Column

آزاد کشمیر بحران کے حل کیلئے وزیراعظم کا احسن قدم

آزاد کشمیر بحران کے حل
کیلئے وزیراعظم کا احسن قدم
آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ عوامی احتجاج، مظاہرین کے مطالبات اور ان کے ردِعمل میں وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات نہایت اہم قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جہاں ریاستی حکمت عملی، جمہوری اقدار اور عوامی مسائل کے درمیان توازن قائم کرنا ناگزیر ہوچکا۔ وفاقی حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کی مظفرآباد آمد اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے باضابطہ مذاکرات کا آغاز دراصل ایک مثبت قدم ہے، جو نہ صرف عوامی اضطراب کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش، بلکہ وفاق کے اس عزم کا بھی اظہار ہے کہ کشمیری عوام کے مطالبات سنے جائیں گے اور انہیں پُرامن طور پر حل کیا جائے گا۔ آزاد کشمیر کے عوام کا حالیہ احتجاج دراصل ایک عرصے سے چلے آرہے معاشی، انتظامی اور سماجی مسائل کا ردِعمل ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، روزگار کے مواقع کی کمی اور مقامی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان عوامی غصے کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے، کیونکہ ایک طرف مظاہرین کے جائز مسائل اور آئینی حقِ احتجاج کو تسلیم کیا جانا چاہیے، تو دوسری طرف امن عامہ کو قائم رکھنا اور قانون کی عملداری بھی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا کہ ’’پُرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے، مگر امن عامہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے’’، ایک متوازن موقف کی عکاسی کرتا ہے۔وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کی صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے فوری مذاکراتی کمیٹی قائم کی، جس میں سینیٹر رانا ثناء اللہ، وفاقی وزرا احسن اقبال، سردار یوسف، وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چودھری، سابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان اور پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ جیسے اہم رہنمائوں کو شامل کیا گیا۔ اس اقدام سے ایک پیغام واضح ہوگیا کہ حکومت مسئلے کے پُرامن حل میں سنجیدہ ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے امن و امان قائم رکھنے، مظاہرین سے تحمل سے پیش آنے اور کسی بھی غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کی ہدایت قابل ستائش ہے۔ ان ہدایات سے نہ صرف حکومت کا جمہوری طرزِ عمل ظاہر ہوتا، بلکہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا پیغام بھی ملتا ہے۔ وفاقی وفد کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے باضابطہ ملاقات کا آغاز اس بحران کے حل کی جانب پہلا عملی قدم ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کا انحصار باہمی اعتماد سازی اور مسئلے کو سیاسی و جمہوری طریقے سے حل کرنے کے جذبے پر ہوگا۔ کمیٹی کے ارکان کی جانب سے دیے گئے بیانات، جیسے کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں اور ہم کشمیری عوام کے مسائل کو نظرانداز نہیں کریں گے، اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو مکالمے اور مفاہمت سے سلجھانا چاہتی ہے۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں بحرانوں کے حل کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر اعتماد کی فضا پیدا کرنا، حقائق پر مبنی فیصلے کرنا اور تمام فریقین کو اعتماد میں لینا ایک ذمے دار ریاست کی پہچان ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور دیگر رہنمائوں نے بھی جو موقف اپنایا وہ مصالحتی اور ذمے دارانہ طرزِ عمل کی مثال ہے۔ ان کا کہنا کہ ’’ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ کشمیری عوام کے جائز مطالبات پورے ہوں’’ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے سیاسی قیادت یکسو ہے۔ تاہم اس پورے معاملے میں ایک اور پہلو بھی انتہائی اہم ہے، عوامی قیادت، خصوصاً جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ذمے داری۔ انہیں چاہیے کہ وہ پُرامن احتجاج، حکومت کے ساتھ سنجیدہ اور تعمیری مکالمہ کریں اور اپنے مطالبات کو آئینی و جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے پیش کریں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا یہ بیان کہ چند شرپسند عناصر دشمن کی ایما پر امن خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ ایسے حالات میں پاکستان مخالف قوتیں صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ اس لیے مظاہرین، قیادت اور حکومت کو مل کر اس امر کا خیال رکھنا ہوگا کہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو دشمن کے بیانیے کو تقویت یا ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی کو ہوا دے۔ حکومت کو طویل المدتی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جو صرف وقتی اصلاحات پر نہیں بلکہ بنیادی تبدیلیوں پر مشتمل ہوں۔ ساتھ ہی آزاد کشمیر کی مقامی حکومت کو بھی جواب دہی، شفافیت اور عوامی خدمت کے اصولوں پر کاربند ہونا ہوگا۔ آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے آئینی، جمہوری اور معاشی دھارے کا حصہ ہیں۔ ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینا اور ان کا پُرامن حل تلاش کرنا ریاست کی اخلاقی، سیاسی اور آئینی ذمے داری ہے۔ موجودہ بحران میں حکومت کی جانب سے مکالمے کا راستہ اختیار کرنا قابل تحسین ہے، لیکن اس عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے سنجیدگی، خلوصِ نیت اور عوامی مفادات کو اولیت دینا ناگزیر ہے۔ یہ بحران حکومت اور عوام دونوں کے لیے ایک موقع ہے اعتماد بحال کرنے کا، جمہوریت کو مضبوط بنانے کا اور اس پیغام کو عام کرنے کا کہ پُرامن اور آئینی طریقے سے پاکستان میں اختلافِ رائے کو سنا جاتا اور اس کا حل بھی نکالا جاتا ہے۔
تجارتی خسارے میں اضافہ
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین تجارتی اعداد و شمار نے ملکی معیشت کے لیے خطرے کا اشارہ دیا ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی ( جولائی تا ستمبر) کے اعداد و شمار کے مطابق تجارتی خسارہ 32.92 فیصد اضافے کے ساتھ 9 ارب 36 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ اس سنگین اضافے کا مطلب ہے کہ پاکستان کی درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی کا رجحان بدستور جاری ہے، جو معیشت کی کمزوری اور پالیسیوں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ستمبر 2025 میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارے میں 45.83 فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ ماہانہ بنیاد پر یہ اضافہ 16.33 فیصد رہا۔ صرف ماہِ ستمبر میں تجارتی خسارہ 3 ارب 34 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کی سطح تک پہنچ گیا، جو کسی طور بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف موجودہ معاشی پالیسیوں پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں، بلکہ آئندہ مالی چیلنجز کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ درآمدات میں 13.49 فیصد کا اضافہ ہوکر 16 ارب 97 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز تک پہنچنا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا درآمدی انحصار کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہا ہے۔ اس کے برعکس برآمدات میں 3.83 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی، جو پہلی سہ ماہی کے دوران 7 ارب 60 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز رہی۔ صرف ماہِ ستمبر میں سالانہ بنیاد پر برآمدات میں 11.71 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی، اگرچہ ماہانہ بنیاد پر اس میں 3.64 فیصد بہتری ضرور دیکھی گئی۔ یہ رجحانات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پاکستانی معیشت عالمی منڈی میں اپنی مسابقت کھو رہی ہے۔ برآمدات میں کمی کا مطلب ہے کہ نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھے گا بلکہ ملک کی کرنسی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مزید برآں، درآمدات میں اضافہ مہنگائی، تجارتی خسارے اور بیرونی قرضوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ان حالات میں حکومت اور پالیسی ساز اداروں کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ فوری اور موثر اقدامات کریں۔ سب سے پہلے، برآمدات کے فروغ کے لیے جامع پالیسی متعارف کروانا ہوگی، جس میں برآمدی صنعتوں کو سہولتیں، سستی توانائی اور بین الاقوامی مارکیٹس تک رسائی شامل ہو۔ دوسری طرف، غیر ضروری درآمدات پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں اور مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ درآمدی انحصار میں کمی آسکے۔ اس کے علاوہ، زرعی اور صنعتی پیداوار کو بڑھانے کے لیے تکنیکی بہتری، سرمایہ کاری کے فروغ اور کاروباری آسانی کو ترجیح دینا ہوگی۔ اگر حکومت نے فوری اور دوررس فیصلے نہ کیے، تو بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ مستقبل قریب میں معاشی بحران میں بدل سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ وقت سیاسی نعرے بازی کا نہیں بلکہ عملی اور مربوط اقدامات کا ہے، تاکہ ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر ڈالا جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button