ColumnTajamul Hussain Hashmi

قرض نسلوں کو نگل جائے گا

قرض نسلوں کو نگل جائے گا
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
وفاقی وزارتِ خزانہ کی 30ستمبر 2025ء کی رپورٹ نے حکومتی دعوئوں کی پول کھول دی ہے۔ پچھلے3سال میں ملکی قرضوں میں 31ہزار 200ارب روپے کا اضافہ، پچھلے 9سالوں میں 300فیصد سے زائد یعنی 60ہزار 800ارب روپے اضافہ کا انکشاف ہوا ہے۔ جون 2018ء سے 2022ء سرکاری قرضہ میں میں 24ہزار 900ارب اضافہ کا انکشاف ہوا ہے ۔ جون 2025ء تک مجموعی قرضے کا حجم 80ہزار 500ارب رہا ہے ۔ اس قرضہ میں مقامی سرکاری قرضہ 54ہزار 500ارب روپے ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2016ء میں مجموعی سرکاری قرضہ 19ہزار 700ارب روپے تھا۔ قرضوں میں مسلسل اضافہ سے عوامی مشکلات میں اضافہ یقینی ہے، حکومتی اداروں اور فیصلہ سازوں پر کوئی دبائو نہیں۔ اشتہاروں میں ہی خوش نما ترقی، سیاسی کامیابی نظر آتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں ہر پیدا ہونے والا بچہ غیر ملکی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے، حکومتیں پچھلے ادوار کو کوستی ہیں لیکن پھر اُسی کشکول کے سائے میں اگلے قرضوں کیلئے دعائیں، منتیں کرتی ہیں۔
سیاستدان اپنا طرز حکمرانی بدلنا نہیں چاہتے اور الیکشن میں ملکی قسمت بدلنے کے دعوے کرتے ہیں لیکن سیاست کی گنتی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں ان کی ذہنی سوچ ہے، بس مال اکٹھا کرو اور دوسرے ممالک میں اپنے اثاثے بنائو۔ سیاستدانوں کے ساتھ ملکی بیوروکریسی کے اثاثوں کی چھان بین کے حوالے سے متعلق ابھی تک کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو شریف تاجروں کا پیچھا کرتا اور ٹیکس چوروں کی پشت پناہی کرتا نظر آتا ہے، شاید اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ لوٹ مار کرنا اور قرض ہی ہماری پہچان ہوگا، اور کشکول سیاستدانوں کے اثاثوں میں اضافے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ملکی معیشت کے لیے خطرہ ہے، گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ہونے والی 8ممالک کی ملاقات میں طاقتور ممالک کا آرڈر نظر آیا۔ امریکہ نے علاقائی استحکام کے بہانے ایسی شرائط رکھیں جن میں معاشی امداد سے زیادہ سفارتی جکڑ بندی کا عنصر نمایاں تھا۔ گفتگو کا محور معیشت سے ہٹ کر مشرق وسطیٰ کی سیاست پر چلا گیا، جہاں اسرائیل کی جارحیت پر پاکستان سے خاموشی اور فلسطینی ایشو پر نرم رویے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ بدلے میں پاکستان کو قرض کی آس دی گئی۔ اسی دوران بلوچستان میں 1.2ارب ڈالر کی نئی بندرگاہ کے منصوبے کو امریکی فنڈنگ سے جوڑا جا رہا ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو نہ صرف پاکستان کے معدنی وسائل پر قبضے کا راستہ کھولے گا بلکہ اسٹریٹیجک طور پر پاکستان کو امریکی اثر و رسوخ کی زنجیروں میں مزید باندھ دے گا۔ اسی طرح غزہ امن پلان میں پاکستان کی تجویز کو امریکہ نے اپنے مفادات کے مطابق ڈھال لیا لیکن یہ سب قرضوں کی دلدل میں پھنسی معاشی مجبوریوں کا بھی نتیجہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی نہیں، بلکہ ہماری معاشی غلامی کی قیمت ہے، جتنی گہری دلدل، اتنی ہی کمزور خود مختاری۔ یہی تو المیہ ہے کہ عالمی میز پر دلیل سے نہیں، ضرورت سے بولتے ہیں۔ ہماری خاموشی خارجہ پالیسی بن چکی ہے۔ فلسطینی خون پر ہمارے بیانات کی گمشدگی، سب اُس معاشی غلامی کا مظہر ہے جو کشکول کے اندر پنپتی ہے۔ خودداری قوموں کے خزانے سے نہیں ، اُن کے فیصلوں سے ناپی جاتی ہے۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے اعداد کے پیچھے عوامی چیخیں ہیں۔ جس میں امید، روزگار، عزت اور خودمختاری دفن ہے۔ بجٹ خسارہ اب معمول ہے، کرپشن روایت بن چکی ہے اور بیرونی قرض ’’ نجات‘‘ کہلاتا ہے۔
حکومتیں بدلتی ہیں مگر جملے وعدے نہیں بدلتے۔ ہر سیاسی حکومت یہی کہتی ہے ملک تباہ حالت میں ملا، ہمیں قرض لینا پڑے گا اور پھر وہی قرض اگلی حکومت کے لیے نیا الزام بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی زندہ قوم ہیں یا عالمی مالیاتی اداروں کی تجربہ گاہ؟، کیا ہماری خارجہ پالیسی واضح ہے ؟ یا صرف کشکول کو نیا لیبل دے رہے ہیں؟۔ پاکستان کی معیشت اب اعداد کی نہیں، احساس کی جنگ ہار رہی ہے۔ یہ قوم قرضوں سے نہیں، خود پر یقین کی کمی سے تباہ ہوئی ہے اور اگر ہم نے اب بھی جاگنے میں تاخیر کی تو قرض کی یہ دلدل ہمیں نہیں، ہماری آنے والی نسلوں کو نگل جائے گی۔ قرض اب علاج نہیں، بیماری کی آخری سانس ہے۔ قومیں جب کشکول تھام لیتی ہیں تو آزادی اُن کے ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button