وہم

وہم
تحریر : علیشبا بگٹی
وہم ( Delusion )کیا ہے؟
ایک دفعہ ایک شخص نے رومی فلسفی سے ملاقات کی۔ فلسفی نے اُسے اپنے دسترخوان پر مدعو کیا۔ جب وہ شخص شوربہ پینے لگا۔ تو اس نے پیالے میں سانپ جیسی کوئی چیز دیکھی۔ لیکن شرمندگی کے مارے وہ پیتا رہا۔ گھر جا کر وہ اس بات سے پریشان رہا کہ آخر اس نے کیا پی لیا ہے۔ واقعی، رات کو اس کے پیٹ میں شدید درد شروع ہو گیا، جس نے اُس کی نیند اڑا دی۔ صبح ہوتے ہی وہ فلسفی کے پاس دوا کی تلاش میں پہنچا۔ مگر جب فلسفی نے اسے بتایا کہ شوربے میں کوئی سانپ نہیں تھا، بلکہ وہ تو چھت پر بنی ہوئی تصویر کا عکس تھا۔ اور یہ بات ثابت کرنے کے لیے اس نے دوبارہ شوربہ نکالا۔ تو اُس میں بھی فوراً سانپ کا عکس نظر آیا۔ تو وہ حیران رہ گیا۔ یہ حقیقت جان کر اس کے پیٹ کا درد فوراً غائب ہو گیا۔ یعنی ’’ سانپ صرف اُس کے ذہن میں سوار تھا‘‘۔
ایک بادشاہ تھا، جو بظاہر بہت عقل مند، بہادر اور انصاف پسند مشہور تھا، لیکن دل کے کسی کونے میں وہ وہم کا شکار رہتا تھا۔ ایک روز اسے یہ وہم ہوا کہ اس کے محل کے باورچی اسے زہر دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے بنا تحقیق کے حکم دیا کہ باورچیوں کو قید کر دیا جائے اور کھانا دوسرے لوگ تیار کریں۔ چند دن بعد بادشاہ کو وہم ہوا کہ اس کے وزیر اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک کر کے سب وزیروں کو برطرف کر دیا گیا۔ دربار خالی ہونے لگا۔ بادشاہ کی تنہائی بڑھتی گئی اور خوف بھی۔ پھر ایک دن بادشاہ نے محل کی دیواروں پر کچھ عجیب سائے دیکھے۔ اس نے وہم کر لیا کہ دشمنوں نے محل پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ سپاہیوں کے ساتھ ہتھیار اٹھا کر اندھیرے میں نکل کھڑا ہوا، لیکن باہر نہ کوئی دشمن تھا، نہ حملہ۔ یہ صرف اس کے وہم کا دھوکہ تھا۔ وہم کے سائے آہستہ آہستہ بڑھنے لگے اور بادشاہ کی سلطنت ٹوٹنے لگی۔ رعایا بے سہارا ہو گئی، دربار ویران ہو گیا، اور آخرکار دشمنوں نے حقیقت میں حملہ کر دیا ۔ لیکن اس وقت تک بادشاہ اتنا کمزور اور تنہا ہو چکا تھا کہ دفاع نہ کر سکا۔ اس کی سلطنت ختم ہوگئی۔
یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ وہم صرف ایک فرد کی کمزوری نہیں بلکہ بادشاہ جیسا طاقتور شخص بھی اگر حقیقت کے بجائے وہم کا شکار ہو جائے تو اس کی طاقت، عزت اور سلطنت سب برباد ہو جاتے ہیں۔ وہم کی زنجیر انسان کو اندھیروں میں بھٹکاتی ہے اور حقیقت کی روشنی سے محروم کر دیتی ہے۔ یہ قصہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سب سے خطرناک دشمن تلوار نہیں، بلکہ انسان کا اپنا وہم ہوتا ہے۔ جنگجو اگر اپنے وہم میں قید ہو جائے تو اس کی بہادری، ہمت اور عقل سب بیکار ہو جاتی ہیں۔ اصل قوت یقین اور حقیقت پسندی میں ہے، نہ کہ وہم اور خوف میں۔
