اصولوں کے احترام کا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا ریاست واقعی اپنی ذمہ داری پوری کرے گی؟ قانون موجود ہے عدالتی فیصلے موجود ہیں مگر عملدرآمد کیوں نہیں؟ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو اس کے اثرات محض خواجہ سرا برادری تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور کریں گے۔ جب ایک کمزور طبقے کو زبردستی بے دخل کرنے کی کوشش کامیاب ہو جائے تو پھر کل کو کسی اور کمزور گروہ پر بھی یہی واردات دہرائی جا سکتی ہے۔ یہ صورتحال ہمیں ایک بڑے سوال کی طرف لے جاتی ہے۔ کیا پاکستان واقعی اپنے تمام شہریوں کے لیے برابر کے حقوق پر یقین رکھتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ریاست کو فوری طور پر ان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا جو خواجہ سرا برادری کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے آئینی وعدے محض کتابی جملے ہیں اور عملی طور پر ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جو کمزور کو کچل کر طاقتور کو تحفظ دیتا ہے۔ آخر میں یہ سمجھنا ہوگا کہ خواجہ سرا برادری کو بے دخل کرنا یا انہیں خوف کے سائے میں زندہ رہنے پر مجبور کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صدیوں سے اس خطے کی ثقافت اور معاشرت کا حصہ ہیں۔ ان کے رقص و نغمے کو کبھی شادمانی کی علامت سمجھا گیا مگر اب اسی کو جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر معاشرہ واقعی ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے کمزور طبقات کو تحفظ دینا ہوگا کیونکہ ایک ایسا معاشرہ جو اپنے سب سے کمزور افراد کی حفاظت نہ کر سکے وہ خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کے پاس اب کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ یا تو وہ آئین اور قانون کے مطابق سب شہریوں کو برابر کا تحفظ دیں یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ انصاف کا ترازو جھکا ہوا ہے۔ خواجہ سرا برادری کی زندگی اور ان کے حقوق اس ملک کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہیں اور یہ امتحان ریاست کو ہر حال میں پاس کرنا ہوگا ورنہ تاریخ اسے معاف نہیں کرے گی۔





