Column

سرکریک تنازع، جنگی ماحول

سرکریک تنازع، جنگی ماحول
تحریر : شکیل سلاوٹ
سرکریک ایک نسبتاً کم معروف لیکن نہایت اہم جغرافیائی اور سیاسی تنازع ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا سمندری کریک ہے، مگر اس کی قانونی حیثیت اور اس سے منسلک سمندری حدود کی ملکیت دونوں ممالک کے لیے اس قدر اہم ہے کہ کئی دہائیوں بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ اس تنازعے کی جڑیں نوآبادیاتی دور کے معاہدوں میں ہیں، جبکہ اس کی اہمیت جدید دور میں زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ اس سے جڑی ہوئی سمندری حدود میں قدرتی وسائل، بالخصوص ماہی گیری اور تیل و گیس کے ذخائر، موجود ہیں۔
سرکریک ایک تقریباً 96کلومیٹر لمبا کریک ( قدرتی پانی کا راستہ) ہے جو سندھ، پاکستان اور بھارتی ریاست گجرات کے درمیان واقع ہے۔ یہ رن آف کَچھ کے دلدلی علاقے سے نکل کر بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ دلدلی، غیر آباد اور دشوار گزار ہے، اس لیے تاریخی طور پر اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، لیکن سمندری وسائل کی اہمیت بڑھنے کے ساتھ اس کریک کی جغرافیائی حیثیت نمایاں ہو گئی۔
سرکریک تنازعے کی بنیاد 1896ء کے ایک نوآبادیاتی معاہدے میں ملتی ہے جو برطانوی حکومت نے بمبئی پریذیڈنسی ( جس کے ماتحت کَچھ ریاست آتی تھی) اور سندھ کے حکام کے درمیان کیا۔ اس معاہدے میں سرکریک کے علاقے کی تقسیم کا ذکر تو ہے، مگر کریک کی اصل لائن آف بائونڈری کی وضاحت واضح نہیں تھی۔
تقسیمِ ہند (1947ئ) کے بعد جب بھارت اور پاکستان الگ ہوئے تو یہ مبہم معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک تنازعے کی شکل اختیار کر گیا۔ بھارت کے مطابق سرحد کریک کے مشرقی کنارے پر ہے جبکہ پاکستان کے مطابق یہ سرحد کریک کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اس فرق کی وجہ سے دونوں ممالک کی سمندری حدود کی حد بندی میں بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔
اس تنازعے کی اصل اہمیت اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قانون کے تناظر میں ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی ملک کی سمندری حدود اور خصوصی معاشی زون اس کی زمینی سرحدی لکیروں پر منحصر ہوتے ہیں۔ اگر بھارت کا موقف مانا جائے تو اسے 250مربع کلومیٹر سے زائد کا اضافی علاقہ ملتا ہے، جبکہ پاکستان کا موقف تسلیم کیا جائے تو یہ علاقہ پاکستان کو ملتا ہے۔ اس علاقے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ یہاں ماہی گیری کے بڑے وسائل اور زیرِ زمین تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
پاکستان کے مطابق 1914ء میں کیے گئے برطانوی نوٹیفکیشن کے تحت سرکریک کی اصل سرحد کریک کے درمیان سے گزرتی ہے۔ پاکستان کی دلیل ہے کہ اگر سرحد کو مشرقی کنارے پر مان لیا جائے تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی، جس کے مطابق دریا یا کریک کی سرحد عام طور پر درمیانی لائن سے گزرتی ہے۔
بھارت کا موقف یہ ہے کہ 1914ء کا نوٹیفکیشن واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ سرکریک کا سارا علاقہ ریاست کَچھ کے زیرِ انتظام تھا، اس لیے اس کی سرحد کریک کے مشرقی کنارے پر ہونی چاہیے۔ بھارت مزید کہتا ہے کہ چونکہ کییہ تنازعہ محض ایک قانونی بحث تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے کئی عملی اثرات بھی ہیں۔ سرحد کی غیر واضح حیثیت کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے ماہی گیر اکثر ایک دوسرے کے پانیوں میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں گرفتاریاں اور کشیدگی بڑھتی ہے۔
دونوں ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سرحد پر ان کا دعویٰ تسلیم ہو جائے تو انہیں تیل، گیس اور دیگر سمندری وسائل تک زیادہ رسائی حاصل ہو گی۔
عسکری پہلو: چونکہ یہ علاقہ بحیرہ عرب کے قریب ہے، اس لیے اس کی دفاعی اور عسکری اہمیت بھی ہے۔ دونوں ممالک اپنی بحری افواج کو یہاں مستعد رکھتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے کئی بار اس تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد قائم ہونے والی بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے رن آف کَچھ کے بیشتر حصے پر فیصلہ تو دے دیا، مگر سرکریک کو زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔1990ء کی دہائی میں دونوں ممالک نے مشترکہ سروے بھی کیا تاکہ کریک کی جغرافیائی حیثیت کا تعین کیا جا سکے، لیکن قانونی موقف میں اختلاف برقرار رہا۔ 2007ء میں اس مسئلے پر بات چیت کافی آگے بڑھی، مگر ممبئی حملوں (2008ئ) کے بعد مذاکراتی عمل رک گیا۔ آج بھی سرکریک تنازعہ حل طلب ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ کشمیر جتنا بڑا یا حساس نہیں ہے، لیکن اس کی اپنی اہمیت ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی صورت میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس پر دونوں ممالک میں سخت قومی جذبات کا دبائو کشمیر جتنا شدید نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق سرکریک تنازعے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات اہم ہو سکتے ہیں:
مشترکہ ترقیاتی معاہدہ: دونوں ممالک اس علاقے کو مشترکہ طور پر ترقی دیں اور وسائل سے یکساں فائدہ اٹھائیں۔ اگر باہمی بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہو تو کسی غیر جانب دار عالمی ادارے کو ثالث بنایا جا سکتا ہے۔
ماہی گیروں کے لیے سہولتیں: دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ماہی گیروں کے لیے ایک محفوظ زون تشکیل دیں تاکہ گرفتاریاں اور انسانی مسائل کم ہوں۔
سرکریک تنازع بظاہر ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے، لیکن اس کی جغرافیائی، قانونی اور معاشی اہمیت بہت بڑی ہے۔ اس تنازعے کی جڑیں نوآبادیاتی دور میں ہیں مگر اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کر لیں تو یہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا باعث بنے گا بلکہ خطے میں امن اور ترقی کے امکانات کو بھی بڑھائے گا۔

جواب دیں

Back to top button