حسد
حسد
صفدر علی حیدری
دوسروں کو عطا کردہ نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا حسد کہلاتا ہے ۔ بعض مفسرین نے حسد کا یوں معنی کیا ہے کہ جیسے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھ کر اتنا رگڑا جائے کی خراش آ جائے ۔ بعض علماء لغت نے حسد کے اصلی لفظ کو حسدل سے لیا ہے جس کا معنی کھٹمل بنتا ہے۔ جس طرح کھٹمل انسان کو بدن کو زخمی کرکے اس کا خون چوستا ہے اسی طرح حسد بھی حسد کرنے والے شخص سے یہی کام کرتا ہے۔
حاسد دوسروں کی نعمتوں کو ختم کرنے کی آرزو کرتا ہے اگرچہ اس کام میں اس کو جتنی ہی کوشش کیوں نہ کرنی پڑی ۔
حسد تو کسی سے بھی ہو سکتا ہے لیکن اس شخص سے حسد ہو جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس سے میل جول زیادہ ہو یا وہ اس کا ہم پیشہ یا ہم پلہ ہو۔ یا پھر اس سے قریبی تعلق ہو، بعض لوگ مال اور اقتدار میں کسی کی فضیلت کی بنا پر بھی حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا پھر کسی کی ترقی و عروج کی بنا پر بھی حسد کرتے ہیں
حسد اور اس کے مشتقات قرآن میں چار آیت میں استعمال ہوئے ہیں
’’ انہوں نے اپنی جانوں کا کیا برا سودا کیا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کا انکار کر رہے ہیں محض اس حسد میں کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ( وحی) نازل فرماتا ہے پس وہ غضب در غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب ہے‘‘۔
گویا یہود فقط اپنے حسد کی بنا پر ایمان سے محروم رہے کیوں کہ یہودیوں کی خواہش تھی کہ ختم ِنبوت کا منصب بنی اسرائیل میں سے ہی کسی کو ملتا ۔
ارشاد ربانی ہے
’’ کیا یہ ( دوسرے) لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے ‘‘۔
کلام مجید میں حسد کرنے والوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے ۔ اس سے حسد کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے
جناب رسالت مآبؐ فرماتے ہیں
’’ تم حسد سے بچو کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے‘‘۔
’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ ہی حسد کرو‘‘۔
نیز فرمایا
’’ کسی شخص کے دل میں ایمان اور حسد اکٹھے جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔
جناب موسیٰ ٌمناجات اور خدا سے گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک مرد کو عرش خدا کے سائے میں دیکھا ۔ عرض کی: الہیٰ ! یہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں ہے؟
خطاب ہوا: اے موسیٌٰ! یہ وہ ہے کہ جب میں نے لوگوں کو نعمتیں عطا کیں تو اس نے حسد نہیں کیا۔
حکیم اسلام فرماتے ہیں
’’ حاسد دوسروں کے مال و جاہ پر تو حسد کرتا ہے ، مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہیں کرتا، حالاں کہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے زیادہ گراں قدر ہے‘‘۔
آپ سے صحت مندی کے بارے پوچھا گیا تو فرمایا
’’ حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے ‘‘۔
گویا حسد نہ کرنا صحت مندی ہے۔
جدید طب نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔
’’ حسد سے دل میں ایک ایسا زہریلا مواد پیدا ہوتا ہے جو حرارت غریزی کو ختم کر دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں جسم نڈھال اور روح پر مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس لئے حاسد کبھی پھلتا پھولتا نہیں، بلکہ حسد کی آنچ میں پگھل پگھل کر ختم ہو جاتا ہے ‘‘۔
’’ حسد اس لیے بھی بہت بڑا گناہ ہے کہ حسد کرنے والا گویا اللہ تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے کہ فلاں آدمی اس نعمت کے قابل نہیں تھا، اس کو یہ نعمت کیوں دی؟ آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ پر کسی قسم کا اعتراض کرنا کتنا بڑا گناہ ہو گا‘‘۔
( امام الغزالی )
حسد کے باعث حاسد کا دل اندھا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں
’’ حسد کرنے والے کا دل جب دنیا کی ظلمت میں گھر کر خطراتِ شیطانی اور ہوائے نفسانی کی آماجگاہ بن چکا ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہیں پڑتی اور جس دل پر اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت نہ پڑے وہ سیاہ و گمراہ ہو کر حرص و حسد اور کبر سے بھر جاتا ہے ‘‘۔
فرمایا
