مسلم ممالک ابراہم اکارڈ کی زد میں

مسلم ممالک ابراہم اکارڈ کی زد میں
تحریر : ایم اے تبسم
ابراہم اکارڈ سلسلہ معاہدات ہے جس کے ذریعے 2020ء میں اسرائیل اور کئی اہم عرب و مسلم ممالک نے سفارتی تعلقات قائم کیے اور معاشی و سکیورٹی تعاون کو فروغ دیا۔ ان معاہدوں کی بنیاد امریکہ کی ثالثی پر رکھی گئی اور اس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، اور مراکش شامل ہوئے۔ مراکش کے معاملے میں مغربی صحارا پر امریکی حمایت ملی، جبکہ سوڈان کو دہشت گردوں کی امریکی فہرست سے نکالنے اور مالی معاونت کی یقین دہانی دی گئی۔
معاہدے کے اولین فریق متحدہ عرب امارات اور بحرین رہے، بعد ازاں سوڈان اور مراکش بھی شامل ہوئے، کئی دیگر عرب و مسلم ممالک ( جیسے سعودی عرب، قطر، کویت، وغیرہ) نے اس میں شمولیت نہیں اختیار کی اور فلسطین سے متعلق حل نہ نکلنے کی وجہ سے اکثر عوامی سطح پر مخالفت بھی دیکھنے میں آئی۔ حکومتوں نے اس معاہدے کو سفارتی کامیابی قرار دیا، مگر عام رائے عامہ نے اسے فلسطینی کاز سے انحراف سمجھا۔ فلسطینی قیادت، حزب اختلاف اور مختلف مسلم تنظیموں نے ان معاہدات کو قبلہ اول سے غداری اور فلسطینی حقوق کی نفی قرار دیا، کچھ عرب ممالک نے سفارتی طور پر خاموش حمایت کی، مگر پورے خطے میں اس معاہدے کی مخالفت برقرار رہی، مسلم دنیا کی بڑی آبادی آج بھی اسرائیل کے ساتھ معمولاتی تعلقات کے خلاف ہے،2025 ء میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے کے تمام ممالک ( خاص طور پر سعودی عرب اور افریقہ کے شمالی ممالک) کو ابراہیمی معاہدے میں شامل کرنے کے لئے کوششیں تیز کی ہیں، سعودی عرب اب بھی محتاط ہے اور ابھی تک سرکاری طور پر معاہدہ کا حصہ نہیں بنا، معاہدات کے تحت تجارت، دفاع، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون جاری ہے، مگر فلسطین کے مسئلے پر حقیقی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ابراہیمی معاہدہ مسلم دنیا کے لیے سفارتی اور نظریاتی اعتبار سے مسلسل ایک تقسیم کا سبب ہے، کچھ ممالک نے سفارتی فوائد کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہیں، جبکہ اکثریت کی رائے میں فلسطینی حقوق کو ترجیح دینا ضروری ہے۔
ابراہیمی معاہدہ کو تسلیم کرنے والے مسلم ممالک میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے معاہدہ پر واشنگٹن میں 15ستمبر 2020ء کو باضابطہ دستخط کیے، سوڈان نے اکتوبر 2020ء میں اصولی طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کیا، تاہم اس کی باضابطہ توثیق میں تاخیر ہوئی اور 2024ء تک اس کا قانونی اسٹیٹس واضح نہیں تھا۔ مراکش نے 10دسمبر 2020ء کو معاہدہ کیا۔2025ء میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام، لبنان اور سعودی عرب کو بھی اس معاہدے میں شامل کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں، لیکن ابھی تک یہ ممالک باقاعدہ طور پر معاہدہ کا حصہ نہیں بنے۔ اسلامی دنیا کے دیگر ممالک نے اب تک اسرائیل سے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے اور فلسطینی معاملے پر اختلافات برقرار ہیں۔
عوامی مظاہروں اور سفارتی دبائو نے خطے میں اہم سیاسی نتائج کو جنم دیا، بعض حکومتیں اہم عوامی رائے اور مسلسل احتجاج کے باعث پالیسی بدلنے یا فیصلے موخر کرنے پر مجبور ہوئیں اور اسرائیل و فلسطین معاملے پر نئی سفارتی صف بندی ظہور پذیر ہوئی، اسرائیلی حکومت پر اندرونی دبائو بڑھا، یرغمالیوں کے اہل خانہ اور سول سوسائٹی کی جانب سے مسلسل احتجاج کے باعث اسرائیلی انتظامیہ امن مذاکرات یا فوجی پالیسی میں ردوبدل پر مجبور ہوئی، اسرائیل میں سیاسی قیادت ( خصوصاً نیتن یاہو) نے کئی اہم فیصلے محض وقتی سیاسی فائدے کے لیے موخر کئے اور مذاکراتی عمل کو طوالت دی، جس کی وجہ سے کابینہ اور اتحادی حکومتوں میں اختلافات پیدا ہوئے، بے شمار مسلم ممالک میں عوامی احتجاج اور اپوزیشن دبائو کے سبب حکمران طبقے نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور ابراہیمی معاہدہ پر اپنے موقف کو سخت یا غیر فعال رکھا، حکومتی بے حسی اور سمجھوتہ پسندانہ رویے نے اپوزیشن اور سول سوسائٹی کو مزید متحرک کیا، جس سے سیاسی دبائو اور معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہوا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب لیگ میں فلسطینی ریاست کے حق میں قرار دادیں اور عملی اقدامات ابھرنے لگے، متعدد مغربی و غیر عرب ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت میں اضافہ کیا۔ بعض ایام میں معاشی، انسانی امداد، اور سفارتکاری کو بطور دبائو کے حربے کے طور پر استعمال کیا گیا، جس سے عام فلسطینی آبادی متاثر ہوئی اور عالمی سطح پر اسرائیل و امریکہ پر تنقید بڑھی۔ عوامی و سفارتی دبائو نے حکومتوں کو محتاط پالیسی اپنانے، داخلی استحکام کے مسئلے اور علاقائی تعلقات کے نئے بندھن بنانے پر مجبور کیا اور کئی سیاسی، معاشی و سماجی صفیں ازسرنو تشکیل دیں۔
بین الاقوامی دبائو نے متعدد خطوں میں قانون سازی اور مذاکرات کے عمل کو تیز کیا ہے، خاص طور پر تنازعات، امن معاہدات، دفاع اور انسانی حقوق سے متعلق امور میں قطر، سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک پر سفارتی دبائو کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی مذاکرات کے عمل میں تیزی آئی، جس میں امریکہ کی تجاویز بھی کلیدی رہی۔ فلسطین کے معاملے میں عوامی اور بین الاقوامی تنائو نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر نئے امن معاہدات ، انسانی مدد اور جنگ بندی کی قراردادوں کو زیادہ اہمیت اور رفتار دی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی بین الاقوامی دبا کے زیر اثر مختلف سکیورٹی اور اقتصادی معاہدہ مذاکرات میں مثبت پیش رفت اور قانون سازی دیکھی گئی، جیسے دفاعی تعاون اور تنازعات کی روک تھام کے اقدامات۔ اقوام متحدہ، WTOاور IMFجیسے اداروں پر بھی عالمی دبائو کے باعث اصلاحاتی بحث و قانون سازی میں شدت آئی، خصوصاً اقلیتوں کے حقوق، ترقیاتی پالیسیوں اور عالمی سکیورٹی کے قوانین میں۔ مجموعی طور پر بین الاقوامی دبائو نے نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر امن، اصلاحات اور سکیورٹی پالیسیوں کے لیے مذاکرات، فیصلے اور قانون سازی میں نمایاں تیزی لائی ہے۔





