غزہ: امن کا خواب انصاف کے بغیر ناممکن

غزہ: امن کا خواب
انصاف کے بغیر ناممکن
خطہ فلسطین اس وقت تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ہے۔ اسرائیلی جارحیت، حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع، اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، اور بین الاقوامی خاموشی نے غزہ کو ایک مکمل انسانی المیہ میں بدل دیا ہے۔ حالیہ پیش رفت میں سعودی عرب، پاکستان، ترکیہ، قطر، اردن، مصر، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا جیسے اسلامی ممالک نے امریکا کے توسط سے پیش کیے گئے ’’ غزہ امن منصوبے‘‘ پر حماس کے مثبت ردعمل کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کیا یہ منصوبہ واقعی ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے، یا یہ بھی ماضی کی طرح فلسطینیوں کی جدوجہد کو دبانے کا ایک نیا حربہ ہے؟ اسلامی دنیا کے بڑے ممالک کا ایک مشترکہ بیان جاری کرنا اور حماس کے مثبت رویے کا خیر مقدم کرنا ایک مثبت سفارتی اشارہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک اب فلسطین کے مسئلے پر کم از کم سفارتی سطح پر ایک صف میں کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بیان میں حماس کی طرف سے غزہ کی عبوری انتظامیہ کو ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے کے اعلان کو اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حماس اب جنگ سے ہٹ کر ایک سیاسی حل کی طرف جھکائو ظاہر کر رہی ہے، بشرطیکہ اس کے بنیادی مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ مشترکہ بیان میں جس جامع جنگ بندی، انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی، فلسطینی اتھارٹی کی واپسی اور مغربی کنارے و غزہ کی وحدت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ تمام نکات ایسے ہیں جو ایک طویل مدتی اور پائیدار حل کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر یہ نکات عملی جامہ پہن لیں تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے فلسطین کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کے بیانات بظاہر ایک متوازن موقف کی تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان کے لہجے میں چھپی دھمکیاں اور عدم اعتماد بھی نمایاں ہیں۔ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ اگر حماس نے اقتدار نہ چھوڑا تو اسے مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکا امن منصوبے کو دبائو کی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے نہ کہ ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر۔ مارکو روبیو نے یہ تسلیم کیا کہ مذاکرات میں 90فیصد معاملات طے پا چکے اور یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا امکان ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معلوم نہیں کہ حماس واقعی سنجیدہ ہے یا نہیں، اس عمل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ امریکا کا یہ دہرا رویہ، جس میں ایک جانب امن کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف بمباری کے ساتھ حماس کو دھمکیاں دی جارہی ہیں، امن کے ان امکانات کو سبوتاژ کر سکتا ہے جن کی بنیاد پر یہ منصوبہ کھڑا ہے۔ امن مذاکرات کے شور میں یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری بدستور جاری ہے۔ گزشتہ 24گھنٹوں میں مزید 19فلسطینی شہید ہوچکے، جن میں بچے اور امداد کے منتظر شہری بھی شامل ہیں۔ غذائی قلت سے شہید ہونے والوں کی تعداد 460تک جا پہنچی ہے، جس میں 154بچے شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل تاحال طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی پالیسی پر قائم ہے۔ اگر واقعی عالمی طاقتیں امن کی خواہاں ہیں تو سب سے پہلا اور لازمی قدم اسرائیل کو فوری جنگ بندی پر مجبور کرنا ہوگا۔ جب تک اسرائیلی جارحیت نہیں رُکتی، اُس وقت تک کسی بھی منصوبے کو سنجیدہ نہیں لیا جاسکتا۔ ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کا امریکی امن منصوبے پر تحفظات کا اظہار، دیگر مسلم ممالک کے لیے ایک چشم کشا موقف ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا کہ یہ منصوبہ مکمل نہیں ہے اور ہر شق سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امن منصوبہ دراصل مکمل فلسطینی آزادی یا دو ریاستی حل کے وعدے کے بجائے وقتی جنگ بندی کا ایک جُزوی حل ہے۔ انور ابراہیم کا یہ موقف قابلِ تحسین ہے کہ اس وقت سب سے بڑی ترجیح فلسطینیوں کی زندگیاں بچانا ہونی چاہیے، نہ کہ کسی سیاسی منصوبے کی کامیابی۔پاکستان نے نہ صرف امن منصوبے کی حمایت کی ہے بلکہ صمود فلوٹیلا میں شامل اپنے شہریوں، بشمول سابق سینیٹر مشتاق احمد، کی واپسی کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں۔ دفتر خارجہ کا بروقت ردعمل اور یورپی دوست ممالک کے ذریعے اپنے شہریوں کی خیریت معلوم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان فلسطین کے مسئلے پر صرف سیاسی بیانات تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے قاہرہ مذاکرات میں شرکت کا اعلان ایک بظاہر مثبت پیش رفت ہے، لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا اصرار کہ حماس کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے، چاہے سیاسی منصوبے سے یا فوجی طاقت سے، امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر بات کررہا ہے، دوسری جانب وہ حماس کے مکمل خاتمے پر مُصر ہے۔ یہ رویہ کسی بھی طرح سے امن کے حق میں نہیں بلکہ ایک نئے تصادم کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ امن منصوبہ ایک موقع ضرور ہے، لیکن صرف اسی صورت میں اگر اس میں فلسطینی عوام کی خود مختاری، مکمل اسرائیلی انخلا، دو ریاستی حل اور غزہ کی تعمیر نو کو یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ منصوبہ صرف وقتی جنگ بندی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور اسرائیل کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش ہے تو یہ دیرپا حل نہیں بن سکتا۔ اسلامی دنیا کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے، اس منصوبے کو فلسطینی مطالبات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح مغربی طاقتوں کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔ اگر عالمی برادری واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے اسرائیل پر دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ فوری جنگ بندی کرے، انسانی امداد کو بحال کرے اور دو ریاستی حل کو تسلیم کرے۔ جب تک طاقتور مظلوم کو انصاف نہیں دیتا، امن صرف ایک فریب ہی رہے گا۔ غزہ کے بچے، مائیں اور نوجوان ایک ایسے حل کے منتظر ہیں جو طاقتوروں کے بجائے ان کی آزادی، عزت اور زندگی کا ضامن بنے۔
بھارت میں مذہبی انتقام کی نئی لہر
بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، آج کل اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ریاستی انتقامی کارروائیوں کی زد میں ہے۔ حالیہ دنوں میں ’’آئی لَو محمدؐ’’ مہم کے تحت مسلمانوں کی جانب سے عقیدت و محبت کا اظہار، بھارتی ریاستی اداروں اور انتہاپسند ہندو تنظیموں کو گوارا نہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک بار پھر بھارت کی مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے دعوے مشکوک نظر آتے ہیں۔ یہ مہم، جو دراصل عید میلاد النبیؐ کے موقع پر رسولِ اکرمؐ سے عقیدت کے اظہار کے طور پر شروع کی گئی، ایک پُرامن مذہبی سرگرمی تھی۔ کانپور، بریلی اور دیگر شہروں میں مسلمانوں نے جلوسوں اور بینرز کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ’’آئی لَو محمدؐ’’ جیسے جملے، جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں، کو اشتعال انگیز قرار دے کر جس انداز میں ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا، وہ بھارت کے آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے آرٹیکل 25کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کانپور میں بینر آویزاں کرنے پر انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے پرتشدد ردعمل، توڑ پھوڑ اور بعد ازاں مسلمانوں پر مقدمات درج کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لیے قانون کا اطلاق امتیازی بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ ایک طرف ہندو شدت پسند آزادی سے نفرت انگیز نعرے لگاتے اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کو اپنے پیغمبرؐ سے محبت کے اظہار پر سزا دی جارہی ہے۔ رائے بریلی میں مولانا توقیر رضا خان کی رہائش گاہ کے باہر نکالی گئی پُرامن ریلی پر پولیس کا لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا سلسلہ، ریاستی جبر کی بدترین مثال ہے۔ اس کے بعد جو اقدامات کیے گئے، جیسے کہ مولانا کے قریبی ساتھیوں کی جائیدادوں کا انہدام، یہ اوامر کسی مہذب جمہوری ریاست میں ناقابلِ تصور ہیں۔ جائیدادوں کو سزا کے طور پر استعمال کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی بھی ہے۔ یہ عمل عدالتی فیصلے کے بغیر کی گئی سزا کے مترادف ہے، جو قانون کی بالادستی کے بجائے شخصی اور گروہی انتقام کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف بھارتی مسلمانوں میں احساسِ محرومی کو جنم دے رہی، بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور او آئی سی کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیں اور بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ مذہبی آزادی کا احترام کرے، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے، اور انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ روش ترک کی جائے، مذہبی ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کی جائے اور تمام اقلیتوں کو مساوی شہری حقوق دئیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، یہ پالیسی خود بھارت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔





