ColumnRoshan Lal

خوشحال پنجاب کے پینشنر، بدحال کیوں؟

خوشحال پنجاب کے پینشنر، بدحال کیوں؟
تحریر : روشن لعل
پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز اور ان کے ترجمان ان دنوں اپنی تمام توانائیاں یہ تاثر دینے پر صرف کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے صوبے کے لوگوں، یعنی پنجابیوں کے لیے جو کچھ کیا وہ دوسرے صوبے کیا وفاق بھی پاکستانی شہریوں کے لیے نہیں کر سکا۔ اس کے ساتھ ہی محترمہ مریم نواز کے اس بیان کا ان دنوں بہت چرچا ہے کہ وہ کسی کو بھی پنجابیوں کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیں گے۔ مریم نواز کی ایسی باتوں کا گو کہ ہر قسم کے میڈیا پر بہت چرچا ہے لیکن نہ جانے یہاں کس قسم کی میڈیا مینجمنٹ ہے کہ دوسرے صوبوں کے لوگ کیا اگر کوئی پنجابی بھی مریم نواز یا ان کے ترجمانوں کی باتوں کو چیلنج کرے تو اس کا ذکر کہیں سننے کو نہیں ملتا۔ مریم نواز تو ان دنوں خود کو پنجابیوں کے حقوق کی چیمپئن کے طور پر پیش کر رہی ہیں مگر کسی اور نے نہیں بلکہ پنجاب کے شہر میانوالی کے سید صادق حسین شاہ نامی ریٹائرڈ استاد نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر کے ان کے اس موقف کو چیلنج کر دیا ہے۔
سید صادق حسین نے مذکورہ درخواست آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ میں براہ راست دائر کی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 184(3)ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے اس کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہو تو وہ اس آرٹیکل کے تحت ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں براہ راست درخواست دائر کر سکتا ہے ۔ پنجاب کے ریٹائرڈ استاد سید صادق حسین شاہ نے اس موقف کے تحت سپریم کورٹ میں براہ راست درخواست دائر کی ہے کہ حکومت پنجاب نے مورخہ 2دسمبر 2024ء کو غیر منصفانہ پنشن اصلاحات کا ایک نوٹیفیکیشن جاری و نافذ کر کے ریٹائر ہونے والے اپنے سرکاری ملازمین کے بنیادی حقوق سلب کیے ہیں۔ سید صادق حسین شاہ نے اپنی درخواست میں چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری خزانہ ِ پنجاب اور سیکرٹری تعلیم پنجاب کو مخالف فریق بنایا ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ معاملہ آئین کے تحت دئیے گئے بنیادی حقوق ( آرٹیکل 4، 9، 14اور 25) کے نفاذ سے متعلق ہے کیونکہ پنجاب حکومت نے غیر آئینی پینشن اصلاحات نافذ کر کے صوبہ بھر کے سرکاری ملازمین کے بنیادی حقوق کو متاثر کیا ہے۔
سید صادق حسین شاہ کی سپریم کورٹ میں براہ راست دائر درخواست کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے مطابق آئین پاکستان، حکومتِ پنجاب کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے وقت صوبہ کے ملازمین کو پنشن اور گریجویٹی کی مد میں قانون اور سروس رولز کے تحت دہائیوں سے ملنے والی مراعات کوکسی انتظامی نوٹیفیکیشن کے ذریعے کم کر دے۔ حکومت پنجاب کا پینشن اصلاحات کے نام پر کیا گیا اقدام اس وجہ سے صوبہ کے سرکاری ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک ہے کیونکہ وفاق ، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کی حکومتوں میں سے کسی نے بھی اپنے سرکاری ملازمین کی پینشن اور گریجویٹی کی مد میں ملنے والی مالی مراعات کو پنجاب حکومت کی طرح کم نہیں کیا لہذا اس سلسلے میں حکومت پنجاب کا جو اقدام امتیازی ہے وہ واضح طور پر غیر آئینی بھی ہے۔ حکومت پنجاب کی اپنے سرکاری ملازمین کی پینشن اور گریجویٹی میں کٹوتی کا اقدام اس لیے بھی آئین کے آرٹیکل 4، 9، 14اور 25سے متصادم ہے کیونکہ .اسے کسی مشاوت کے بغیر نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ پنشن اور گریجویٹ جیسی مراعات کو پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے اپنے سابقہ فیصلوں میں ایک حاصل شدہ حق تسلیم کر رکھا ہے۔
