Column

آزاد کشمیر پر بھارتی پروپیگنڈا مسترد، پاکستان کا صائب جواب

آزاد کشمیر پر بھارتی پروپیگنڈا مسترد، پاکستان کا صائب جواب
آزاد جموں و کشمیر اس وقت سیاسی، سماجی اور سفارتی دبائو کے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایک جانب جاری بھاتی زہریلا پروپیگنڈا ہے جو پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے گھڑنے میں مصروف ہے اور دوسری طرف گزشتہ چند روز سے اندرونِ آزاد کشمیر عوامی بے چینی، احتجاج اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف بڑھتی مزاحمت ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کا غیر جانبدار اور گہرائی سے تجزیہ ضروری ہے تاکہ صورت حال کا صحیح رخ اجاگر کیا جا سکے۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان نے حال ہی میں بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر سے متعلق لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ بھارت نے الزام عائد کیا کہ پاکستان آزاد کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور عوام پر جبر کے ذریعے ان کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ یہ الزامات سراسر بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔ بھارت خود مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہائیوں سے نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا، بلکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو بھی مسلسل پامال کر رہا ہے، وہاں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے کالے قوانین، میڈیا پر قدغن، ماوراءے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری عام ہے۔ ایسی صورت حال میں بھارت کا آزاد کشمیر میں ’’ مظالم’’ کا راگ الاپنا نہ صرف مضحکہ خیز ہے، بلکہ خود اس کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کا موقف روزِ اول سے واضح رہا ہے، کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا جائے، جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں میں درج ہے۔ دفتر خارجہ کا حالیہ بیان اس موقف کی توسیع ہے، جس میں کہا گیا کہ پاکستان آزاد کشمیر کے عوام کے سیاسی و شہری حقوق کا مکمل تحفظ کرتا ہے اور ان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے پُرعزم ہے۔یہ عزم نہ صرف پاکستان کی آئینی ذمے داری ہے بلکہ کشمیری عوام سے تاریخی، مذہبی اور اخلاقی وابستگی کا مظہر بھی ہے۔ آزاد کشمیر میں عوامی نمائندے جمہوری عمل سے منتخب ہوتے ہیں، عدلیہ آزاد ہے اور احتجاج کا حق تسلیم شدہ ہے۔ البتہ، داخلی طور پر جو مسائل جنم لے رہے ہیں، وہ سیاسی قیادت کے لیے انتباہ ہیں کہ عوامی مسائل کا بروقت اور موثر حل تلاش کیا جائے۔ حالیہ دنوں میں آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور لاک ڈائون نے خطے میں معمولاتِ زندگی کو مفلوج کردیا۔ مطالبات میں بجلی کے نرخوں میں کمی، آٹا سبسڈی کی بحالی اور حکومتی اخراجات میں کمی جیسے عوامی فلاحی نکات شامل ہیں، جو عوام کی حقیقی مشکلات کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم، احتجاجی تحریک کی آڑ میں بعض عناصر کی جانب سے ریاستِ پاکستان کے خلاف نعرے بازی، قومی پرچم کی بے حرمتی اور آزادی کشمیر کے بنیادی بیانیے سے انحراف تشویش ناک پہلو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی جیسی تنظیم نے ایکشن کمیٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ہے، جس کا موقف ہے کہ جب مطالبات پورے ہوچکے، تو تحریک کو متنازعہ رخ دینے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور دیگر اعلیٰ حکام نے نہ صرف احتجاجی قیادت سے مذاکرات کیے بلکہ بعض مطالبات کی منظوری کے بعد معاہدے پر اصولی اتفاق بھی کیا۔ مہاجرین کی نشستوں پر جاری بحث کو آئینی دائرے میں لے جانے اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اعلان بھی ایک درست قدم ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ہوش مندی کا مظاہرہ کرے، جس طرح وزیر قانون نے واضح کیا کہ کشمیر سے ہجرت کر کے آئے افراد کا تعلق ان کی سرزمین سے کسی طور منقطع نہیں کیا جاسکتا، یہ ایک حساس آئینی معاملہ ہے اور اس کا حل صرف گفت و شنید اور آئینی ترامیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے بالکل درست نشان دہی کی کہ موجودہ صورت حال کا فائدہ پاکستان کے بدخواہ اٹھا سکتے تھے مگر معاملے کو مذاکرات کے ذریعے سنبھالنے میں کامیابی، جمہوریت اور عوام دونوں کی جیت ہے۔ تاہم، اس فتح کو مستقل بنانے کے لیے حکومت کو زبانی وعدوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ حکومت کو وہ تمام مطالبات جو عوامی فلاح کے زمرے میں آتے ہیں، ان پر جلد از جلد عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ عوامی بے چینی کا خاتمہ ہو۔ ریاستِ پاکستان کے خلاف نعرے بازی اور آزادی کشمیر کے بیانیے سے انحراف کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایسے عناصر کی نشان دہی اور ان کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی و سماجی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کو فعال کرنا چاہیے، تاکہ نچلی سطح پر مسائل حل ہوں۔ بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈے کا توڑ صرف بیانات سے نہیں، بلکہ مضبوط سفارتی و میڈیا محاذ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کو اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی اداروں میں اپنی موثر موجودگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر کی حالیہ صورت حال سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر رہی تھی، تاہم، حکومت پاکستان نے بروقت مداخلت اور مذاکرات سے بگاڑ کو بڑی حد تک سنبھال لیا ہے۔ اب یہ وقت ہے کہ سنجیدگی، فہم و فراست اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے تمام فریقین مل بیٹھ کر ایک پائیدار حل کی جانب پیش رفت کریں۔ کشمیری عوام کے حقوق کا تحفظ، تحریک آزادی کی بقا اور بھارت کے جھوٹے بیانیے کا رد، یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم داخلی استحکام کو ترجیح دیں۔
بلوچستان: فتنہ خوارج کے 7دہشتگرد ہلاک
بلوچستان ایک عرصے سے دشمن قوتوں کی تخریب کاری، پراکسی وار اور دہشتگردی کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کے دشمن عناصر، خصوصاً بھارت، بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ روز ضلع شیرانی میں سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 7دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ آپریشن مصدقہ اطلاعات پر کیا گیا اور سکیورٹی فورسز نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں دشمن کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ فائرنگ کے شدید تبادلے کے بعد 7دہشتگردوں کا مارا جانا نہ صرف ریاست کی عسکری برتری کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی قسم کی دہشتگردی یا غیر ملکی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ دہشتگردوں سے اسلحہ، گولا بارود اور دھماکا خیز مواد کی برآمدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ عناصر کسی بڑے تخریبی منصوبے کی تیاری میں تھے۔ تاہم، سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔ حالیہ کارروائی اس جانب ایک اور اشارہ ہے کہ بھارت پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز نہیں آرہا۔ ماضی میں بھی پاکستان نے اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر بھارتی پراکسی جنگ کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرپرستی اور دہشتگرد تنظیموں کو مالی و عسکری امداد، یہ سب شواہد ہیں جنہیں عالمی برادری نظرانداز نہیں کر سکتی۔ شیرانی آپریشن میں ’’ فتنہ الخوارج’’ کے خلاف کارروائیاں اس امر کی یاددہانی ہے کہ پاکستان دشمن ایجنڈے کے خلاف چوکس ہے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بروقت کارروائی پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا اور بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے جاری کوششوں کو سراہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاستی اداروں کی قربانیوں اور عوام کی حمایت سے ہی دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ ممکن ہوئی ہے۔ آج قوم سیکیورٹی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور یہی یکجہتی دشمنوں کے لیے سب سے بڑا پیغام ہے۔ کوئٹہ، شیرانی یا دیگر علاقوں میں دہشتگردی کے خلاف جاری کارروائیاں پاکستان کے عزم کی غمازی کرتی ہیں کہ یہ ملک کسی بھی داخلی و خارجی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ضروری ہے کہ انٹیلی جنس کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائے، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کا قلع قمع کیا جائے اور بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرکے وہاں ترقی کا نیا باب کھولا جائے۔ ریاست نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جو عناصر پاکستان کے امن کو چیلنج کریں گے، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ قوم کو اپنے محافظوں پر فخر ہے اور یہ جنگ دہشتگردی کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button