کھلا تضاد

کھلا تضاد
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
مشرق وسطیٰ کے حالات کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہے اور اسرائیلی درندگی دن بدن بڑھتی جار ہی ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف ایک شخص کی ہٹ دھرمی ،اس کا نظریہ یا طاقت کا بے محابہ و شتر بے مہار استعمال سمجھیں جبکہ دوسری طرف ایک اور شخصیت ،جو دنیا میں امن قائم کرنے کا دعوی لے کر،عالمی طاقت کا صدر بن کر،اسرائیل کا پشتیبان بن کر انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم سے نظریں چراتے ہوئے،اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ پوری دنیا ، مشرق وسطیٰ کے حالات پر ،حیران و پریشان ہے،اپنی کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی طرح اسرائیلی درندگی کو روکا جائے، انسانی حقوق کی پامالیوں کو رکوایا جائے،جنگی جرائم کی سزا قصورواروں کو دی جائے لیکن صرف ایک شخص، جو ساری دنیا میں امن قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اقتدار میں آیا تھا،امن کی ان کوششوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نیتن یاہو کے لئی مغربی ممالک کی فضائی حدود سے سفر کرنا تک مشکل ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود حالیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت و خطاب کے لئے،نیتن یاہو کو ایک لمبا فضائی سفر طے کرنا پڑا ہے کہ کسی طرح فرانس و دیگر مغربی ممالک کی فضائی حدود استعمال نہ کرے مبادا کہیں عالمی عدالت جرائم سے سزایافتہ ہونے کے باعث فرانس یا کوئی دوسرا ملک،اس کے طیارے کو جبرا زمین پر اتار کر اسے گرفتار نہ کرلے۔ میری دانست میں نیتن یاہو کی اس حرکت کو سوائے ایک سٹنٹ کوئی اور معنی نہیں دے سکتا ،کہ اس طرح کی حرکت سے یہ تاثر دینا کہ اسے عالمی قوانین کا خوف ہے یا اقوام عالم اس کے خلاف کوئی باقاعدہ کارروائی کر سکتی ہیں،بے معنی نظر آتا ہے کہ یہی مغربی اقوام تھی جو بغیر سوچے سمجھے،امریکی احکامات پر مسلم ممالک کی بیغ کنی کے لئے میدان جنگ میں اترتی رہی ہیں لیکن آج چونکہ غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہی،لہذا ان مغربی اقوام پر ازخود لازم ہو گیا ہے کہ تمام تر قانونی مراحل سے گزر کر ہی نیتن یاہو جیسے مجرم کے خلاف کارروائی کریں،چہ معنی دارد! بہرکیف اقوام متحدہ کا حالیہ اجتماع بھی حسب سابق ،تندوتیز خطابات کے بعد اختتام پذیر ہو چکا ،سعودی عرب و فرانس کی مشترکہ کوشش کے باوجود فلسطین کو باضابطہ آزاد ریاست تسلیم کرنے کی کارروائی بھی ہو چکی اور تقریبا 142ممالک کے اعلانات ہو چکے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے سے کہیں زیادہ اہمیت ،اسرائیلی جارحیت رکوانے کی ہے،جس میں تاحال مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ ،اقوام عالم بری طرح ناکا م ہیں۔طرہ یہ کے صدر ٹرمپ کی جانب سے ،اہم ترین ممالک کی جانب فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے پر،یہ بیان دینا کہ سب طفل تسلی/کاسمیٹکس /بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ،حقیقی طور پر واقعتا یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کہ جب تک اسرائیل کے مظالم حتمی طور پر نہیں رکتے،فلسطین کو فقط ریاست تسلیم کرنا کافی نہیں۔
جنگ بندی کے حوالے سے جاری کوششوں میں مصروف عمل ’’ مسلم دنیا‘‘ کی کاوشیں اب تک کیا رنگ لائی ہیں،اس کا مظاہرہ ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی درندگی میں کسی قسم کی کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی، جنگ بندی تو بہت دور کی بات دکھائی دیتی ہے۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ جو مسودہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ،نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران ،پیش کیا گیا ہے،اس میں جنگ بندی کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پیشرفت کی بجائے فلسطینیوں کو جلد از جلد،بہتر گھنٹوںکے اندر، یرغمالیوں کی رہائی کا ’’ حکم‘‘ دیا گیا ہے جو بذات خودمعاہدے کی تضحیک و توہین ہے کہ معاہدے میں اس قسم کے الفاظ قطعا استعمال نہیں ہوتے بلکہ طرفین کو مساوی طریقے سے مخاطب کیا جاتا ہے لیکن اس مسودے میں کی تحریر سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ صدر ٹرمپ کسی بھی طور ثالث کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ مسودے میںاستعمال کئے گئے الفاظ و لہجہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ٹرمپ و یاہو دونوں کی نظرمیں حماس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ انہیں مفتوح سمجھ رہے ہیں اور اپنی شرائط ان پر ایسے لاگو کرنے کے درپے ہیں جیسے حماس مکمل طور پر شکست کھا چکی ہواور اسرائیل کا ہر عمل حق بجانب ہے۔ اس مسودے کے رو سے ،جو پہلے 21نکات پر مشتمل تھا اور دوریاستی حل کے مطابق فلسطینی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا جانا تھا، جس کی حمایت کئی ایک مسلم ممالک ٹرمپ کو کروا چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ٹرمپ و یاہو کی پریس کانفرنس میں یہ بنیادی نکتہ مسودے سے یکسر غائب ہے ۔ یوں اس ساری مشق کو ٹرمپ نے ازخود تہس نہس کر دیا ہے کہ یکطرفہ طور پر حماس کو نہتا کرکے،اسرائیلی فوج کے انخلاء کا کوئی بھی معین وقت طے کئے بغیر ،یہ کیسے ممکن ہے کہ خطے میں امن قائم ہو سکے؟اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ واقعتا اگر حماس ہتھیار ڈال دے تو اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائیگی؟یہ صورتحال تو اسرائیلی فوج کے لئے کسی بھی نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں ہو گی کہ انہیں سو فیصد یقین ہو کہ ان کی جارحیت کے جواب میں کسی بھی قسم کی مزاحمت کا امکان باقی نہیں رہا،تو وہ کیسے اور کیونکر خود کو جارحیت سے روکیں گے؟ایسی صورتحال میں تو اسرائیلی فوج درندگی کی وہ مثالیں قائم کرے گی، جو تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملیںگی،غزہ کا جو باقی ماندہ حصہ بچا ہے،اسے تہ تیغ کرنے میں،جو آبادی باقی ہے اس کے خون کی ہولی کھیلنے میں،کون اسرائیلی فوج کو روک پائے گا؟اس صورتحال سے غزہ کے شہری کب تک خود کو بچا پائیں گے ،جو کام حماس کی موجودگی میں ،مزاحمت کے دوران کسی حد تک سست روی کا شکار ہے،کب تک اس جارحیت کے خلاف ٹک پائے گا؟کیا یہ مسودہ اور اس کی شرائط غزہ کے شہریوں کی حفاظت کہلائی جا سکتی ہیں یا اس کا مقصد ،غزہ کو بے دست و پا و نہتا کرکے،اسرائیل کو مزید موقع فراہم کرناکہ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھل کر کھیلو؟شہری آبادی کو تباہ و برباد کرنے کے بعد،ایک اور شق کے مطابق ایک بورڈ بنایا جائے گا ،جو فلسطین کا انتظام و انصرام اپنی ہاتھ میں لے گا،جس کا چیئر مین ٹرمپ بذات خود ہو گا جبکہ اس کے نیچے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر اور اس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے کئی دیگر اکابرین شامل ہوں گے،کیا ٹرمپ غزہ کے شہریوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دینے کے بعد،اس بورڈ کی قیادت کے اہل رہ جاتے ہیں؟ کیا ان کی قیادت میں مشرق وسطی کا مسئلہ واقعتا حل ہو جائیگا یا ان کی ذاتی خواہش کی تکمیل کا باعث ہو گا ؟ کیا اس کے بعد ٹرمپ ،غزہ میں بلند و بالا عمارتیں بنوا کر،اپنی توسیع پسندی کی خواہش اور مشرق وسطی میں براہ راست امریکی موجودگی میں کامیاب نہیں ہو جائیں گے؟ جب امریکی براہ راست اس خطے میں موجود ہوں گے تو کیا باقی مسلم ممالک کی سالمیت و بقاء مستقلا دائو پر نہیں ہوگی کہ ٹرمپ اسی مسودے میں اظہار کر چکے ہیں کہ اس مسودے کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی یا عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اسرائیل کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ جیسے چاہے، غزہ کو مسمار کر سکتا ہے ،تو کیا اسرائیل کی جارحیت صرف غزہ تک محدود رہے گی؟ کیا کل کو یہی شرائط ٹرمپ یا کوئی دوسرا امریکی صدر خطے کے دیگر ممالک کے سامنے پیش نہیں کر سکتا؟ اسی مسودے میں گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل کا حق فائق تسلیم کرنے کا ’’ حکم شاہی‘‘ موجود ہے، کیا کسی ثالث کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ بطور ثالث انصاف کے نام پر ایسا گھنائونا مذاق کرے؟
حیرت تو ٹرمپ کے اس انکشاف پر ہے کہ اسے دنیا کے بیشتر مسلم ممالک کی حمایت اس مسودے پر حاصل ہے، بالخصوص پاکستانی قیادت کے حوالے سے ٹرمپ کا یہ بیان تو انتہائی حیران کن جبکہ پاکستانیوں کے لئے شرمناک ہے کہ بطور ریاست ہم روز اول سے ہی اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست تصور کرتے ہیں لیکن موجودہ قیادت کی ایسے مسودے کی حمایت، پاکستان کے اصولی موقف سے بہرطور پسپائی تصور ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہ ارباب اختیار اس مسلسل مشق سے تھک چکے ہیں اور اب عالمی حقائق سے زیادہ دبائو میں آتے محسوس ہورہے ہیں ،جو مفادات عالمی طاقتیں انہیں دکھانا چاہ رہی ہیں ،اب پاکستانی قیادت وہی دیکھنا چاہتی ہے یا حقیقت کچھ اور ہے؟بظاہر معاملات ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی قیادت مسلسل مزاحمت سے تھک چکی ہے اور اب اپنا طریقہ کار بدلنا چاہ رہی ہے، ممکنہ طور پر جو طریقہ کار افغانستان میں اپنایا گیا تھا ،جس کے جواب میں آج امریکہ کو بگرام ایئر بیس جانے کا غم ستا رہا ہے ،آنے والے دنوںمیں خدا جانے امریکہ کو افغانستان میں اور کیا کچھ جانے کا غم ستائے یا اس کے بعد اسرائیل میں بھی کون جانے! بہرحال اس وقت تک ،جو کردارٹرمپ ادا کررہے ہیں،بالخصوص اپنے انتخابی وعدوں کو مد نظر رکھتے ہوئے،جبکہ پاکستانی قیادت کا نیا پینترا ، خواہ اس کے پیچھے مقصد بیان کردہ ہی کیوں نہ ہو،بلا شک و شبہ اسے کھلا تضاد ہی کہا جا سکتا ہے۔





