Column

سی سی ڈی کا دائرہ کار بڑھایا جائے

سی سی ڈی کا دائرہ کار بڑھایا جائے
تحریر: رفیع صحرائی
کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ ( سی سی ڈی) کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ نے جب چارج لیا تھا تو پنجاب کے عوام سے ایک وعدہ اور اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ وہ جرائم پیشہ عناصر پر ایسا ہاتھ ڈالیں گے کہ دو ماہ بعد پنجاب میں کوئی اکیلی عورت دس تولے زیور پہن کر بھی نکلے گی تو وہ محفوظ ہو گی۔ کسی جرائم پیشہ کو اس کی طرف دیکھنے کی جرات بھی نہیں ہو گی۔
آج ہم پنجاب میں سہیل ظفر چٹھہ کے وعدے کی تکمیل کی عملی صورت دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب کی سڑکیں محفوظ ہو گئی ہیں اور سٹریٹ کرائمز پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا ہے، شہری خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں جبکہ عادی جرائم پیشہ افراد چھپتے پھر رہے ہیں لیکن انہیں جائے امان نہیں مل رہی۔ پنجاب میں یہ کلچر رہا ہے کہ گینگسٹرز، چوروں، ڈاکوئوں، پولیس کے مفروروں اور قاتلوں کو وڈیروں اور جاگیرداروں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ کچھ سیاست دانوں کا دستِ شفقت بھی جرائم پیشہ افراد کے سر پر رہا ہے۔ بدلے میں وہ سیاست دان اپنے مخالفین کو دباتے اور سیاسی انتقام لیتے رہے ہیں۔ سی سی ڈی کے قیام کے بعد وڈیروں، جاگیرداروں اور ان مخصوص سیاست دانوں نے بھی بیک فٹ پر جانا مناسب سمجھا ہے۔ اسی میں ان کی عافیت ہے کیونکہ سی سی ڈی کی نظر میں مجرم اور ان کے پشت پناہ دونوں ہی قابلِ گرفت اور کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
سی سی ڈی نے قاتلوں، راہ زنوں، ڈاکوئوں، غنڈہ عناصر، منشیات فروشوں اور خواتین کے ساتھ بدتمیز کرنے والے عناصر کے خلاف کامیاب آپریشنز کر کے پنجاب کا امن و سکون لوٹا دیا ہے۔ چند ہی ماہ پہلے جس پنجاب میں لاقانونیت اور بدامنی کا دور دورہ تھا، سڑکیں غیر محفوظ اور ویگو ڈالا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا تھا وہ پنجاب امن کا گہوارہ بن گیا ہے۔ منشیات فروش مسجدوں میں جا کر کلامِ پاک پر حلف دیتے ہوئے توبہ تائب ہونے کی اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہیں کہ آئندہ زندگی بھر یہ دھندا نہیں کریں گے۔ قاتل اور غنڈے قانون کی گرفت میں آ چکے ہیں یا گرفتاری کے بعد اپنے ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ساتھی اس بنا پر انہیں چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گرفتار شدگان ان کی نشان دہی نہ کر دیں۔ اگر وہ چھڑانے میں ناکام ہو جائیں تو خود کو بچانے کے لیے وہ اپنے گرفتار شدہ ساتھیوں کو مار دیتے ہیں۔
بازار جاتی خواتین اور سکول و کالج جاتی طالبات غنڈہ اور اوباش عناصر کے ہاتھوں بہت تنگ تھیں۔ اب کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنا کہا سچ ثابت کر دکھایا ہے کہ جس طرح میری بیٹیاں محفوظ ہیں اسی طرح پورے پنجاب کی بیٹیوں کو تحفظ دینا میرا فرض ہے۔ بلاشبہ وہ اپنا فرض پوری ذمہ داری سے نبھا رہی ہیں۔
