ColumnQadir Khan

افغان طالبان بمقابلہ غزہ حماس: تقابلی جائزہ ( پہلا حصہ )

افغان طالبان بمقابلہ غزہ حماس: تقابلی جائزہ ( پہلا حصہ )
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
افغانستان کی پہاڑیوں اور غزہ کی ریتلی سرحدوں پر امن کی وہ دھوپ جو کبھی کبھار چمکتی ہے، اکثر فوجی مزاحمت کی سائے میں دھندلی پڑ جاتی ہے، اور یہ دھندلاہٹ دوحہ معاہدے 2020ء کی بازگشت اور ٹرمپ کے 2025ء غزہ امن منصوبے کی بازگشت میں واضح جھلکتی ہے۔ فروری2020ء میں قطر کے شہر دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے ہونے والا یہ معاہدہ، جو ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کا نتیجہ تھا، اور ستمبر 2025ء میں پیش کیا گیا 20نکاتی غزہ منصوبہ، دونوں ہی طویل تنازعات کو مذاکراتی ذریعے سے ختم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مگر ان کی جڑوں میں غیر مسلح کرنے کی کوششوں اور فوجی مزاحمت کی مسلسل چیلنجز چھپی ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے جوڑتی بھی ہیں اور الگ بھی کرتی ہیں۔
افغان طالبان نے دوحہ معاہدے کو اپنی فوجی طاقت کو برقرار رکھنے کا موقع سمجھا اور اگست 2021ء میں کابل پر قبضہ کر لیا، جبکہ حماس، جو غزہ کی تنگ گلیوں میں گوریلا جنگ کی پالیسی پر قائم ہے، ٹرمپ کے منصوبے کے سامنے کھڑی ہے جہاں اسرائیل کی مکمل واپسی کی شرط کے بغیر غیر مسلح ہونے سے انکار کر رہی ہے، اور ماضی کی اسرائیلی پالیسیوں کی بنیاد پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے کہ وعدے پھر سے توڑ دئیے جائیں گے۔ یہ تقابلی تجزیہ نہ صرف ان دونوں گروہوں کی حکمت عملیوں کی مماثلت اور اختلافات کو کھولتا ہے بلکہ علاقائی طاقتوں، خاص طور پر اسلامی ممالک کے کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ وہ کیسے فوجی مدد سے سفارتی ثالثی کی طرف منتقل ہو چکے ہیں، اور یہ بھی کہ اگر حماس جیسی مسلح مزاحمت مکمل ختم ہو جائے اور اسرائیل سے اب تک کی جوابدہی نہ ہو تو غزہ کا بحران کبھی ختم نہیں ہوگا، کیونکہ اسرائیل کے مسلم ممالک پر بغیر اجازت کے خود ساختہ جوازوں سے حملے ایک معمول بن چکے ہیں جو انہیں روکنے یا پابند کرنے کی کوئی بین الاقوامی کوشش ناکام بنا دیتے ہیں۔
دوحہ معاہدہ ایک ایسا دستاویز تھا جس میں امریکہ افغان طالبان کو غیر مسلح کرنی میں ناکام رہا اور اپنی مرضی کے مطابق عبوری حکومت نہ بنا سکا ، جبکہ غزہ میں بھی یہی فارمولا طے کیا گیا ہے کہ ایک ایسی حکومت جس میں باہر کے لوگ ہوں، واضح رہے کہ امریکی حکام اور اشرف غنی کی افغان حکومت نے کئی بار یہ مطالبہ کیا کہ طالبان سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لیے اپنی فوجی صلاحیتوں کو ہتھیانے ہوں گی۔ دوحہ معاہدہ چار بنیادی عناصر پر مشتمل اتفاق رائے سے طے پا گیا جس میں دہشت گردی کے خلاف ضمانتیں، غیر ملکی فوجوں کا انخلائ، اندرونی افغان مذاکرات اور مستقبل کی جامع جنگ بندی، جو افغان طالبان کو منتقلی کے دوران اپنی مسلح طاقت برقرار رکھنے کی آزادی دیتا تھا۔ معاہدے کے تحت افغان طالبان نے افغان سرزمین پر القاعدہ جیسی تنظیموں کو پناہ دینے سے روکنے کا وعدہ کیا، جبکہ امریکہ نے 14ماہ میں اپنی تمام فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا۔ اہم ترین شق قیدیوں کا تبادلہ تھی، جس میں 5000سے زائد طالبان جنگجوئوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا، حالانکہ اشرف غنی نے ابتدائی طور پر اسے مسترد کر دیا اور صرف 1500قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا، مشروط کہ وہ لڑائی کے لئے دوبارہ نہ لوٹیں گے، مگر امریکی دبائو میں بالآخر یہ عمل مکمل ہوا، جس نے افغان طالبان کی فوجی طاقت کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مستحکم کر دیا۔
