Column

مریم نواز کے پنجاب میں فوڈ فراڈ اب نہیں۔۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی پوری رفتار سے مافیا کے پیچھے

مریم نواز کے پنجاب میں فوڈ فراڈ اب نہیں۔۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی پوری رفتار سے مافیا کے پیچھے!!

سید بنیا مین حسین

معاشرے کی صحت مند بقا کے لیے محفوظ خوراک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ خوراک میں ملاوٹ اور جعلی اشیاء نہ صرف انسانی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہیں بلکہ یہ قومی معیشت کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ’’ صحت مند پنجاب مشن‘‘ کے تحت خوراک میں ملاوٹ کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا ہے۔
اس مشن کی تکمیل کے لیے ڈائریکٹر جنرل فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید کی سربراہی میں آپریشنز ٹیمیں دن ہو یا رات، گرمی کی شدت ہو یا سردی کی سختی، ان کی قیادت میں فوڈ سیفٹی ٹیمیں 24گھنٹے 3شفٹوں میں متحرک رہتی ہیں۔پنجاب فوڈ اتھارٹی گزشتہ کچھ عرصے سے جس شدت اور تسلسل کے ساتھ ملاوٹ مافیا کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، وہ بلاشبہ ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں یہ فیصلہ دوٹوک ہے کہ ’’ محفوظ خوراک ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی بڑی کارروائیاں واضح پیغام دیتی ہیں کہ جعلی دودھ، ناقص گوشت اور ملاوٹ شدہ اشیاء خورونوش فروخت کرنے والوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔
ڈی جی فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید نے پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کا دورہ کیا جہاں فوڈ سیفٹی ٹیموں کے ہمراہ بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی گئیں۔ اس دوران چائنہ چوک پسرور روڈ پر واقع ملک کولیکشن سنٹر کو ملاوٹی دودھ بیچنے پر بند کیا گیا اور مقدمہ درج کرایا گیا۔ اسی طرح معروف سویٹس اینڈ بیکرز کے پروڈکشن یونٹ پر 200000روپے جرمانہ، جبکہ دیگر ریسٹورنٹس اور آئس کریم پوائنٹس پر فوڈ ریگولیشنز کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ آپریشن کے دوران 1500لٹر ملاوٹی دودھ، 200کلو کھویا اور بھاری مقدار میں کھلے رنگ تلف کیے گئے۔ یہ کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ فوڈ اتھارٹی زیرو ٹالرینس پالیسی پر عمل پیرا ہے اور کسی بڑے یا چھوٹے برانڈ کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جاتا ۔ فوڈ اتھارٹی کا دائرہ کار صرف مرکزی شہروں تک محدود نہیں۔ فوڈ سیفٹی ٹیموں نے کریک ڈائون کے دوران 1دن میں 10ملک شاپس پر ناقص سیمپل کی بنیاد پر مقدمات درج کیے گئے
یکم اگست سے اب تک 80ہزار سے زائد دودھ سپلائرز اور کولیکشن سنٹرز کی چیکنگ کی گئی، تقریبا 400مقدمات درج ہوئے اور 5کروڑ روپے سے زائد جرمانے عائد کیے گئے۔ اسی دوران 10لاکھ لٹر سے زائد ناقص دودھ تلف کیا گیا۔ یہ صرف اعداد نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ جعلی دودھ کے خلاف ایک منظم اور مربوط مہم جاری ہے۔
دودھ کے ساتھ ساتھ ناقص گوشت کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے 16ہزار سے زائد گوشت سپلائرز اور سلاٹر ہاسز کی چیکنگ کر کے اس مسئلے پر بھی بھرپور ضرب لگائی۔ 200سے زائد مقدمات درج کیے گئے، لاکھوں کلو مضر صحت گوشت تلف کیا گیا اور درجنوں میٹ شاپس بند کی گئیں۔ اسی طرح لاہور کے اندرونِ شہر نسبت روڈ پر جعلی مصالحہ جات بنانے والے ایک بڑے یونٹ پر چھاپہ مار کر 48ہزار کلو ناقص مصالحہ جات، 1000کلو پیکنگ میٹیریل اور 11پیکنگ مشینیں ضبط کی گئیں۔ اس یونٹ میں معروف برانڈز کے نام پر جعلی مصالحے بیچے جا رہے تھے جو براہ راست عوام کی صحت پر حملہ تھا۔
بات کی جائے ماہ ستمبر کی تو صحت بخش غذا کی یقینی فراہمی کے لیے ماہ ستمبر میں 1لاکھ 14ہزار 348فوڈ پوائنٹس، یونٹس، سٹوریج گودام، پروسیسنگ یونٹس کی چیکنگ کی گئی، 10ہزار 592کو 14کروڑ 28لاکھ 92ہزار 700 کے جرمانے عائد کر کے 482مقدمات درج کروائے گئے اور 540فوڈ یونٹس بند کر کے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے 3ہزار 573سیمپل لیے گئے۔
