حج انتظامات اور شفافیت

حج انتظامات اور شفافیت
امتیاز عاصی
خبر ہے سعودی عرب میں پاکستان حج مشن نے سرکاری اسکیم میں جانے والے ایک لاکھ بیس ہزار عازمین حج کے رہائشی، ٹرانسپورٹ اور کھانے کے انتظامات کرنے شروع کر دیئے ہیں اس مقصد کے لئے طوافہ کمپنیوں سے ٹینڈر طلب کر لئے گئے ہیں۔ ان تمام انتظامات کے لئے قائم کی جانے والی کمیٹی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل حج کو بنایا گیا ہے حالانکہ ماضی میں عازمین حج کے انتظامات کرنے کے لئے قائم کی جانے والی کمیٹی کی سربراہی سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کرتے تھے۔ ایک لاکھ بیس ہزار عازمین حج کے لئے رہائش، ٹرانسپورٹ اور کھانے کا انتظام کوئی معمولی کام نہیں جس میں اربوں روپے کا سرمایہ خرچ ہو گا۔ عجیب تماشہ ہے حج انتظامات کرنے کے لئے قائم کردہ کمیٹی میں نہ تو سفیر پاکستان ہیں نہ حکومتی اور نہ ہی اپوزیشن کا کوئی نمائندہ شامل ہے جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ڈائریکٹر جنرل جو چاہے سو کرے۔ اگرچہ ڈائریکٹر جنرل حج کے پاس ایک وفاقی وزیر سے زیادہ مالی اختیارات ہوتے ہیں پھر ایک گریڈ بیس کے افسر کو تمام تر اختیارات کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ جیسا کہ خبر میں آیا ہے عازمین حج کے لئے کھانے کا بندوبست الراجی نامی کمپنی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خلاف گزشتہ سال حجاج کرام مشاعر مقدسہ میں کھانے کے غیر معیاری ہونے کی شکایات کرتے رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے گزشتہ چند برسوں سے منی عرفات کے انتظامات میں تبدیلی کر دی ہے جس میں سرکاری اسکیم کے حجاج کے لئے جو طوافہ کمپنی خیموں کا انتظام کرتی ہے وہی ان کے لئے کھانے کے انتظامات کرتی ہے۔ باآور کیا جاتا ہے کہ اس کام میں کم از کم دو سو ریال مبینہ طور پر کمیشن کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اب آئندہ سال ایک لاکھ بیس ہزار عازمین حج سرکاری اسکیم میں سعودی عرب جائیں گے کم سے کم دو سو ریال فی کس مبینہ طور پر کمیشن جسے سعودی زبان میں بخشش کہا جاتا ہے مقرر ہو تو یہ رقم دو کروڑ چالیس لاکھ ریال سے زیادہ بنتی ہے، جسے پاکستانی کرنسی میں منتقل کیا جائے تو یہ رقم ایک ارب بیالیس کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ ہم حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں وہ ہمیں کسی پر بدگمانی کرنے کا شائبہ نہ دے مگر حقیقت میں سعودی عرب میں حجاج کرام کے لئے کوئی بھی انتظام کرنا مقصود ہو مبینہ طور پر کمیشن کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کی توسیع کے باعث رہائشی عمارات کی کثیر تعداد کو گرا دیا گیا ہے، جس سے حجاج کی زیادہ تر تعداد مکہ مکرمہ سے منیٰ جاتے ہوئے راستے میں عزیزیہ کے مقام پر رہائش فراہم کی جاتی ہے، جہاں کئی کئی ہزار حجاج کے لئے رہائشی عمارات میسر ہوتی ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو سعودی حکومت کے لئے حج وعمرہ جہاں ایک بہت بڑی عبادت کا درجہ رکھتی ہے وہاں ایک بہت بڑا بزنس بن چکا ہے۔ ہر سال نئی نئی کمپنیاں اور ان سے سیکورٹی کی وصولی سے یہ بات عیاں ہے سعودی حکومت کے لئے حج عمرہ آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔ سرکاری اسکیم کے حجاج کے رہائشی انتظامات حج مشن خود کرتا ہے، جس کے لئے حج مشن کا منسٹریل اسٹاف عمارات کی پیمائش کرکے رپورٹ ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر حج کو دیتا ہے، جس کے بعد افسران عمارات دیکھ لیتے ہیں اور اس طرح عمارات کے مالکان یا پھر مستاجروں سے ایگرمنٹ ہو جاتا ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے خواہ کچھ ہو جائے سعودی عرب میں خریدوفروخت اور کرایہ پر عمارات کے لین دین میں مبینہ طور پر کمیشن ایک رواج بن چکا ہے، جس کو روکنے کا واحد ذریعہ عمارات کرایہ پر لینے والوں کا راست باز ہونا بہت ضروری ہے۔ چونکہ کمیشن کے لین دین میں کوئی تحریر تو ہوتی نہیں ہے، فرض کر لیں کوئی پاکستانی یا بھارتی شہری جو سعودی شہری کے ساتھ عمارات کرایوں پر دینے کا کام کرتا ہے، سعودی بذات خود حج مشن نہیں آتے بلکہ یہ تمام کام پاکستانی اور دیگر ملکوں کے لوگ کرتے ہیں۔ چنانچہ جب عمارات کے کرایوں کی ایڈونس ادائیگی ہوتی ہے اور چیک موصول ہو جاتا ہے اور کیش کی صورت میں سعودی مالکان مکانات اور ان کے مستاجر کمشن کی رقم پاکستانی اور دیگر ملکوں کے ایجنٹس کو دے دیتے ہیں۔1992ء کی بات ہے اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا عبدالستار خان نیازی نے ڈائریکٹر جنرل حج کے خلاف مذکورہ الزامات کی انکوائری کرانے کے لئے ایک راست باز فارن آفس کے ڈائریکٹر جنرل نشاط احمد کو وزیراعظم نواز شریف سے کہہ کر لگوایا جنہوں نے عمارات کے مالکان سے حلفا یہ بات دریافت کی تو ان کا ایک ہی جواب تھا انہوں نے کسی کو کوئی کمیشن نہیں دی، جس کے بعد ڈی جی حج کو پوسٹنگ دے دی گئی۔ اہم یہ بھی ہے جس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے فرض کریں دو ہزار حجاج کے لئے عمارات کرایہ پر حاصل کر لی گئی ہے۔ معاہدہ کرتے وقت پندرہ فیصد کرایہ کی رقوم پیشگی ادا کرنا ہوتی ہے، اگر حجاج دو ہزار سے کم بھی ہوں تو بھی مالکان کو دو ہزار حجاج کے کرایوں کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔ آج تک نہ حج مشن، نہ وزارت مذہبی امور نے اس طرح کے معاملات کو دیکھنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ ایسے معاملات پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ حج کے دوران بعض حجاج نے انفرادی طور پر کمروں کے لئے کرایہ ادا کیا، مگر انہیں شیئر رہائش مہیا کی گئی، جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا حج مشن میں مبینہ طور پر بدانتظامی ضرور ہے۔ حج مشن کے مالی معاملات کی جانچ پڑتا ل کے لئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی خصوصی ٹیم بھیجنے کی ضرورت ہے جو کم از کم گزشتہ پانچ سال کے مالی معاملات کا آڈٹ کرے تاکہ مالی معاملات میں مبینہ طور پر ہونے والی بے قاعدگیوں کو سامنے لایا جا سکے۔ جہاں تک پرائیویٹ اسکیم میں جانے والے عازمین حج کی بات ہے ان کے تمام تر انتظامات حج گروپ آرگنائزر کرتے ہیں، مگر اس مرتبہ حالیہ سیلابوں سے نجی اسکیم میں حج درخواستیں دینے والوں کی تعداد حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ دوسری طرف وزارت مذہبی امور نے نجی اسکیم میں عازمین حج کو لے جانے والے حج گروپ آرگنائزروں کے کوٹہ میں بھی کمی کر دی ہے۔