وہم ایک ایسی لطیف دھند ہے جو حقیقت اور فریب کے درمیان باریک لکیر کو دھندلا دیتی ہے۔ وہم ایک ایسی کیفیت ہے جو انسانی ذہن کو حقیقت سے دور لے جاتی ہے۔ یہ دراصل ایک ذہنی دھوکہ ہے جس میں انسان کسی غیر حقیقی بات کو غلط یا سچ سمجھ بیٹھتا ہے۔ وہم ایک ذہنی زنجیر ہے جو انسان کو قید کر دیتی ہے۔ وہم میں دل و دماغ غیر حقیقی خیالات اور تصورات میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہم ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ دیمک اندھیرے میں پلتی ہے۔ مفروضہ اور وہم بھی لاعلمی اور خوف میں جنم لیتا ہے۔ دیمک خاموشی سے سفر کرتی ہے لہٰذا مفروضہ بھی بغیر ثبوت کے یقین بن جاتا ہے۔ وہم انسان کو حقیقت سے دور اور بدگمانی کی وادی میں لے جاتا ہے، جس سے نہ صرف اس کا سکون برباد ہوتا ہے بلکہ معاشرتی رشتے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
بقول شاعر
ہم حقیقتوں سے واقف لوگ
اہم ہونے کا وہم نہیں پالتے
مفروضہ عقل کے سفر کو روک کر انسان کو ظاہری حقیقت سے دور اور بے بنیاد خیالات میں الجھا دیتا ہے۔ مفروضہ فلسفیانہ اعتبار سے بھی فکر و دانش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسفہ کہتا ہے کہ انسان حقیقت کو آنکھوں سے نہیں، ذہن سے دیکھتا ہے۔ ذرا سوچئے۔ جب ذہن پر پردہ پڑ جائے تو حقیقت مسخ ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط اور ارسطو نے علم و تحقیق کو گمان کی بجائے دلیل پر قائم کرنے کی تلقین کی ہے۔ مفروضوں سے نجات کا پہلا ذریعہ شعور اور علم ہے۔ جب انسان تحقیق، مشاہدہ اور دلیل کو اپنی زندگی کا معیار بنا لیتا ہے تو بے بنیاد گمان خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ مثبت سوچ اپنانا ہے، کیونکہ بدگمانی ہمیشہ منفی ذہن میں جنم لیتی ہے۔ قرآن و سنت میں بھی تحقیق اور حسنِ ظن کی تاکید کی گئی ہے، جو کہ مفروضوں کے خاتمے کی اصل راہ ہے۔ انسان کا اصل دشمن باہر نہیں، اندر ہے۔ اگر ہم اپنے دل و دماغ سے بے بنیاد مفروضوں کی دیمک کو نہ نکالیں تو زندگی کھوکھلی ہو جائے گی۔
یاد رکھیں حقیقت ہمیشہ روشنی ہے اور مفروضہ ہمیشہ اندھیرا۔ اکثر مفکر اور شاعر اس کشمکش میں دکھائی دیتے ہیں کہ حقیقت کہاں ختم ہوتی ہے اور وہم کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ حقیقت اور وہم کا رشتہ دراصل روشنی اور سایے کا رشتہ ہے۔ وہم ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکا ہی۔ آج کے دور میں ہمارے معاشرے کا اگر کوئی مسئلہ ایسا دیکھنا ہو جو بہت عام ہو تو وہ وہم ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثر سے کم ہی لوگ محفوظ ہیں۔ وہم ہمارے معاشرت میں ہر جگہ ہی جگہ بنا کر بیٹھ چکا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کہیں جاتے ہوئے کالی بلی سامنے سے گزر جائے تو سمجھیں جس کام کے لئے جا رہے ہیں، اس میں ناکامی ہوگی۔ وہم کمزور عقائد کو جنم دیتا ہے۔ کسی بھی معمولی یا غیرمعمولی واقعے کے بعد یہ خیال کرنا کہ اس کی وجہ سے کچھ برا ہوا یا ہونے والا ہے، اسے خوش قسمتی یا بدنصیبی سے منسوب کر لینا، وہم یا توہم پرستی کہلاتا ہے۔ انسانی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش حقیقت اور وہم کے درمیان فرق کرنا ہے۔ حقیقت وہ ہے جو ہے، اور وہم وہ ہے جو ہم سمجھ بیٹھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہم کو حقیقت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم مرض کے وہم میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں کے چکر کاٹتے ہیں، رشتوں کے وہم میں گرفتار ہو کر ایک دوسرے سے بدگمان رہتے ہیں اور ترقی کے وہم میں مبتلا ہوکر اصل محنت سے کتراتے ہیں۔ اگر ہم یورپین لٹریچر، تاریخ اور ان کے طرزِ بودوباش کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ نمبر 13کو اس قدر منحوس سمجھتے ہیں کہ طویل المنزلہ عمارتوں میں 12ویں منزل کے بعد 13ویں منزل نہیں بنائی جاتی اور12کے فوراً بعد 14ویں منزل آجاتی ہے۔ یہ وہم نہیں تو اور کیا ہے ؟