یہ کارروائیاں بتاتی ہیں کہ آج کی فوڈ اتھارٹی صرف ظاہری سطح پر ہی نہیں بلکہ سپلائی چین کی گہرائی تک جا کر جعل سازی کو بے نقاب کر رہی ہے۔ ویجیلنس ٹیموں کی ریکی، موقع پر ٹیسٹ، اور قانونی اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب ملاوٹ مافیا کے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہیں رہی۔
اکثر ایسے آپریشنز وقتی نوعیت کے سمجھے جاتے ہیں، مگر پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ان کارروائیوں کو ایک وسیع تر پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔ فوڈ ہینڈلرز کی تربیت، ڈیجیٹل انسپکشن سسٹم، لائسنسنگ کا عمل اور لیبارٹری ٹیسٹنگ جیسے اقدامات دراصل وہ بنیاد ہیں جن پر ایک دیرپا نظام کھڑا کیا جا رہا ہے۔
جعلی دودھ، ملاوٹ شدہ گوشت اور ناقص مصالحے فروخت کرنے والوں کی نشاندہی عوام خود بھی کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوڈ اتھارٹی نے عوام کو اپیل کی ہے کہ وہ ہیلپ لائن 1223پر شکایات درج کروائیں اور ملاوٹ مافیا کے خلاف جدوجہد میں ادارے کا ساتھ دیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے جو عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کو بڑھاتا ہے۔پنجاب میں حالیہ کارروائیاں ایک واضح پیغام دے رہی ہیں: ’’ خوراک پر کوئی سمجھوتہ نہیں‘‘۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی سرپرستی اور ڈی جی فوڈ اتھارٹی کی قیادت میں ملاوٹ مافیا کے لیے پنجاب کی زمین واقعی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہی تسلسل جاری رہا تو نہ صرف شہریوں کو محفوظ اور معیاری خوراک میسر آئے گی بلکہ پاکستان عالمی سطح پر حلال فوڈ مارکیٹ میں ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر ابھرے گا۔
یہ جدوجہد ایک ایسے پنجاب کی تکمیل کی کوشش ہے جہاں ہر بچہ، ہر شہری بلا خوف و خطر یہ جان سکے کہ اس کی پلیٹ میں رکھی خوراک محفوظ، خالص اور معیار کے عین مطابق ہے۔ یہی اصل ’’ روشن مستقبل‘‘ ہے۔
ادھر میرا قلم اگر یہ نہ لکھے تو بات مکمل نہ ہوگی کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی حالیہ کامیابیوں کے پیچھے جس شخصیت کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے وہ ہیں ڈی جی فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید، انہوں نے ادارے کو صرف ایک ’’ چیکنگ باڈی‘‘ کے بجائے ایک فعال اور عوام دوست ادارے میں بدلنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ان کی قیادت میں کارروائیاں مزید منظم، تیز اور نتیجہ خیز ہوئی ہیں۔ نہ صرف بڑے بڑے مافیاز کو قانون کے شکنجے میں لایا جا رہا ہے بلکہ فیلڈ ٹیموں کے حوصلے بھی بلند ہیں۔
عاصم جاوید کی قیادت کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے براہِ راست عوام کو اعتماد دیتے ہیں۔ ان کے بیانات صرف رسمی نہیں بلکہ عملی اقدامات کے غماز ہیں۔ جب وہ جعلی دودھ یا ناقص گوشت مافیا کو ’’ غذائی دہشتگرد‘‘ قرار دیتے ہیں تو یہ دراصل ایک حکمتِ عملی ہوتی ہے جس سے عوام کو پیغام ملتا ہے کہ ادارہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کی متحرک پالیسی اور زیرو ٹالرینس اپروچ نے فوڈ اتھارٹی کو صوبے کا ایک معتبر ادارہ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام اس ادارے پر پہلے سے کہیں زیادہ اعتماد کر رہے ہیں۔
ڈی جی فوڈ اتھارٹی کا ویژن صرف آج تک محدود نہیں بلکہ آنے والے برسوں کو بھی مدِنظر رکھتا ہے۔ ان کی قیادت میں یہ ادارہ نہ صرف خوراک کے معیار کو بہتر بنا رہا ہے بلکہ پنجاب کو مستقبل قریب میں ایک قابلِ اعتماد حلال فوڈ حب بنانے کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ یہی وہ قیادت ہے جو ملاوٹ مافیا کو جڑ سے اکھاڑنے اور عوام کو صحت مند خوراک فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے معاشی ترقی کی نئی راہیں بھی کھول رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button