سید صادق حسین شاہ نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ انہیں براہ راست سپریم کورٹ سے اس لئے رجوع کرنا پڑا کیونکہ جو عرضداشت عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھی گئی ہے وہی بار ہا حکومت پنجاب کو بھی پیش کی گئی بھی مگر حکومت کے کسی بھی فورم نے ان کی گزارشات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ ان کے سمیت مختلف افراد نے ذاتی طور پر اور سرکاری ملازمین کی تنظیموں نے بھی پنجاب حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انہیں جن قوانین کے تحت سرکاری ملازمت دی گئی تھی وہ ریٹائرمنٹ کے وقت ان ہی قوانین کے تحت مالی مفادات حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ حکومت پنجاب کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ جن قوانین کے تحت وہ سرکاری ملازم بنے ان قوانین کے تحت ملازمت حاصل کرنے والے جو ملازم 2دسمبر 2024ء سے پہلے ریٹائر ہوئے انہیں تو ملازمت کے آغاز کے وقت سے طے شدہ قوانین کے مطابق پینشن اور گریجویٹی دی گئی لیکن پنشن اصلاحات کے نئے نوٹیفیکیشن کے ذریعے 2دسمبر 2024ء کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کی پنشن، گریجویٹی، رخصتی انکیشمنٹ اور دیگر مراعات میں بلا جواز بھاری کمی کر کے ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ پنجاب حکومت کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ جو پینشن اصلاحات پنجاب کے ملازمین پر لاگو کی گئیں ہیں ان کی مثال وفاق اور دیگر صوبوں کے ملازمین کے لیے کہیں موجود نہیں ہے، لہذا صاف نظر آتا ہے کہ پنجاب حکومت نے اپنے صوبے کے ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے ان کی حق تلفی کی ہے۔ حکومت پنجاب نے اس طرح کی جائز گزارشات پر کبھی کان نہ دھرے۔ حکومت پنجاب کے امتیازی سلوک کا شکار سرکاری ملازمین نے صرف حکومت پنجاب کے مختلف فورموں کو ہی نہیں آزمایا بلکہ صوبائی محتسب کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن وہاں پر بھی کوئی داد رسی نہ ہوئی۔
سید صادق حسین شاہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں جن آئینی نکات کا حوالہ دیا، ان کے مطابق آئین کا آرٹیکل 4، شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کا متقاضی ہے، مگر حکومت پنجاب نے پنشن کے حاصل شدہ حقوق کو یکطرفہ طور پر واپس لے کر غیر منصفانہ اور خلافِ آئین و قانون عمل کیا ہے۔ اسی طرح ،آئین کا آرٹیکل 25مساوات سے متعلق ہے جبکہ حکومت پنجاب کی پینشن اصلاحات پنجاب کے ریٹائرڈ ملازمین اور دیگر صوبوں/وفاقی ملازمین کے درمیان غیر قانونی امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 9کا تعلق زندگی کے حق سے ہے لیکن حکومت پنجاب نے پینشن میں کٹوتی کر کے ریٹائرڈ ملازمین کو زندگی گزارنے کے ان کے واحد ذریعہ کے بڑے حصے سے محروم کر دیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14انسانی عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لیکن حکومت پنجاب نے پہلے سے حاصل شدہ مراعات کو کم کر کے ان ملازمین کی توہین کی جنہوں نے اپنی زندگی کے کئی برس ریاست کی خدمت میں بسر کر دیئے۔محترمہ مریم نواز کا پنجابیوں کی حق تلفیوں کے سامنے دیوار بن کے کھڑے ہونے کا دعویٰ سب کے سامنے ہے اور میانوالی کے سید صادق حسین شاہ نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست کے ذریعے اس دعوے پر جو سوالیہ نشان لگایا اسے بھی یہاں بیان کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ درخواست پر عدالت کا فیصلہ بعد کی بات ہے لیکن فی الوقت کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم سید صادق حسین شاہ جیسے پنجابی پینشنروں کو بدحال کرتے ہوئے ان کی جو حق تلفی کی گئی ہے وہ کسی اور نے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی اپنی حکومت نے کی ہے۔

جواب دیں

Back to top button