اس وقت پنجاب میں غنڈہ عناصر کا قلع قمع ہو رہا ہے مگر بہت سے سفید پوش غنڈے دندناتے پھر رہے ہیں۔ لوگوں کی زندگی اور دولت و جائیداد چھیننے والوں کا علاج کامیابی سے جاری ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سی سی ڈی کا دائرہ اختیار بڑھایا جائے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں، حرام گوشت کھلانے والوں، جعلی پراڈکٹس اور جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کو بھی سی سی ڈی کے دائرے میں لایا جائے۔ اگر وزیرِ اعلیٰ پنجاب ان مافیاز کے خلاف بھی ہمت پکڑ لیں تو عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے عناصر راہِ راست پر آ جائیں گے۔ ہمت پکڑنے والی بات اس وجہ سے کی گئی ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر جعلی ادویات بنانے والا مافیا اتنا مضبوط ہے کہ اس کے نمائندگان یا سرپرست اسمبلیوں میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔
جعلی ادویات کی وجہ سے مریض ٹھیک ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کا علاج ہی ممکن نہیں رہتا اور وہ موت کے مونہہ میں جا پہنچتے ہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور جعلی پراڈکٹس تیار کرنے والے لوگوں کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کر کے موت کا شکار کر رہے ہیں۔
اگر مریم نواز شریف نے اپنے لوگوں کو ان مافیاز سے بچانے کا ارادہ کر لیا تو بہت جلد ہمیں پنجاب میں اس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملا کریں گے۔
سی سی ڈی نے مخبری پر جعلی دودھ بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ مارا جہاں کیمیکل سے جعلی دودھ تیار کیا جا رہا تھا۔ فیکٹری مالک نے سی سی ڈی کو دیکھ کر ثبوت مٹانے کی خاطر ہاتھ میں پکڑا ہوا جعلی دودھ بنانے والا کیمیکل جلدی سے پی لیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ فیکٹری پر کام کرنے والے دیگر افراد کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سی سی ڈی نے جعلی ادویات تیار کرنے والی فیکٹری پر چھاپہ مارا۔ خوف سے فیکٹری مالک کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ اسے اسی فیکٹری میں تیار کیا گیا دل کے دورے کی صورت میں بچانے والا انجکشن لگایا گیا مگر انجکشن جعلی ہونے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ ( ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فیکٹری مالک کا بلڈ پریشر بڑھ جائے جسے کم کرنے کے لیے فیکٹری مالک کو اس کی اپنی تیار کردہ دوائی کھلائی جائے جسے کھانے کے بعد اس کا بلڈ پریشر مزید بڑھ جائے اور اسے فالج کا اٹیک ہو جائے یا دماغ کی شریان پھٹ جائے)۔
ایک متوقع منظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی قصاب مردہ جانور کا گوشت فروخت کر رہا ہو اور سی سی ڈی کو آتے دیکھ کر اپنا بغدا پکڑ کر سی سی ڈی ٹیم پر حملہ آور ہو جائے مگر وار کرتے ہوئے بغدا اس کے ہاتھ سے پھسلے اور اس کا اپنا ہاتھ ہی کہنی کے پاس سے کٹ کر جسم سے الگ ہو جائے۔
ایک سین یہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ لوڈر رکشے پر سیکڑوں مردہ مرغیاں لے جاتے ہوئے جب کوئی شخص پکڑا جائے تو رکشہ چھوڑ کر بھاگتے ہوئے سامنے سے آنے والی کسی گاڑی سے ٹکرا جائے۔ ہسپتال پہنچے تو پتا چلے کہ اس کے بازو اور ٹانگیں ٹوٹ چکے ہیں۔ ایسے ہی حادثات کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کے ساتھ پیش آ سکتے ہیں جب وہ اپنی ہی ملاوٹ شدہ چیزیں کھا کر ہسپتال پہنچ جائیں اور ویڈیو بیانات میں اپنے جرم کا اعتراف کریں۔
یہ تمام لوگ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کی خاطر انسانوں کی صحت اور زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اگر یہ کبھی پکڑے بھی جائیں تو قانون کی کمزوریوں سے کھیل کر صاف بچ نکلتے ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کا علاج صرف سی سی ڈی ہی کر سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button