CM RizwanColumn

ٹرمپ فارمولا، ڈار کی وضاحت اور۔۔۔۔۔

ٹرمپ فارمولا، ڈار کی وضاحت اور۔۔۔۔۔
تحریر : سی ایم رضوان
غزہ پر صیہونی مظالم دیکھ کر اس نسل کشی کو اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ تو قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ اس کو انسان دشمنی کہنا درست ہو گا۔ اس پر امریکی صدر کی جانب سے جو تازہ اقدام سامنے آیا ہے وہ ہے اس کا بیس نکاتی متنازعہ فارمولا۔ جبکہ اس وقت پاکستانی حکومت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ اس مجوزہ غزہ امن منصوبے سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس کوشش کے طور پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ اُن نکات سے مختلف ہے جو آٹھ مسلم ممالک نے تجویز کیے تھے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔ یاد رہے کہ وائٹ ہاس کی جانب سے اس امن منصوبے کے نکات شیئر کرنے اور اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات سے گھنٹوں پہلے ہی پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس امن منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ میں صدر ٹرمپ کے 20نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے جبکہ اس امن منصوبے کے اعلان کے موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اُن کے غزہ منصوبے کے 100فیصد حامی ہیں مگر جیسے ہی اس منصوبے کی تفصیلات وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر شائع کی گئیں تو بظاہر پاکستان کی پریشانی میں اضافہ ہوا اور پھر اگلے ہی روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے سے کچھ فاصلہ اختیار کرتے دکھائی دیئے۔
پاکستانی حکومت کے اِس بدلتے موقف کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ اچانک تبدیلی کیوں رونما ہوئی؟ کیا پاکستان نے ابتدا میں ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا؟ اور کیا حالیہ موقف کی تبدیلی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اصرار پر منصوبے میں کی گئی ترامیم کا ردعمل ہے، یا اس کے پیچھے پاکستان کا اندرونی سیاسی دبا اصل وجہ ہے؟ خیال رہے کہ ٹرمپ کے غزہ منصوبے اور پاکستان کی جانب سے اس کی حمایت پر پاکستانی سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ’’ ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران اس معاہدے میں کچھ تبدیلیاں کروائی ہیں۔ ان ترامیم کے تحت اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اب مخصوص شرائط سے مشروط ہے اور ایک حفاظتی زون قائم کرنے کی تجویز بھی بعد میں شامل کی گئی ہے۔ اس سے قبل پیش کردہ منصوبے میں اسرائیل کی ریڈ لائنز کے حوالے سے وضاحت کم تھی۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں وہ اہم نکات شامل نہیں جو پاکستان نے سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر تجویز کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اہداف ہم نے انہیں ( ٹرمپ) کو بتائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ کام کریں۔ ڈار نے مزید کہا کہ امریکی صدر نے آٹھ ممالک کی وزرائے خارجہ سے ایک قابلِ عمل حل دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، اسحاق ڈار کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی مداخلت کے بعد امریکی منصوبے میں تبدیلی کی گئی اور اس میں ایسی شرائط شامل کر دی گئیں جن کے تحت اسرائیل کا انخلا حماس کے ہتھیار ڈالنے سے مشروط ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ جوائنٹ سٹیٹمنٹ میں ہم نے صدر ٹرمپ کے الگ نقطہ نظر کو تسلیم کیا اور سراہا ہے اور اس کے بعد ہم نے اپنا ایجنڈا بھی دوبارہ دہرایا کہ ہم کن اہداف کے لئے پرعزم ہیں اور ہم مل کر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ یہ حاصل کریں گے اور آٹھ ممالک اس پر پرعزم ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ قطر سمیت دو عرب ممالک نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی ( ابراہم) ایکارڈ کا حصہ نہیں بننے جا رہے۔ ہماری پالیسی وہی ہے۔ اسرائیل کو جس حیثیت میں ہے ویسا ہی رہنے دیں، ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف نہیں جا رہے۔ ہمارا مقصد صرف انسانی مدد، خون ریزی روکنا اور ویسٹ بینک کو بچانا ہے۔ ہم اس کام کے لئے آٹھوں ممالک کے ساتھ پرعزم ہیں اور جب بھی ضرورت ہو گی ہم دستیاب ہوں گے، ہم نے کمٹمنٹ دے دی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی ضمانت کون دے گا اور کیا اس حوالے سے ٹرمپ پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے نائب وزیراعظم نے کہا کہ گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل سے براہِ راست رابطہ نہیں کیا، یورپی کوششیں ناکام رہیں۔ اب چوائس یہ ہے کہ مزید فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں ڈالیں یا فوری طور پر بچا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقصد صدر ٹرمپ کے ذریعے بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سب سے اہم تبدیلی یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی واپسی ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق نہیں بلکہ نیتن یاہو کی خواہش کے مطابق ہو گی۔ حالانکہ ٹرمپ کے منصوبے میں بھی مرحلہ وار واپسی شامل تھی۔ نیتن یاہو یہ چاہتے تھے کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کے عمل اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی کے وقت اور دائرہ کار کے درمیان واضح ربط بنایا جائے اور یہی ایک بڑی تبدیلی تھی۔ وہ یہ بھی واضح کرنا چاہتے تھے کہ فلسطینی اتھارٹی کے لئے ایک اصلاحاتی عمل ضروری ہو، جو جنگ کے بعد یا کم از کم اپنے کردار کے آغاز کے دوران عمل میں آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیر کو پریس کانفرنس اور شائع ہونے والے منصوبے میں بتایا گیا کہ واپسی کے مراحل حماس کے ہتھیار ڈالنے کی پیش رفت سے جڑے ہوں گے۔ اس کے علاوہ واپسی کے آخری مرحلے میں بھی آئی ڈی ایف غزہ میں ایک حفاظتی حدود برقرار رکھے گی جب تک کہ سکیورٹی صورتحال بہتر نہ ہو جائے۔ یہ وہ نکات تھے جو پیر کو ٹرمپ نے پیش کیے لیکن ممکن ہے کہ یہ منصوبہ ہفتے کے آغاز میں عرب رہنماں یا نیو یارک میں پہلے پیش کیے گئے منصوبے سے مختلف ہو کیونکہ ہم مکمل طور پر نہیں جانتے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو کیا منصوبہ پیش کیا تھا۔ یہ جنگ ختم کرنے، یرغمالیوں کو آزاد کرانے، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد فراہم کرنے، ان کی جانوں کو لاحق خطرے کو ختم کرنے اور غزہ کی تعمیر نو کے ذریعے پرامن مستقبل کی شروعات کا بہترین موقع ہے۔ اگر عرب چاہتے ہیں کہ جنگ ختم ہو، تو یہی موقع ہے۔ خاص طور پر وہ ممالک جو حماس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، جیسے قطر اور ترکی پر یہ ذمہ داری ہے کہ حماس سے مثبت جواب لیں، ورنہ جنگ جاری رہے گی۔ پاکستان کی محتاط حکمت عملی صرف اس دستاویز یا منصوبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ملکی اندرونی سیاست سے بھی ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں یہودی سیاسی رہنماں کے ساتھ ہاتھ ملانا آپ کے کیریئر کے لئے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے، وہاں نئے اور غیر روایتی حل کو اپنانا مشکل ہے۔ یہ امر بھی زیر نظر رہے کہ نیتن یاہو کی کروائی گئی ترامیم ایک مسئلہ تو ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم چاہتے ہیں کہ صورتحال بہتر ہو گی تو فوج کو نکالیں گے مگر اسلامی ممالک چاہتے ہیں کہ آئی ڈی ایف پہلے ہی غزہ سے نکل جائے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اس معاہدے سے مکمل دوری نہیں اختیار کرے گا۔ طاقتوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ عرب اور ترک قیادت سنبھالیں اور پاکستان یہ موقف اختیار کر سکے کہ ہم مسلم ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسا موقف ملک میں عوامی رائے کو مثبت کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا اور وسیع تر نقطہ نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ بندی ہو گی اور امداد جانا شروع ہو گی اور جب تک ٹرمپ کھڑے ہیں، یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اسحاق ڈار کے مقف میں تبدیلی کے حوالے سے یہ امر بھی غور طلب ہے کہ ٹرمپ کے سامنے کہی گئی بات سے ملک میں سخت گیر مقف رکھنے والے طبقے کو مطمئن کرنا مشکل ہے۔ اس میں فرق تو لازمی ہو گا اور غزہ جیسے مشکل اور بڑے ایشو کو حل کرنے کے لئے ایسا کرنا قرین قیاس اور لازم ہے۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ چل رہا ہے کہ امریکہ، سعودی عرب، حماس، نیتن یاہو سب راضی ہو بھی جائیں تو بھی سوشل میڈیا واریئرز اور سخت گیر مذہبی طبقے راضی نہیں ہو رہے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ حل وہی ہے جو وہ بتا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی جماعتوں تک سبھی ٹرمپ کے منصوبے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس مجوزہ معاہدے میں دو ریاستی حل کا واضح ذکر نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس منصوبے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور گولان پہاڑیوں پر قبضے کو جائز قرار دینا علاقائی امن کے لئے خطرہ ہے۔ جیسا کہ جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کی غزہ کے حوالے سے پالیسی اور ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے کی تعریف جو 66 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں پر مبنی ہے۔ ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔ تاہم وائٹ ہاس کی ویب سائٹ پر مجوزہ امن منصوبے کی ساتھ اسرائیلی فوج کے غزہ سے مرحلہ وار انخلا کا نقشہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ غزہ میں جنگ کا خاتمے اور تباہ شدہ علاقے کی تعمیر نو وہ عوامل ہیں جس کے لئے امریکہ کے صدر نے معاہدے کا فریم ورک جاری کیا ہے۔ گو اس فریم ورک کی زیادہ تر تفصیل خود امریکی صدر نے ہی فراہم کی ہے۔ عرب اور دیگر اسلامی ممالک جیسے قطر، سعودی عرب، مصر، اردن، ترکیہ، متحدہ عرب امارت، پاکستان اور انڈونیشیا نے بھی معاہدے کے لئے دبائو ڈالا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اسے تسلیم کیا حالانکہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے خلاف ہیں۔ تاہم اس معاہدے پر تیزی سے آگے بڑھنے کے لئے ٹرمپ نے عسکریت پسند تنظیم حماس کو معاہدے قبول کرنے یا مسترد کرنے کے لئے ’ دو سے تین دن‘ کا وقت دیا تھا اور اگر حماس کا جواب ’ نہیں‘ میں ہوا تو پھر جنگ جاری رہے گی۔
یاد رہے کہ مجوزہ منصوبہ کافی حد تک ویسا ہی ہے جس کا اعلان جو بائیڈن نے تقریباً ایک سال پہلے کیا تھا۔ ایک سال کے دوران بڑے پیمانے پر غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہوئیں، تباہی ہوئی اور اب خوراک کی قلت ہے جبکہ حماس کے قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں نے مزید تکلیف کاٹی ہے۔ سابق امریکی صدر بائیڈن کا معاہدہ اس لئے آگے نہیں بڑھ سکا تھا کیونکہ نیتن یاہو نے اپنی کابینہ میں موجود افراد کے دبا میں آ کر اپنے مطالبات مزید بڑھا دیئے تھے۔ اگر غزہ میں انسانی قتال کے ختم ہونے کی بات کی جائے تو یہ فریم ورک ایک اہم موقع ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگ ختم کرنے کے لئے اسرائیل پر دبا ڈال رہے ہیں۔ کاش کہ قتال ختم ہو۔
سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button