امریکی دفاعی حکام، جیسے لائیڈ آسٹن اور فرینک میک کینزی، نے بعد میں تسلیم کیا کہ یہ معاہدہ افغان حکومتی فورسز پر نقصان دہ ثابت ہوا، کیونکہ اس نے افغان طالبان کو علاقائی کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دی، اور غنی حکومت کی کوششوں کے باوجود اندرونی مذاکرات تاخیر کا شکار رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کئی بار معاہدے کو تعطل میں ڈالنے کی کوشش کی، جیسے قیدیوں کی رہائی پر دبا بڑھا کر اور انخلاء کی تاریخ کو لچکدار بنانے کی، مگر یہ سب افغان طالبان کی فوجی کارکردگی کو روکنے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً، معاہدے کے بعد افغان طالبان نے گوریلا حکمت عملیوں کو جاری رکھا، دیہی علاقوں سے بھرتیاں کیں، حکومتی بدعنوانی کا فائدہ اٹھایا، اور اگست 2021ء تک مکمل فتح حاصل کر لی، جو نہ صرف امریکی انخلاء کی ناکامی تھی بلکہ ایک ایسے ماڈل کی کامیابی بھی جس میں فوجی مزاحمت کو مذاکرات کی آڑ میں برقرار رکھا جائے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دوہرانے کا عزم کیا ہوا ہے اور حماس کو افغان طالبان کی طرح مسلح برقرار نہیں رکھنا چاہتے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے پر زور دیتا ہے، جو دوحہ کے نرم فریم ورک سے بالکل مختلف ہے، مگر قیدیوں کی تبادلہ کی شق میں واضح مماثلت ہے جو دونوں معاہدوں کی بنیاد بنتی ہے۔ یہ 20نکاتی منصوبہ فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی انخلاء اور حماس کی فوجی ڈھانچے کی تباہی پر مبنی ہے، جس میں حماس کو آزاد نگرانوں کی نگرانی میں ہتھیاروں کی ڈکمیشننگ اور غزہ کی غیر فوجی کاری قبول کرنے کی شرط ہے، جبکہ حماس کے ارکان کو امن کی ضمانت پر معافی اور باہر جانے کی سہولت دی جائے گی۔ منصوبے کے تحت غزہ کی عبوری حکومت ایک تکنیکی فلسطینی کمیٹی کے پاس ہوگی، جس کی نگرانی ٹرمپ کی سربراہی میں ’ بورڈ آف پیس‘ کرے گا، جس میں عرب اور مغربی ممالک شامل ہوں گے، اور اسرائیل کو سرحدوں پر سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کی اجازت ہوگی۔
حماس نے اسے جزوی طور پر قبول کیا ہے، خاص طور پر یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے پر، جہاں 20زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور 28شہدا کی لاشوں کے بدلے 250فلسطینیوں کو عمر قید کی سزا اور 1700غزہ سے گرفتار افراد کو رہا کرنے کی بات ہے، مگر غیر مسلح کرنے اور ٹرمپ کی نگرانی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، کہتے ہوئے کہ اسرائیل کی مکمل واپسی کی شرط پوری ہونے تک غیر مسلح ہونے سے انکار ہے، کیونکہ ماضی میں اسرائیل نے وعدے توڑے ہیں، جیسے 2024ء کی جنگ بندی میں انخلاء کے وعدوں پر عمل نہ کرنا۔ حماس کا فوجی سربراہ عز الدین الحداد نے بھی منصوبے کو مسترد کر دیا، کہتے ہوئے کہ یہ حماس کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے، اور حماس نے واضح کیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک مسلح مزاحمت جاری رہے گی، کیونکہ اگر مسلح مزاحمت ختم ہو جائے اور اسرائیل سے جوابدہی نہ ہو تو غزہ کا بحران کبھی حل نہیں ہوگا، جو دوحہ میں افغان طالبان کی حکمت عملی کی یاد دلاتا ہے جہاں غیر مسلح کرنے کی شرط کو بالاآخر نظر انداز کر دیا گیا۔
( جاری ہے )

جواب دیں

Back to top button