پاکستان کا بھارت کو صائب جواب

پاکستان کا بھارت کو صائب جواب
آئی ایس پی آر کا حالیہ بیان، جس میں بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اشتعال انگیز اور جنگجو بیانات کو سختی سے رد کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ پاکستان کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہے، بھارت پاکستان کو مٹانے کی بات کر رہا، تاہم یہ یاد رکھے کہ اگر نوبت وہاں تک پہنچی تو دونوں اطراف انجام یکساں ہوگا، یہ صائب ردعمل ہونے کے ساتھ منطقی دفاعی پیغام بھی ہے۔ جب کسی ریاست کے خلاف بار بار جھوٹے اور اشتعال انگیز، جہالت پر مبنی بیانات داغنے کے ساتھ پروپیگنڈے کیے جارہے ہوں، تو اُس کا دوٹوک جواب دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ دفاع کا حق بین الاقوامی اصولوں کے تحت ہر قوم کو حاصل ہے۔ سب سے پہلے یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ بھارت کی جانب سے پھیلائی گئی افواہوں، بیانات اور غیر مصدقہ الزامات نے ماضی میں بھی امن و امان کو متاثر کیا ہے۔ اس کی گواہی 78سالہ تاریخ دیتی ہے۔ پاکستان تو ابتدا سے ہی اُس کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ خطے کے دیگر ملکوں سے بھی اُس کی نہیں بنتی۔ بھارت خطے کا چودھری بننا چاہتا ہے، چین اور پاکستان اُس کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ نظر آتے ہیں۔ حالانکہ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ حساسیتوں اور تاریخی تنازعات کا حامل ہے۔ ایسے میں جب ایک نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا ہمسایہ خطے کے امن کے درپے ہو، اُس کی عسکری قیادت یا حکام بار بار پاکستان کے خلاف جارحانہ لفاظی کریں تو اس کے اثرات صرف فوراً کے سیاسی فوائد تک محدود نہیں رہتے، بلکہ یہ امر طویل المدتی عدم استحکام اور ایک چھوٹے واقعے کے بڑے تصادم میں تبدیل ہونے کے اندیشوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ آئی ایس پی آر نے وہی بنیادی نکتہ اٹھایا ہے، آئندہ کسی بھی غیر ذمے دارانہ مہم جوئی کی صورت میں پاکستان کو اپنا دفاع کرنے کا پورا قانونی اور عملی حق ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ کہ دہشت گردی کی حمایت یا سرپرستی صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے بھی ناقابلِ قبول ہے۔ اگر کوئی ریاست یا اس کے عناصر سرحد پار دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں، فوجی یا مالی مدد فراہم کرتے ہیں، یا ایسے عناصر کو آشیانہ دیتے ہیں جو پڑوسی ممالک میں بدامنی پھیلاتے ہیں، تو وہ روایتی بین الاقوامی ضوابط کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔ بھارت خود دہشت گرد ریاست ہے، جو وطن عزیز میں عرصۂ دراز سے اپنے زرخریدوں کے ذریعے بدامنی پھیلارہا ہے۔ بے گناہ انسانی جانوں سے ہولی کھیل رہا ہے۔ ماضی سے لے کر اب تک پاکستان کی طرف سے بھارت کی ایسی پالیسیوں کی بھرپور مذمت کے ساتھ عالمی فورمز پر بھارتی دہشت گردی کے ثبوت بارہا پیش کیے جاچکے ہیں، تاکہ بین الاقوامی برادری کو حقیقت کا علم ہو۔ دُنیا پر بہت پہلی ہی عیاں ہوچکا کہ بھارت نا صرف خطے کے امن و امان کو دائو پر لگانے پر مُصر رہتا ہے، بلکہ دُور دراز ملکوں میں بھی اُس کی جانب سے دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ڈھائی تین سال قبل کینیڈا میں خالصتان تحریک کے اہم رہنما کو قتل کیا گیا، جس میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ امریکا میں ایک اور خالصتان تحریک کے رہنما کے قتل کی بھارتی سازش بے نقاب ہوئی۔ چار ماہ قبل پہلگام ڈرامہ رچا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں خود بھارت اپنا اعتبار اور وقار کھو بیٹھا۔ پاکستان کا عزت و وقار بڑھا، اُس نے عسکری اور سفارتی سطح پر بھارت کو شکست فاش دی۔ معرکہ حق کی تاریخی ہزیمت کے چار ماہ بعد بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ذمے داران انتہائی اشتعال انگیز اور غیر ذمے دارانہ بیان بازیوں پر اکتفا کر رہے ہیں۔ اس کا آئی ایس پی آر کی جانب سے صائب جواب دیا گیا ہے۔ دونوں فریقین کے پاس ایٹمی صلاحیتیں ہیں۔ اس حقیقت کی روشنی میں تنازع کو کم از کم سطح پر رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے، لیکن بھارت تو کبھی بھی امن پسند نہیں رہا، وہ ہمیشہ خطے کے امن کو دائو پر لگانے کے لیے بہانے تراشتا رہتا ہے کہ وہاں کی حکومت اپنے ان اقدامات کے طفیل سیاسی فوائد سمیٹتی ہے۔ پاکستان کا مضبوط دفاعی پیغام دو چیزوں کا احاطہ کرتا ہے، ایک دشمن کو انتباہ کہ کسی بھی غیر ذمے دارانہ کارروائی کا جواب دیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اس جواب کی نوعیت متناسب، محدود اور بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار میں رہے گی۔ بھارت اور اس کی انتہا پسند حکومت کے سر پر ہمیشہ جنگی بھوت سوار رہتا ہے۔ خطے میں چودھراہٹ کا خبط اسے چَین نہیں لینے دیتا۔ اُس کی جانب سے کھیل تک کو سیاست زدہ کیا گیا۔ حالیہ ایشیا کپ میں اس حوالے سے بھارتی کرکٹ ٹیم کی جانب سے کئی بار اسپورٹس مین اسپرٹ کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔ کھیل کی روح کو مسخ کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نے خود کھیل کو سیاست سے ملانے کی بھونڈی کوشش کی۔ بھارتی حکومت نے اب بھی اگر جنگی جنون کی روش برقرار رکھی تو یہ خود اس کے لیے ازحد نقصان دہ ثابت ہونے کے ساتھ بھارت اور اُس کے عوام کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔ آگے چل کر یہ طرز عمل بھارت کو ایسے نقصانات سے دوچار کرنے کا باعث بنے گا، جس کی تلافی کبھی بھی نہیں ہوسکے گی۔ لہٰذا بھارتی عوام کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے، ایسے جنونی حکمرانوں سے نجات کی سبیل کرنی چاہیے۔ پاکستان کا حقِ دفاع اور امن کے لیے اظہارِ تشویش دونوں ایک دوسرے سے متضاد نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مضبوط دفاعی پوزیشن رکھنے کے ساتھ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنے موقف کو واضح، منطقی اور شواہد کی بنیاد پر پیش کرتا چلا آرہا ہے۔ بھارت کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی یا اس کی حمایت کے الزامات انتہائی بھونڈے ہیں، جو خود اُس کی ہزیمت کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان نے جس طرح اپنے دفاع کے حقوق کا اظہار کیا ہے وہ جمہوری اور بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔
سانحہ شکارپور، بچوں
سمیت 8افراد جاں بحق
شکارپور کے علاقے کندن چورنگی میں پیش آنے والا اندوہناک حادثہ، جس میں ایک تیز رفتار مزدا ٹرک نے سڑک کنارے سوئے ہوئے افراد کو کچل دیا، صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک قومی سانحہ ہے۔ آلو اور پیاز سے بھرا ٹرک جب بجلی کے پول سے ٹکرا کر بے گناہ انسانوں کے اوپر چڑھ دوڑا، تو اس نے محض 8جانیں نہیں لیں بلکہ کئی خاندانوں کو اجاڑ دیا، معصوم بچوں کی زندگی کے چراغ گل کر دئیے اور پورے علاقے کو ماتم کدہ بنا دیا۔ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے 8افراد میں 5معصوم بچے شامل ہیں، جن کے خواب، مسکراہٹیں اور زندگی کے ارمان رات کی تاریکی میں بے رحمی سے روند دئیے گئے۔ 38سالہ گوبھی، 40سالہ رابعہ، 10سالہ ریما، 8 سالہ رشیدہ، 8سالہ سمعیہ، 12سالہ انعام اللہ، 6سالہ پیاری اور 17سالہ منی کی ناگہانی موت صرف ان کے خاندانوں کا نہیں، بلکہ پوری ریاست کا نقصان ہے۔ سوال یہ ہے کہ سڑکوں پر یہ بے قابو ٹرک، یہ تربیت سے محروم ڈرائیور، اور یہ بغیر کسی حفاظتی ضابطے کے بھاری گاڑیاں آخر کب تک قیمتی انسانی جانوں کو نگلتی رہیں گی؟ کیا صرف ٹرک ڈرائیور کو مفرور قرار دینا کافی ہے؟ حادثات کا تسلسل ہمیں چیخ چیخ کر بتارہا ہے کہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے حکومت کی ذمے داری صرف اظہارِ افسوس یا اسپتالوں میں طبی سہولتیں دینے کے اعلانات تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ یہ امر بھی باعث افسوس ہے کہ متاثرہ خاندان سڑک کنارے سو رہے تھے، ایک تلخ حقیقت جو غربت، بے گھری اور ریاستی نااہلی کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا ایک مہذب معاشرے میں لوگ سڑکوں پر سونے پر مجبور ہونے چاہئیں؟ یہ حادثہ صرف ٹرک کی تیز رفتاری کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس نظام کی خامیوں کا عکاس ہے جو عوام کو چھت، تحفظ اور وقار سے محروم رکھتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے واقعے پر اظہار افسوس اور زخمیوں کو بہترین طبی امداد کی ہدایت قابلِ ستائش ضرور ہے، مگر یہ اقدامات اس وقت تک ناکافی رہیں گے جب تک ایسے واقعات کی مکمل اور شفاف تحقیقات نہ کی جائیں، اور ذمے داروں کو سخت ترین سزا نہ دی جائے۔ صرف ڈرائیور نہیں، بلکہ ٹرک مالک، گاڑی کی فٹنس چیک کرنے والے ادارے اور ٹریفک پولیس کے افسران سبھی جواب دہ ہونے چاہئیں۔ حکومتی ذمے داری صرف زخمیوں کا علاج کرانا نہیں، بلکہ مستقبل میں ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے ٹھوس پالیسی مرتب کرنا ہے۔ ٹرکنگ کے نظام میں اصلاحات، ڈرائیورز کی لائسنسنگ، سڑکوں کی نگرانی اور عوام کے لیے بنیادی تحفظ جیسے اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں ۔ یہ سانحہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر آج بھی ہم نے اپنے رویے، پالیسی اور قانون پر عملدرآمد کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو کل کسی اور شہر کی سڑک پر کئی اور بے گناہ شہری اسی تیز رفتار گاڑی کے نیچے آ کر اپنی زندگی کھو دیں گے اور ہم پھر صرف افسوس اور دعائوں تک محدود رہ جائیں گے۔ اب وقت ہے کہ اظہارِ افسوس سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں۔





