گلوبل صمود فلوٹِیلا کے مسافر، مدد کے منتظر

گلوبل صمود فلوٹِیلا کے مسافر، مدد کے منتظر
تحریر : امتیاز احمد شاد
غزہ کی طرف امدادی مشن کے سلسلے میں ’’ گلوبل صمود فلوٹیِلا‘‘ ایک بین الاقوامی بیڑا ہے، جس نے خوراک، دوا اور انسانی امداد لے کر اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس مشن میں متعدد ممالک کے سول سوسائٹی کے کارکن، پارلیمنٹیرین، انسانی حقوق کے فعالین، اور سماجی کارکن شامل ہیں۔ پاکستان کی نمائندگی اس میں سینیٹر مشتاق احمد خان کے توسط سے کی گئی ہے۔ تاہم، اس مشن کے دوران اسرائیلی افواج نے فلوٹیِلا پر کارروائی کر کے متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا، جن میں پاکستان کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ان گرفتار کارکنوں کی تعداد کو بعض ذرائع 450تا 500افراد کے قریب بتاتے ہیں، اور خاص طور پر یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ مشترکہ تعداد 497ہے۔
مشتاق احمد خان پاکستان کے معروف سیاستدان اور جماعت اسلامی کے فعال رکن ہیں، جنہوں نے انسانی حقوق اور فلسطینی قضیہ کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی طرف سے فلوٹِیلا مشن کی قیادت کا عہدہ قبول کیا، اور اس مہم کے ذریعے انہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا موقف پیش کرنے کی کوشش کی کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ ہے۔ غزہ کی صورتحال طویل عرصے سے عالمی سطح پر انسانی بحران کا باعث ہے۔ اسرائیلی محاصرے نے بنیادی اشیائے زندگی، طبی سہولتیں، پانی اور بجلی سمیت دیگر سہولیات کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس تناظر میں فلوٹِیلا مشن ایک علامتی اور عملی کوشش ہے کہ محاصرے کے خلاف بین الاقوامی توجہ اور عملی امداد پہنچے۔ اس طرح کی مہمیں نہ صرف انسانی امداد پہنچاتی ہیں بلکہ عالمی ضمیر کو جگانے کا کام بھی کرتی ہیں۔ جیسے ہی فلوٹیِلا غزہ کی طرف بڑھا، اسرائیلی افواج نے اسے روکا، کارروائی کی، اور متعدد کارکنان کو گرفتار کیا۔ اطلاع ہے کہ لائیو فیڈز منقطع کر دئیے گئے، جہازوں کے ساتھ مواصلات منقطع کی گئیں، اور کارکنان کو بین الاقوامی پانیوں سے اسرائیلی بندرگاہوں تک منتقل کیا گیا۔ بعض کارکنوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں غیر قانونی طور پر اغوا کر کے ان کا راستہ بدل دیا گیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے بیان دیا کہ کارکنان کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ جنگی علاقے کے قریب نہ جائیں اور راستہ بدل لیں، جو کہ فلوٹِیلا نے قبول نہیں کیا۔ ان الزامات کی روشنی میں، یہ معاملہ صرف انسانی حقوق کا نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون، سمندری قوانین، اور ریاستی عمل کا بھی ہے۔ کیا اسرائیل نے بین الاقوامی پانیوں میں کارروائی کا حق استعمال کیا؟ کیا کارکنان کو عادلانہ انتظامی اور قانونی حقوق دئیے گئے؟ کیا انہیں سفارتی رسائی فراہم ہوئی؟ یہ سوالات اہمیت رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی سمندری حقوق، اقوام متحدہ کے سمندری قانون اور دیگر معاہدے ریاستوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی پانیوں میں مناسب اقدامات کریں اور غیر ضروری کشیدگی سے گریز کریں۔ اگر فلوٹِیلا کارکن بین الاقوامی پانیوں میں تھے، تو ان کو بلا وجہ روکا جانا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، اگر وہ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے اور حملہ نہیں کر رہے تھے، تو وہ ’’ غیر مسلح شہری مشن‘‘ کے دائرے میں آ سکتے ہیں، جو مزید قانونی تحفظ کا دعویٰ بناتا ہے۔