آج کے ڈیجیٹل دور میں وہم نے نیا روپ دھارا ہے۔ اسی لیے وہم کا رنگ اور گہرا ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک فرضی خبر ، لمحوں میں لاکھوں ذہنوں کو قید کر لیتی ہے۔ افواہیں، جعلی خبریں اور سوشل میڈیا کے یہ سائے ایک نئے ’’ اجتماعی وہم‘‘ کو جنم دے رہے ہیں۔ انسان حقیقت تک رسائی کے باوجود وہم کے جال میں زیادہ آسانی سے پھنستا ہے۔ حقیقت ہماری انگلیوں کی پور پر موجود ہے، مگر انسان اب بھی وہم کو زیادہ دل نشین پاتا ہے، شاید اس لیے کہ وہم حقیقت سے زیادہ دلچسپ کہانی سناتا ہے۔ اور کہانیاں ہمیشہ اعداد و شمار پر غالب رہتی ہیں۔ روحانی تربیت، ایمان، ذکر اور عبادات انسان کو وہم سے بچا کر یقین کی روشنی عطا کرتے ہیں۔ سائنسی رویہ، مشاہدہ، تحقیق اور تجربہ، حقیقت اور وہم میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ فلسفے میں وہم کو حقیقت اور مجاز کے مباحث سے جوڑا جاتا ہے۔ افلاطون نے اپنی مشہور تحریر ’’ غار کی تمثیل‘‘ (Allegory of the Cave)میں واضح کیا کہ انسان اکثر وہم میں جکڑا رہتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتا ہے اسے حقیقت سمجھ لیتا ہے، حالانکہ اصل حقیقت پردے کے پیچھے ہے۔ ڈیکارٹ نے اپنے ’’ شک کے فلسفے‘‘ میں کہا کہ انسانی حواس فریب دے سکتے ہیں اور حقیقت کو وہم سے الگ کرنے کے لیے محض عقلِ خالص کا سہارا لینا ضروری ہے۔
اقبالؒ نے بھی وہم کو انسان کی روحانی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا
خرد نے کہا ہے کہ یہ لافانی ہے
دل نے کہا ہے کہ یہ وہم ہے شاید
جمشید احمد قریشی ( پاکستانی ماہر نفسیات) کے مطابق ’’ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم حقیقت سے زیادہ وہم کو اپنی زندگی کی بنیاد بنا لیتے ہیں‘‘۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ وہم انسان کی ذہنی و روحانی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ نفسیات، فلسفہ اور تاریخ سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہم حقیقت کو دھندلا دیتا ہے اور انسان کو اپنی اصل صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے۔ فرد اور معاشرہ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہم کی زنجیروں کو توڑ کر حقیقت پسندی، عقل و شعور اور ایمان کے راستے کو اپنائیں۔ یہی راستہ نجات، ترقی اور حقیقی آزادی کا ضامن ہے۔ جبکہ اکثر وہم حقیقت کے چہرے پر نقاب ڈال دیتی ہے۔ وہم خود اعتمادی کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ اور فیصلے غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ وہم سے نجات کے لیے مضبوط ایمان، مثبت سوچ، حقیقت پسندی اور مطالعہ کی بے حد ضرورت ہے کیونکہ دراصل وہم کی حیثیت خواب اور حقیقت کے بیچ سراب کی ہے۔
علیشبا بگٹی







