ColumnImtiaz Aasi

16اکتوبر نظریئے اور مفادات کا امتحان

16اکتوبر نظریئے اور مفادات کا امتحان
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قانون کی بالادستی کے لئے وکلاء برادری نے ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے انصاف کے حصول کے لئے عوام کی امیدیں عدلیہ اور وکلاء دونوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب ایوب خان کے خلاف مغربی اور مشرقی پاکستان میں تحریک کا آغاز ہوا تو احتجاجی جلوسوں میں کالے کوٹوں والوں کی خاصی تعداد دکھائی دیتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وکلاء اور سول سوسائٹی نے باہم مل کر تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ گویا یہ وکلاء اور عوام کی تحریکوں کا نتیجہ تھا ایوب خان اور پرویز مشرف کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ آج سے کئی عشرے پہلے تک وکلاء کی اتنی بڑی تعداد نہیں ہوا کرتی تھی جس کی وجہ ملک میں سرکاری لاء کالج گنے چنے ہوا کرتے تھے، لیکن جب سے پرائیویٹ لاء کالجز کی بھرمار ہوئی ہے اس وقت سے وکلاء کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ہے۔ وکلاء کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر حصول روزگار کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا، جس کے پیش نظر ملک میں قانون کی بالادستی کی بجائے معاملات Compromisedہو گئے ہیں، یعنی آئین اور قانونی کی بالادستی کی راہ میں عہدے اور منصب رکاوٹ بن گئے ہیں۔ آئین میں 26ویں ترمیم سے عدلیہ کی آزادی پر کفل لگ گیا ہے۔ بعض طالع آزمائوں نے آئین اور قانون کی بالادستی کی بجائے مفادات کے حصول کی فوقیت دے کر عدلیہ کو انصاف کی فراہمی سے دور کر دیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آنے کے بعد عدلیہ کو گھر کی لونڈی سمجھ لیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں سینیارٹی کا جو نظام چل رہا تھا ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ آئین میں ہائی کورٹس کے ججوں کو عارضی طور پر تبدیل کرنے کی گنجائش کے باوجود دوسرے صوبوں کے ہائی کورٹس کے ججوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں مستقل تعیناتی نے آئین اور قانون کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ جوں جوں سولہ اکتوبر کا دن قریب آرہا ہے وکلاء تنظیموں کے دھڑے اپنے اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم میں سرگرم ہیں۔ وکلاء کے ایک بڑے دھڑے سے خطاب کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے دو معزز ججوں جناب عبادالرحمان لودھی اور جناب اعجاز احمد نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا وکلاء برادری کے بہت سے لوگ اپنے اصل نظرئیے سے ہٹ گئے ہیں اور ذاتی مفادات کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے۔ جناب لودھی نے بآور کرایا سپریم کورٹ میں داخل ہونے سے قبل سائن بورڈ پر نظر پڑتے ہی اس بات کا احساس ہوتا ہے یہاں واقعی سپریم کورٹ ہے لیکن جب سپریم کورٹ میں داخل ہوں تو ان کا احساس خواب میں بدل جاتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا سولہ اکتوبر کا الیکشن اس سپریم کورٹ کا الیکشن ہے جس کی شکل بگاڑ دی گئی ہے جس کی ذمہ دار وکلا برادری ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت دو قوتوں کے درمیان مقابلہ ہے ایک جس نے سپریم کورٹ کا حلیہ بگاڑ دیا ہے جب دوسری قوت وہ ہے جو عدلیہ کے وقار کو بحال کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے لہذ ا وکلاء برادری نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے وہ عدلیہ کی آزادی کے خواہاں ہیں یا پھر عدلیہ کو غلام دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا سپریم کورٹ بار کا عہدے دار ہونا معمولی بات نہیں لیکن اس وقت سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کا جو معیار ہے قابل رشک ہے۔ جناب جسٹس (ر) اعجاز احمد اور جسٹس ( ر) عبادالرحمان لودھی نے برملا کہا وہ اپنے دوستوں کی بجائے ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو آئین اور قانون کی بالادستی اور آزاد عدلیہ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا وہ حامد خان گروپ اور ان کے ساتھیوں توفیق آصف ایڈوکیٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دراصل قوموں کی زندگی میں اسی وقت تبدیلی آتی ہے جب ریاست میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ آزاد ہو۔ اگر نظریئے کی بجائے عہدوں اور منصب کی ہوس ہو تو ملک و قوم کو اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔ وکلاء برادری میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف جیسا جذبہ ہوتا نہ چیف جسٹس کے تقرر میں سینیارٹی کے اصول کو پس پشت ڈالا جاتا نہ ہی ہائی کورٹس کے ججوں کے مستقل طور پر تبادلے ہوتے۔ سولہ اکتوبر کو وکلاء برادری نے آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کو کامیاب کرایا تو وکلاء کا یہ اقدام ملک و قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں میں لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر وکلاء نے اپنے قیمتی ووٹ کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے بجائے آئین اور عدلیہ کی آزادی کے لئے استعمال کیا تو ہماری عدلیہ اندھیروں سے روشنی کی طرف نکل سکے گی۔ ہم ماضی کے جھرکوں میں جائیں تو عدلیہ میں کیسے کیسے جج صاحبان ہو گزرے ہیں جو بڑے سے بڑے آمر کے سامنے سینہ سپر ہو کر آزادانہ فیصلوں کو اپنی حیات کا جھومر سمجھتے تھے۔ انہی ججوں میں جناب ایم آر کیانی، جسٹس کیکاس اور جسٹس صمدانی ایسے جج عدلیہ کی تاریخ کا درخشاں ستارہ ہیں جنہیں عوام آج بھی شاندار الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر ہم عہد حاضر کے ججوں کی بات کریں تو جناب جسٹس عبادالرحمان لودھی نے سول مقدمات کے فیصلے کرتے وقت بڑے سے بڑے کی پرواہ کئے بغیر آزادانہ فیصلے کئے جو عدلیہ کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ ملک وقوم کی بدقسمتی دیکھئے گزشتہ دور میں جناب لودھی ایسے راست باز سابق جج کو حکومت نے کوئی عہدہ دینے کا فیصلہ کیا جس کی کابینہ نے منظوری بھی دے دی لیکن اقتدار کے ایوانوں میں ان کی راست بازی کی بازگشت سنائی دی تو فیصلہ واپس لے لیا۔ آخر میں جسٹس ( ر) صمدانی جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو مقدمہ قتل میں ضمانت دے کر رہا کر دیا تھا وقت کے آمر نے انہیں ان کے منصب سے علیحدہ کرکے سیکرٹری قانونی مقرر کر دیا۔ اس وقت ملک و قوم کو آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی فکر لاحق ہے۔ عدلیہ کو پرواز کرنے کو کہا گیا ہے مگر پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ وکلاء برادری نے سولہ اکتوبر کو فیصلہ کرنا ہے وہ آئین کی بالادستی اور عدلیہ کو آزاد دیکھنے کے خواہاں ہیں یا عدلیہ کو غلام رکھنے کے خواہش مند ہیں۔

جواب دیں

Back to top button