گرفتار افراد کو قانونی مشاورت، سفارتی رسائی، انسانی رویے کا حق، اور عدالتی عمل کا حق ہونا چاہیے۔ انہیں غیر ممکن یا آمرانہ طریقے سے ناانصافی کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اگر الزام عائد کیا جائے کہ کارکنان سے ان کی مرضی کے خلاف رویہ اپنایا گیا، تو یہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہوگی۔ بین الاقوامی انسانی حقوق معاہدے، مثلاً بین الاقوامی معاہدہ برائے سول و سیاسی حقوق اور دیگر طریقہ کار، ایسے کیسز میں ریاستوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ قانونی طریقے اپنائیں اور انسانی وقار کا احترام کریں۔ اگر پاکستانی نمائندہ کارکن گرفتار ہوں، تو حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر سفارتی رابطہ قائم کرے، کاروائی کا جائزہ لے، اور گرفتار پاکستانی شہریوں کی حفاظت کرے۔ اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آیا بین الاقوامی تنظیمیں جیسے اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور دیگر ممالک اس معاملے میں مداخلت کر سکتے ہیں یا نہیں۔
فلوٹِیلا کی کارروائی نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔ مختلف ممالک اور عالمی تنظیموں نے اسرائیل کی کارروائی کی مذمت کی ہے، کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، اور اس عمل کو’’ جنگی جرم‘‘ قرار دینے کی آوازیں اٹھائی ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق سپین، ترکی، اور دیگر ممالک نے کارروائی کرنے والے کشتیوں کی مدد اور کارکنان کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تاہم، اس ردعمل کی موثریت اس بات پر منحصر ہے کہ آیا عالمی طاقتیں، اقوام متحدہ اور دیگر قانونی فورمز کارروائی کرنے کے لئے متحرک ہوں گی یا نہیں۔
مشتاق احمد خان کی گرفتاری نے قومی سطح پر ردعمل پیدا کیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق تنظیمیں، میڈیا، اور سول سوسائٹی اس واقعے کی مذمت کر رہی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ فوری اور موثر اقدامات کرے۔ اگرچہ پاکستان نے ایسے بیانات جاری کیے ہوں، لیکن عملی اقدامات اور سفارتی کوششیں ہی اس مسئلے کا حل ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دبائو ڈالے کہ وہ گرفتار کارکنوں کو رہا کرے اور ان کے خلاف کسی غیر قانونی کارروائی سے باز رہے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کونسل، اور دیگر بین الاقوامی فورمز میں اس معاملے کو اجاگر کرے۔ گرفتار پاکستانی شہریوں کو پاکستان کی قانونی ٹیم اور وکلاء سے رسائی یقینی بنائے۔ عوامی بیداری مہم چلائے، میڈیا کو موثر انداز میں استعمال کرے تاکہ اس واقعے کی سنگینی عوام تک پہنچے۔ اُن ممالک کی مدد طلب کرے جن کے کارکنان بھی گرفتار ہیں، اور مشترکہ موقف اختیار کرے۔
یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس طرح کے بین الاقوامی مشنز کی فطرت میں خطرات اور پیچیدگیاں شامل ہیں۔ بین الاقوامی قانون اور ریاستی خود مختاری کے توازن کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ بعض ممالک اپنا موقف نرم رکھتے ہیں اور موثر دبائو نہیں ڈال پاتے اس صورت میں گرفتار افراد تک قانونی اور سفارتی رسائی حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص کر اگر انہیں دور بندرگاہوں یا جیلوں میں رکھا جائے۔ اگر ضروری ہو، خفیہ سفارتی چینلز یا ثالث طاقتیں مداخلت کریں تاکہ انسانی بحالی ہو سکے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان اور اُن کے 497گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا معاملہ صرف ایک انسانی بحران نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون، ریاستی رویی، اور اخلاقی لمحے کا امتحان ہے۔ اگر حکومت پاکستان نے موثر، متوازن اور مستقل حکمتِ عملی اپنائی، تو یہ ممکن ہے کہ یہ مظلوم کارکن جلد از جلد واپس لوٹیں۔ ورنہ، اس واقعے کو ایک انتظام نہ ہونے والی سفارتی ناکامی کی مثال کے طور پر لیا جائے گا۔