’’ ضروری ہے کہ تو نفس و شیطان و دنیا کو بھلا کر اپنے قلب اور اپنی روح کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اسم اللہ ذات میں اس طرح غرق کر دے کہ ہمہ وقت عشق و محبت ِالٰہی اور اسرارِ الٰہی کا مشاہدہ کرتا رہے اور تیرے وجود میں حرص و حسد کبر و ہوائے نفسانی اور شہوت کا نام و نشان باقی نہ رہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلا حسد کرنے والا حاسد ابلیس ہے، جس نے حضرت آدم علیہ السلام کے اللہ کے نائب اور خلیفہ بننے پر حسد کیا اور یہ حاسدین کا سر غنہ ہے۔ جب کہ اولادِ آدم میں حسد کی آگ میں جلنے والا سب سے پہلا شخص قابیل ہے، جس نے حسد کی بنا پر اپنے ہی بھائی ہابیل کو قتل کیا۔
مومن کبھی حاسد نہیں ہو سکتا کہ یہ شیطان کی صفت ہے۔
اس دنیا کا سب سے پہلا گناہ حسد تھا
مفسرین کرام نے حسد کو جادو سے بھی خطرناک اور بدتر جرم قرار دیا ہے کیوں کہ سورۃ الفلق میں خود خالق ِکائنات نے دوسرے شرور کے ساتھ حسد کا ذکر خصوصیت سے فرمایا ہے ۔
یقینا حسد ایک نفسانی و نفسیاتی مرض ہے۔ یہ دل کا روگ ہے۔
یہ اخلاقی برائیوں میں سر فہرست ہے۔ شاہد حسد کے بعد بہت سی دوسری برائیوں کا راستہ صاف ہو جاتا ہے ۔ اور ان میں مبتلا ہونا آسان ہو جاتا ہے۔
حاسد کو نفسیاتی مریض قرار دیا گیا ہے۔ کیوں کہ وہ دوسروں کی نعمتوں سے ناخوش رہتا ہے۔ حاسد اور حاسد معاشرے میں بغض و عداوت کو فروغ دیتا ہے۔
یہاں پر حسد اور رشک کے درمیان فرق واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔
حسد میں دوسرے کی نعمت کے زوال کی خواہش کی جاتی ہے۔
رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہو کر اس جیسا بننے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اس کے پاس نعمت کے ہونے یا نہ ہونے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔
حضرت زکریاٌ نے جب حضرت مریمٌ کے پاس بے موسمی پھل دیکھا تو آپٌ کو رشک ہوا اور آپٌ نے اپنے لیے اولاد کی دعا جو قبول ہوئی۔
حسد ایک روحانی بیماری تو ہے ہی یہ ایک جسمانی عارضہ بھی ہے۔ اس سے انسانی کی ذہنی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور جسم کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ انسان کی اخروی زندگی کو بھی برباد کر ڈالتا ہے۔ اس لیے اس کا علاج بہت ضروری ہے۔
حدیث میں آتا ہے :
’’ دو شخصوں کے سوا کسی پر ’’ حسد‘‘ کرنا جائز نہیں: ایک وہ شخص کہ جس کو حق تعالیٰ شانہ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس میں مشغول رہتا ہو۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جس کو حق سبحانہ و تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرتا ہو‘‘۔
حسد کا ریشہ دراصل دل کے اندر ہے اس لیے اسے قلب کی صفت کہا گیا ہے۔ یہ دلی صفت بعض اوقات جب انسان کی زبان یا رفتار میں ظاہر ہوتی ہے تب انسان ایک برے گناہ میں مرتکب ہوتا ہے اس وقت اسے چاہیے کہ اپنے گناہ کی معافی مانگے ۔ لیکن بعض اوقات حسد صرف دل کے اندر ہی رہتا ہے، اس صورت میں انسان فقط اپنے اور خدا کے درمیان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
حسد کی بیماری کے علاج کے لیے دو علمی طریقے ذکر کئے ہیں۔
امام جعفر صادق کے بقول
حسد انسان کے خون اور گوشت میں رچا ہوا ہے۔
ابن عربی نے حسد کو ایک ذاتی اور دلی صفت کہا ہے اور اس کے ختم ہونے کو ممکن کہا ہے۔
میرے خیال میں حسد کو دو چیزوں سے ختم کیا جا سکتا ہے
پہلی چیز قناعت ہے اور دوسری توکل۔
دنیا میں ہر کسی کو سب کچھ نہیں ملتا ۔ منہ مانگی موت نہیں ملتی زندگی تو دور کی بات ہے ۔ ایسے میں قناعت ہی ایسا وصف ہے جو انسان کے کام آتا ہے ۔ قناعت سے انسان کے اندر یہ وصف پیدا ہوا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسے اسی پر قانع ہونا ہو گا ۔ شاید اسی لیے کہا گیا کہ قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی ختم ہوتا۔
میں کیوں نہ ایک گھونٹ پہ اکتفا کرتا
کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا بھی ہے
قناعت سے انسان میں یہ سوچ جنم لیتی ہے کہ جو اس کے پاس ہے پہلے وہ اس کا تو شکر ادا کرے ۔ وہ شکر کرے گا تو مالک اس کو اور زیادہ دے گا ۔ پھر اگلے مرحلے میں وہ رب سے کچھ اور طلب کرنے کے دست دعا دراز کرے گا تو توکل کی عظیم صفت اس کی ڈھارس بندھائے گی کہ اگر وہ رب دوسروں کو دے سکتا ہے تو اسے بھی دے گا ۔ اس کے خزانے میں کون سی کوئی کمی ہے ۔
ہمیں دین یہ سکھاتا ہے دنیا کے معاملے میں نیچے کی طرف دیکھو ۔ یہ چیز انسان کی نظر میں ان چیزوں کی قدر و قیمت بڑھا دیتی ہے جو انسان کو پہلے سے دستیاب ہوتی ہیں ۔ اس سے انسان کو قناعت کا نہ ختم ہونے والا سرمایہ حاصل ہوتا ہے جو کر قدم پر اس کی ڈھارس بندھاتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری سے بچاتا ہے ۔ اگلے مرحلے اسے توکل کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حسد کی آگ سے بچائے اور ہمیں رشک کی توفیق عطا فرمائے ، آمین
صفدر علی حیدری







